محمد عمران
کوئی بات جب اہمیت کی حامل ہوتی ہے تو اس سلسلے میں بہت ہی سنجیدگی کامظاہرہ کیاجاتاہے۔اس بات کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے کہ ہم سے کوئی ایسا کام نہ انجام پاجائے جس سے مذکورہ بات کی اہمیت میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع ہوجائے۔ یہ بھی ملحوظ خاطر رہتاہے کہ اس کام میںکوئی ذاتی نقصان نہ ہو ،اس بابت کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع ہاتھ نہ آجائے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہوتی ہے کہ بعد میں یہ ندامت اور شرمندگی کا ذریعہ نہ بن جائے۔اس لیے جو کچھ بھی کیاجاتا ہے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب صلاح مشورہ ،غوروفکر اور بھلے برے کی تمیز کرلینے کے بعد ہی کیاجاتاہے۔اوراس کے لئے نہ تو کسی قسم کے اشتعال کا سہارا لیا جاتاہے اور نہ ہی جذبات کی رومیں آکر کسی سطحی یاوقتی مفاد پر اعلیٰ قسم کے دائمی مفاد کو قربان کردینے کے کسی فیصلے کو اوّلیت دی جاتی ہے۔
اگر وطن عزیز کے منظرنامے میں دیکھیں تو دنیاکی بڑی جمہوریت کے ناطے یہاں کی سب سے اہم بات انتخابات اور اس کی سرگرمیاں قرار دی جاتی ہیں۔کیونکہ باقی سبھی امور اسی کے بعد طے کیے جاتے ہیں،حکومتیں انتخابات کے بعد تشکیل پاتی ہیں ،پالیسیاں بعد میں بنائی جاتی ہیں اور ملک کامستقبل ترقی کے نئے رخ کی جانب اس کے بعد ہی گامزن کیاجاتاہے۔اس بابت اگر حالات کا بغور معائنہ کیاجائے تو یہ معلوم ہوگا کہ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور ،اپنے نظریات اور شخصی خوبیوں کی بنیاد پر انتخابات میں سرگرم ہوتی ہیں اور عوام کے رحجان کو اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے تشہیری عمل میں نہ صرف اپنا زور باز و بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنا وقت بھی وقف کردیتی ہیں۔حالانکہ عوام بھی ان کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جمہوریت کے وقار کو بحال رکھتے ہوئے ذاتی طور پر اپنے ووٹ کے حق کے استعمال کی آزادی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن انتخابی ماحول کے پیش نظر سیاست کی فریب کاری کے تعلق سے حقائق اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ کبھی مذہب،کبھی ذات پات،کبھی علاقہ ،کبھی رشتہ وتعلق اور کبھی خوف کی وجہ سے عوام ووٹ دینے کے سلسلے میں عموماً اپنی ذات کے اعتبار سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے ہیں اور مذکورہ بالا امور میں جو سب سے زیادہ حاوی ہوجاتاہے اس کی ہی اتباع کرکے اپنی بیداری والے فیصلے کو اس پر قربان کردیتے ہیں۔
ہندوستان کے منظرنامے پراس کاجو نتیجہ برآمد ہوتاہے اس سے ہندوستان کا ہرشہری بخوبی واقف ہے۔یہاں یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں ہے کہ اسی کی وجہ سے ملک سے غریبی ابھی بھی ختم نہیں ہوسکی ہے،اسی کی وجہ سے بے روزگاری کی رفتار ابھی بھی تیز سے تیزتر ہے،غالباًیہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے زور میں ابھی بھی کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ روزافزوں اضافہ ہی ہورہاہے، غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسی کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھونے کی اپنی کوششوں میں ہر روز کامیاب ہورہی ہے،یہی سبب ہے کہ ملک میں خواتین ابھی بھی محفوظ نہیں ہوپارہی ہیں اورنربھیا جیسے واقعات ابھی بھی رونما ہورہے ہیں،اب دیکھئے نہ عصمت دری کے واقعات ہوں یا پھرلوٹ کھسوٹ کے ،ابھی بھی اسی رفتار سے جاری ہیں، عوام کے سیاسی بہکاوے میں آجانے کاہی سبب ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے ہندوستان کے گھروں میں آج بھی کہرام مچتاہے۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی مذہبی تفریق ،فرقہ وارانہ فسادات اور اقلیتوں یعنی مسلمانوں کی ہلاکتیں بے قصوروں کی گرفتاریاں ،مدتوں تک جیلوں میں اپنی زندگی کے قیمتی اوقات گزار دینے کے بعد ان کی رہائی،انہیں کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہ دیا جانا،نجیب کی گمشدگی ،روہت ویمولہ کی خودکشی اور فرضی انکائونٹروغیرہ جیسے معاملات کاچلن بڑھ رہا ہے اورجن سے ہندوستانی معاشرے کو بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ مسلسل شرمساربھی کیا جارہا ہے۔
