روزہ : جذبۂ اطاعت کو پختہ کرنے کی ٹریننگ

محمد اللہ قیصر 

روزہ میں تین چیزوں کی ممانعت ہے، کھانا، پینا، اور ہمبستری، غور کیجئے دوچیزیں جسم کی بنیادی ضروریات ہیں اور ایک نفس کا اہم تقاضا، عموماً چار پانچ گھنٹوں کے بعد جسم غذا اور پانی کا تقاضا کرتا ہے، دورانیہ طویل ہو تو جسم میں غذا اور پانی کی کمی ہو جاتی ہے، جسم لاغر ہوجاتا ہے، فتور کا شکار ہوجاتا ہے، اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں ، جسم کا ہر عضو اس قدر بے سدھ ہو جاتا ہے کہ کسی کام کی سکت نہیں رہتی، کھانے پینے میں تاخیر کی وجہ سے جسم سستی کا شکار اس لئے ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح کو دماغ کنٹرول کرتا ہے، وہی غذا سے ملنے والی انرجی کے ذریعہ دوسرے اعضاء و جوارح میں موجود اعصابی نظام تک اشارے بھیجتا ہے تو ان میں حرکت ظاہر ہوتی ہے، اور کھانے پینے میں کمی سے دماغ کو مطلوبہ توانائی نہیں ملتی تو اس میں کمزوری ظاہر ہوتی ہے، جس سے دماغ ضروری مقدار میں اشارے نہیں بھیج پاتا، اور جب دماغ سے ملنے والے اشارے کمزور پڑتے ہیں تو اعضاء میں سستی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ان دونوں کا تعلق جسم سے ہے، یہ جسم کیلئے مفید ہیں لہذا کمی کی صورت میں جسم غذا اور پانی کا تقاضا کرتا ہے جو بے چینی اور اور ڈھیلے پن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، تیسری چیز ہے نفسانی خواہش سے پر ہیز، یہ جہاں جسمانی صحت کیلئے ضروری ہے وہیں اس کا تعلق انسانی جذبات سے ہوتا ہے، کبھی کبھی یہ جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان اس کے سامنے مغلوب ہوجاتا ہے، اس پر قابو پانا انسان کیلئے انتہائی مشکل ہوجا تا ہے۔

اللہ رب العزت نے ماہ رمضان میں ان تینوں چیزوں سے منع کر دیا، ان میں دو چیزیں تو جسم کی بنیادی ضروریات ہیں، جسمانی صحت کا دارو مدار ان پر ہے، اور تیسری چیز ایسا جذبہ ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہوجاتا ہے، اس پر قابو پانا بہت آسان نہیں ہوتا، یہ بھی طے ہے کہ جس چیز کی ضرورت جتنی شدید ہوتی ہے اس سے اجتناب اتناہی مشکل ہوتا ہے، لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ انتہائی ضروری ہونے کے باوجود بندہ ان تینوں چیزوں سے خود کو روک لیتا ہے، خلاف ورزی کا خیال بھی نہیں گذرتا، آخر کیوں، وہ کیا چیز ہے جو انسان کو ان چیزوں سے بھی پرہیز پر مجبور کر دیتی ہے جن سے عام دنوں میں پرہیز کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا، بلکہ ان سے اجتناب مہلک ثابت ہوسکتا ہے، کوئی چیز تو ہے جس میں، اتنی قوت ہے کہ وہ انسان کو اس کی شدید ترین بنیادی ضروریات سے بھی روک سکتی ہے سوال ہے کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک جذبہ ہے، اطاعت الہی کا جذبہ ، یہ احساس کہ یہ میرے رب کا فرمان ہے، اس کا حکم ہے، کہ کھانے اور پانی کو حلق سے نہیں اتارنا ہے، لہذا بندہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے سارا دن بھوکا پیاسا رہ جا تا ہے، کھانے پینے کی ضرورت کا احساس اور اس سے پرہیز کی صورت میں ہلاکت کا خوف، ختم ہوجاتا ہے، گویا اطاعت الہی کا جذبہ اتنا طاقت ور اور مضبوط جذبہ ہے کہ جن چیزوں میں انسانی جسم کی بقاء ہے، اسے بھی ترک کرنے پر انسان کو مجبور کردیتا ہے۔

