اب یہاں سے کہاں جائیں ہم

عزیر احمد
ہندوستانی حکومت کی اولیات میں سے شاید تعلیم نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کا نزلہ ہمیشہ یونیورسٹیوں پہ گرتا رہتا ہے، اور ظاہر سی بات ہے اس حکومت کی اولیات میں سے ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ اس حکومت میں زیادہ تر جاہل ہی بھرے پڑے ہیں، پردھان منتری کے تعلیمی لیاقت کے بارے میں روز چہ میگوئیاں ہوتیں رہتیں ہیں، حکومت کی سابق وزیر تعلیم انٹر فیل رہ چکی ہے، پھر ایسی حکومت سے ہم تعلیم کے بارے میں کیا امید لگا سکتے ہیں۔
پورے ہندوستان میں ایک ہی ریسرچ کی ٹھیک ٹھاک یونیورسٹی ہے، اب اس پہ بھی پہرے بٹھائے جارہے ہیں، غریبوں اور دلتوں کی پڑھائی کا راستہ بند کیا جارہا ہے، اور سب سے خطرناک یہ کہ اس کے ایم.فل اور پی.ایچ.ڈی کے سیٹوں کو ختم کیا جارہا ہے۔
جواہر لال نہرو ہندوستان کی واحد یونیورسٹی ہے، جو ریسرچ یونیورسٹی کے نام سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے، اسے ایشیا کا آکسفورڈ بھی کہا جاتا ہے، سوشل سائنسز کی دنیا کا یہ ایک چمکتا ستارہ ہے، یہاں کے پروفیسرز کی اہمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، پر افسوس کی بات ہے انٹرنیشنل لیول پہ جس یونیورسٹی کو تسلیم کیا جاتا ہے، نیشنل لیول پہ اسے برباد کرنے کی سازشیں کی جاتیں ہیں، اینٹی نیشنل سے لیکے اینٹی انڈیا تک کے لقب اسے دیے جاتے ہیں، لیکن ان تمام کے باوجود یہ یونیورسٹی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے، اس کی شعائیں کبھی مدھم نہیں پڑتیں ہیں، اس کے دروازے ہمیشہ سب کے لئے کھلے رہتے ہیں، پر اس یونیورسٹی کی بدقسمتی اب کی بار اسے ایک ایسا وی.سی مل گیا ہے جو ضدی، انانیت کا مارا، خود پسندی کے زعم میں مبتلا، آوازوں کو سن کے ان سنی کرنے کا عادی، ڈکٹیٹرشپ کا دلدادہ ہے، اسے طلباء کی مانگوں سے نفرت ہے، احتجاج اور مظاہروں کا مخالف ہے، وہ انسان کو صرف مشین کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے، وہ احساسات و خیالات کو فنا کردینے کا حامی ، اور پیسے کو انسان کا مقصد بنانے کا خواہش مند، حکومت کا پپٹ، اس کے قدم جب سے جے. این. یو میں پڑے، جے. این. یو پہ منحوسیت کا بادل چھا گیا، ہر روز ہنگامے، ہر روز معزولیات
یہ شخص جے.این.یو سے نکلنے کے بعد شاید کسی عہدے کا خواہش مند ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ وہی کرتا ہے، جو حکومت میں بیٹھے اس کے آقا چاہتے ہیں، یو جی سی کوئی سرکلر جاری نہیں ہوتا ہے، کہ وہ اسے نافذ کرنے کے لئے پہلے سے تیاری نظر آتا ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یونیورسٹی ایک Autonomous Body ہوتی ہے, اس کے اپنے رول اور قاعدے ہوتے ہیں، جب کہ یو.جی.سی صرف ایک ہدایت دینے والا سرکاری ادارہ ہے، وہ اپنے کسی بھی فیصلے کو یونیورسٹی پہ Impose نہیں کرسکتا ہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں یو.جی.سی نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، جس کے مطابق ایک پروفیسر کے تحت صرف تین ایم.فل اسٹوڈنٹ اور آٹھ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہوسکتے ہیں، اسی طرح اسوسیٹ پروفیسر دو اور چھ، اور اسٹنٹ پروفیسر ایک اور چار اسٹوڈنٹ کی رہنمائی کرسکتا ہے، یو جی سی کا یہ فیصلہ اگر نافذ کردیا تو تین چار سالوں تک ریسرچ کے شعبوں میں Massive Seat Cut ہوجائیگا، جس کی وجہ سے پورے ملک میں ریسرچ کا شعبہ بری طرح متاثر ہوجائے گا، اور نجانے کتنے اسٹوڈنٹ کا اسکالر، ریسرچر اور پروفیسر بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔
جب سے بی.جے.پی کی حکومت بنی ہے، یو.جی.سی کے ذریعہ ہر سال الٹے سیدھے کارنامے انجام دے رہی ہے، ابھی پچھلے سال نان نیٹ فیلوشپ روکنے کی کوشش کی تھی، اب اس سال سیٹ کٹ آف، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حکومت کیا کرے گی، پہلے مسلمانوں پہ حملہ، پھر کسانوں کے مفادات پہ حملہ، ان کی خودکشیوں کا مذاق، اب اسٹوڈنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن، اور خواب دیکھے جارہے ہیں ملک کو Knowledge Superpower بنانے کا، شاید اسی کو کہا جاتا ڈے ڈریم۔
جب ہم پوری دنیا کے ممالک پہ نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں سے جو ایجوکیشن پہ اپنی بجٹ کا بہت مختصر حصہ خرچ کرتے ہیں، اب جتنا خرچ کیا جارہا ہے، اس کو بھی کم کرنے کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں۔
یو. جی. سی نے سرکلر جاری کیا، اور سنگھی وی. سی اسے اپنانے کے لئے ٹوٹ پڑا، شاید اس سے اس کا مقصد حکومت کو یہ دکھلانا ہو، کہ دیکھئے ہم کتنے ایماندار ہیں، حکومت کی پالیسیوں کو اپنانے میں کتنا آگے ہیں، آپ ہمارے اوپر بھروسہ کرسکتے ہیں، اور یہاں سے جانے کے بعد ہمیں کچھ منصب اور عہدیداری سونپ سکتے ہیں، کسی صوبے کا گورنر بنا سکتے ہیں، وزیر تعلیم بنا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
بہر حال اس سے وی.سی کا کچھ بھی مطلب ہو، مگر اس کا ہر اٹھتا قدم جے.این.یو کی شناخت کے لئے خطرہ ہے، تعلیم کے پھیلے ہوئے بادل کو سمیٹنے کی کوشش ہے، ریسرچ کی روانی پہ قدغن لگانا ہے، ایسے حالات میں تمام اساتذہ اور طلباء سے میری یہی اپیل ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد جمع ہو کر میں وی.سی کے خلاف احتجاج کیا جائے، اور اسے یہ فیصلہ واپس لینے پہ مجبور کیا جائے، نہیں تو دو سال اور تین سال بعد ہم اپنی ڈگریاں ہاٹھ میں لئے سر جوڑ کے بیٹھے ہوں گے، اب یہاں سے کہاں جائیں ہم۔

SHARE