یہاںیہ سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ سیاست کی روٹیاں آج بھی اسی رفتار سے اسی طرح کی آگ پر سینکی جارہی ہیں۔عوام کا جونقصان ماضی میں ہورہاتھا ،اورجس کو ختم کیے جانے کی بڑی ضرورت تھی ، حیرت ناک امریہ ہے کہ آج اس میں کوئی کمی واقع ہونے کے بجائے روزافزوں اضافہ ہی ہورہاہے۔آج جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے حقیقی بادشاہ یعنی عوام کو ہی لوٹا جارہا ہے،اور عوام کو اس معاملے کی سنجیدگی کو سمجھنے سے قاصر کرتے ہوئے انہیں محض مذہب ،ذات اور تعلق وفرقہ کی اہمیت سمجھائی جارہی ہے،جس کا نتیجہ یہ برآمد ہورہاہے کہ انسانیت کا چراغ گل ہوجانے کے ساتھ ہی ہندوستانی مزاج کی بھی موت واقع ہوجارہی ہے اور دنیا کی بڑی جمہوریت بھی افسوسناک طریقے سے اپنی پامالی کی جانب گامزن ہوتی چلی جارہی ہے۔
لیکن یہ ہماری خوش بختی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں تمام گردش حالت کے باوجود اپنی اہمیت کے ساتھ انتخابات کے سلسلے ابھی بھی اپنی رفتار سے جاری ہیں۔عوام کی نمائندگی اور ان کی اہمیت کا سلسلہ ابھی بھی پہلے کی طرح برقرار ہے ۔اب دیکھئے ،آج ملک میں ہونے والے عام انتخابات ہوں یااسمبلی انتخابات یا پھربلدیاتی انتخابات ہرسطح پر عوام کی حصہ داری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ، ان انتخابات میںتقریباً ہربار ووٹ فیصد پہلے کے مقابلے کچھ زیادہ درج کیاجارہاہے،اس سے بظاہر تو ایساہی لگتاہے کہ عوامی بیداری کی وجہ سے ہی یہ سب کچھ ہورہاہے ،لیکن اگر تجزیہ نگاروں کی بات کو تسلیم کریں تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ کسی حدتک ووٹ فیصد میں یہ اضافہ اور انتخابات میں عوامی شرکت آئینی جمہوری مزاج کو پائیداری عطاکرنے کے بجائے کسی حد تک اس کی تشویشناک موت کابھی سبب بن رہی ہے،تبصرہ نگارتو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اتنی کثیرشرکت کسی خوشگوار تبدیلی کے بجائے مخصوص ذہنیت کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے ۔
غورکیجئے1949میں بابری مسجد میں مورتی رکھ دینے کا شرمناک واقعہ ہو،1992میں بابری مسجد کی شہادت ہو ،ملک میں سیکولرازم کا خون کرتے ہوئے مستقل بڑھنے والی فرقہ وارانہ سیاست ہو، 2014کے عام انتخابات کی اشتعال انگیزی اور اس میں صرف مسلم مخالف ماحول کاشاخسانہ ہو ،اس کے بعد مسلسل سیکولرازم کی مخالفت کے معاملات ہوں،ہندو راشٹرکی تعمیر کی آئین مخالف کوشش ہو ،محمداخلاق کا قتل ہو،گئو رکشا کے نام پر ہندوستان کی رکشا کے لئے درپیش خطرات ہوں ،یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی توہین آمیز کوششوں سے ہندوستان کی شناخت اور اس کی تکثیر میں پنہاں یکسانیت ہی ختم ہونے کی کگار پر پہنچ چکی ہو ۔اگر ان سب کے لئے اہل اقتدار کی سازش اور خود غرضانہ سیاست کو مورد الزام ٹھہرانے کے ساتھ عوامی طبقے کو بھی ذمہ دار ٹھہرالیاجائے تو غالباً اس میں کسی طرح مغالطہ کی گنجائش باقی نہیں ہوگی۔ کیونکہ بلاشبہہ عوام ہی جمہوریت کے بادشاہ قرار دیئے جاتے ہیں ،اور وہی سیا سی بہکاوے میں آجانے کے سبب حق پر رہتے ہوئے بھی اپنے حق رائے دہی کا بروقت اور مناسب استعمال نہ کرکے مذہب اور ذات پات کے نام پر جذبات و اشتعال کے شکار ہوجاتے ہیں اور پھر ہندوستان جیسی جمہوریت میں ایسی حکومت قائم ہوجاتی ہے جو نعرے تو خوب لگاتی ہے لیکن کام کے نام پر عوامی استحصال کو ہی اپنی اولین ترجیح میں شامل کرلیتی ہے،اس کے اچھے دن کے وعدے بھی کہیں گم ہوجاتے ہیں،عوام کے اکائونٹ میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کے وعدے کو محض انتخابی جملہ قرار دے دیاجاتا ہے اور عوام کو لائن میں کھڑا کے انہیں پریشانیوں سے دوچار کردینے والا نوٹ بندی جیسا فرمان بھی جاری کردیا جاتاہے۔