ذرا غور کیجئے انسان اسلئے پر ہیز کرتا ہے کہ خالق کا حکم ہے، لہذا روزہ اطاعت الہی کا مظہر ہے، اطاعت کا جذبہ نہیں ہوگا تو اتنی بنیادی ضروریات سے انسان کیوں کر پرہیز کر سکتا ہے، اس کے سامنے ہزاروں بہانے ہیں، صحت مثاثر ہوگی، جسم کمزور پڑ جائے گا، وہ روز مرہ کے کام نہیں کرسکتا، لہذا انسان یہی چاہے گا کہ صحت کی حفاظت کیلئے اسے کھالینا چاہئیے، پیاسا رہنا بیکار ہے، لیکن جب اسے خیال آتا ہے کہ رب کریم کا حکم ہے کہ سامنے چاہے جتنے لذیذ کھانے موجود ہوں صبح صادق سے غروب آفتاب تک اسے نہیں کھانا ہے، چاہے جتنے مقوی اور مفرح القلوب مشروبات رکھے ہوں اسے نہیں پینا ہے تو بندہ ہاتھ بھی نہیں لگاتا، کھانے پینے کی ضرورت کے احساس، اور نفسانی خواہش کے زور کا مقابلہ اطاعت الہی کے جذبے سے ہوتا ہے تو رب کی اطاعت کا جذبہ جیت جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں “اطاعت” روح کا تقاضا ہے، کھانا پینا جسم کا، دونوں میں ٹکراو ہوتا ہے تو روحانی تقاضے کی جیت ہوتی ہے۔اس کا پلڑا بھاری پڑتا ہے۔

یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اتنی بنیادی ضروریات سے منع کرنے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے، اللہ رب العزت نے فرمایا لعلکم تتقون، (تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو) ،

اطاعت الہی کا جذبہ جب اتنی بنیادی ضرورتوں سے روک سکتا ہے تو وہ دوسرے سیئات اور اوصاف خبیثہ سے کیوں نہیں روک سکتا، ایک انسان اگر یہ سوچتا ہے کہ رب کریم کا حکم ہے کہ جسم کے لاکھ مطالبہ کے باوجود وہ کھانا اسے مت پہونچاؤ جس پر جسم کی بقاء کا مدار ہے تو وہ منہ میں ایک لقمہ نہیں ڈالتا، زبان خشک ہوجاتی ہے، حلق سوکھ جاتا ہے، بولنے کی سکت نہیں رہتی، وہ جانتا ہے کہ اگر ایک گھونٹ پانی پی لے تو یہ ساری پریشانیاں چشم زدن میں دور ہوسکتی ہیں پھر بھی وہ پانی کو ہاتھ تک نہیں لگاتا، اطاعت کا جذبہ ضرورت پر بھاری پڑتا ہے، پتہ چلا کہ اگر زندگی کے ہر گوشے میں اطاعت کو اولیت دی جائے، اس جذبے کو مضبوط کیا جائے، تو معاصی کا صدور ناممکن ہے، جتنے معاصی ہیں وہ یا تو جسم کے تقاضوں کی قبیل سے ہیں یا خواہشات نفسانی کی قبیل سے، اس پورے مہینہ یہ تمرین کرائی جاتی ہے کہ جسم کا تقاضا ہو یا نفس کی خواہش اس سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اس کے مقابلے اطاعت کا احساس بیدار اور مضبوط رہے، اگر رب کریم کے حکم کا استحضار ہو گا تو جسم کا تقاضا ، چاہے جتنا شدید ہو، نفس کی خواہش جتنی زور آور ہو ان تمام چیزوں سے پرہیز ممکن ہے، جس طرح روزہ دار کے پیش نظر رب کا حکم ہوتا ہے اسلئے وہ جسمانی ضروریات و خواہشات نفسانی کی تکمیل سے اجتناب کرتا ہے، اسی طرح ہر عمل میں یہ احساس زندہ رہے تو اس کیلئے منکرات و سیئات سے بچنا آسان ہوگا، نفس کہیں یہ بہانا نہیں کرسکتا کہ اس کے اندر ان منکرات سے احتراز کی سکت نہیں، اس لئے کہ وہ پورے مہینہ حکم ربانی کی خاطر اپنی شدید ترین ضروریات و خواہشات سے احتراز و اجتناب کی مشق کر چکا ہے۔

اطاعت الہی کا احساس دو طرح سے بیدار ہو سکتا ہے۔

اللہ کی محبت اور اس کی ناراضگی کے خوف سے، اور اسی محبت اور خوف کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے فرمانبرداری کے جذبہ اور اس جذبہ کے مطابق عمل کو تقوی کہا جاتا ہے، جو روزے کا اہم مقصد ہے، رمضان میں اسی تقوی کی ٹریننگ مقصود ہے، اس ماہ مبارک میں، اسی کی پریکٹس کرائی جاتی ہے، اور اسی جذبہ کو پختہ کیا جاتا ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com