ایسے ماحول میں ہندوستان کی بڑی ریاست اترپردیش کی انتخابی سرگرمی بہت ہی اہم ہوجاتی ہے۔کیونکہ یہاں کے اس انتخابی عمل کے بعد ہی ملک کا مستقبل بھی طے ہونا ہے کہ آخر یہ ملک کس رخ پر جائے گا۔یہ سوالات بھی یقینی طور پر ذہن میں رہنے چاہئیں کہ کیا جمہوری ملک میںعوامی بہکاوے کی سیاست جاری رہنی چاہئے ،کیا جذبات اور اشتعال کا سہارا لے کر ملک میں تفریق اور انتشار کو بڑھاوا دینے والوں کو موقع دے کر ملک کو کمزور کرنے کا حمایتی بننا چاہئے اورکیا گنگا جمنی تہذیب کا زندہ رکھنے کے لئے گنگا اور جمنا کو اپنی آغوش میں جگہ دینے والی ریاست اترپردیش میں عوام کو ایک بار پھر کمر بستہ نہیں ہوجانا چاہئے؟بادل نخواستہ مان لیجئے اگر فرقہ پرستی کا ڈھول پیٹنے والی جماعت بی جے پی صوبے کے انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یقینی طورپرراجیہ سبھامیں بھی اس کے ممبران کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجا ئے گا،اس طرح مرکز سے لے کر صوبہ تک متعصبانہ نظریات اور انتشار و اشتعال کے فروغ پانے کاشدید اندیشہ بھی بڑھ جائے گا،جس کا اعلان گاہے گاہے مختلف صورتوں میں ان کے لیڈران کی جانب سے بھی کیاجاتا رہاہے،جو یقینی طور پر ملک کی سالمیت کے لئے خطرناک بھی ہے۔جس کو اس وقت اتر پردیش کے عوام کو بھی سمجھنا ہوگا۔غالباًحالات کی اسی سنگینی کی وجہ ہے کہ آج وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے دو الگ نظریات پر قائم سماجوادی پارٹی اور کانگریس پارٹی متحدہ طور پر بی جے پی کے سیکولرازم مخالف نظریات کو شکست دیتے ہوئے یوپی انتخابات میں اتری ہیں۔ دوسری جانب بہوجن سماج پارٹی نے بھی بڑی تعداد میں مسلمان نمائندوں کو ٹکٹ دے کر بی جے پی کے ہندوراشٹر بنانے اور آرایس ایس کی جانب سے سب کی قومیت ’ہندو‘ قرار دینے کی آئین مخالف کوشش کو شکست دینے کا ذمہ اٹھایا ہے ۔حالانکہ اتر پردیش کے حالات اس وقت یہ انکشاف بھی کررہے ہیں اور تجزیہ نگار بھی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ فرقہ پرستی کی پستی کا آغاز ہونے والاہے اور بی جے پی کے لئے اتر پردیش سے کوئی اچھی خبر نہیں آنے والی ہے،کسی حد تک بی جے پی کو بھی اس بات کا اندازہ ہے غالباً اسی لئے اس کے خیمے وہ سرگرمی دکھائی نہیں دے پارہی ہے جس کے لئے وہ بدنام زمانہ رہی ہے۔
لیکن پھر بھی اصل فیصلہ تو اس وقت ریاست کے تمام باشندوں کے ساتھ ہی اترپردیش میں زیادہ تر اسمبلی کے نشستوں پر فیصلہ کن اختیار رکھنے والے مسلمانوں کو لینا ہے۔تجزیہ نگاربھی بڑی سنجیدگی سے اس بات کو مانتے ہیں کہ موجودہ ماحول میں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی بھی تقسیم خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اس لئے انہیں بھی بہت ہی سنجیدگی سے سوچناہوگاکہ کس پارٹی کی کامیابی ملک سے فرقہ پرستوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے؟غور کیجئے کہ اگر واقعی اپنے پیارے ملک کو صحیح سمت میں لے جانا ہے ، اس کو پراگندہ ماحول سے باہر نکالنا ہے ،اخوت و محبت کے ماحول میں جیتے ہوئے ہندوستان کے آئین کو ہمیشہ کے لیے زندہ کردینا ہے ،یہاںعوام کی حقیقی فلاح و بہبود کی فضا ہموار کردینی ہے اور ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنا دینا ہے تو اس لحاظ سے رائے دہندگان کی جانب سے اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو یقینی طور پر بہت ہی اہم سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ جو نتیجہ یہاں سے آئے گا اسی کے اثرات پورے ملک پر پڑنے والے ہیں ۔آخر میں یہ گزارش کرتے چلیں کہ ملک کو ایک سمت دینے والے اترپردیش کے رائے دہندگان آگے بڑھیئے اور اس اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیجئے۔
mohd1970imran@gmail.com