ویلنٹائن ڈے، حقیقت، تاریخی پس منظر اور اسلامی نقطہ نظر!

اے ایچ اصغرقاسمی،دیوبندی
ویلنٹائن ڈے کی اصل کیا ہے ؟ اور یہ کیسے رواج پایا ؟ اس بارے میں کوئی مستند حوالہ یا حتمی رائے موجود نہیں ہے حتی کہ اس کی تاریخ اور ماہ کے حوالے سے بھی کلیساؤں میں واضح اختلاف ہے۔
کچھ 6جولائی کو یہ دن مناتے ہیں تو کچھ 14فروری کو ۔
البتہ کچھ ایسے واقعات لوگوں میں مشہور ہیں جن کی طرف اس دن کو منسوب کیا جاتا ہے ۔ مگر ان کا کوئی معتبر حوالہ کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
ایک مشہور و معروف واقعہ جو ویلن ٹائن نامی شخص کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔
یہ غیر مستند اور خیالی داستان یوں بیان کی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری ((Priestتھا جو ایک راہبہ( (Nunکی محبت میں پڑ گیا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنے مطلب برآوری کے لئے اس کے سامنے اپنا ایک جھوٹا خواب بیان کیا کہ اسے خواب میں بتلایا گیا ہے کہ اگرچہ عیسائیت میں راہب و راہبات کے لئے شادی اور صنفی ملاپ ممنوع ہے لیکن 14 فروری کے دن اسکی ممانعت موقوف ہوگئی ہے اور اس دن ان کو بھی شادی و صنفی ملاپ کے لئے رخصت دے دی گئی ہے۔
راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور پھر وہ دونوں وہ سب کچھ کر گزرے جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔
آخرکار کلیسا کی روایات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں اور عشق پرستوں نے ویلن ٹائن کوشہید محبت اور اس دن کو ’’یوم محبت‘‘قرار دیتے ہوئے اس کی یاد میں دن منانا شروع کردیا۔
ویلنٹائن سے منسوب یہ کہانی کبھی ایسے بھی بیان کی جاتی ہے کہ___ روم کے کسی بادشاہ نے اپنے فوجیوں کے لئے شادی کرنا ممنوع قرار دیا ہوا تھا ۔ اور ویلنٹائن فوجیوں کی شادی کرانے کے جرم میں قید اپنی پھانسی کا منتظر تھا ۔ جہاں اس کا جیلر کی بیٹی سے معاشقہ ہوگیا اور پھر جیلر نے بہلا پھسلا کر اس کو اپنے دام میں پھنسا لیا ۔ جب ویلن ٹائن کو پھانسی پر لے جایا جانے لگا تو اس نے جیلر کی بیٹی کو محبت بھرا الوداعی خط لکھا جسکے آخر میں لکھا ’’تمہارا ویلن ٹائن‘‘۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار کی صورت میں ہوا۔
وہ اس طرح کہ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی خواتین دوست سے اظہار محبت کرنے کے لئے انکے نام اپنی آستینوں پر لکھ لیا کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ عاشق جوڑے آپس میں تحائف کا تبادلہ بھی کیا کرتے تھے ۔ بعد ازاں لوگوں نے ترقی کی اور تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز نے لے لی ۔
خیال رہے کہ حقیقت پسند کلیساؤں نے اس دن کی اور اس میں ہونے والی خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا ہے۔
اب آئیے ویلن ٹائن ڈے کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں_
ہر مذہب اور ہر قوم کے اپنے کچھ تہوار ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے اپنے طوروطریقے سے خوشیاں مناتے ہیں ۔ دین اسلام میں بھی ہیں ۔ نبی اکرم نے ہم مسلمانوں کو دو بہترین تہوار عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔ جب آنحضرت مدینہ تشریف لائے تو(صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے) فرمایا: (اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاء فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں)(نسائی باب صلوۃ العیدین )
لہذا معلوم ہوا کہ ایمان والوں کے لئے یہی دو دن تہوار کے ہیں۔کوئی تیسرا نہیں۔
نیز آپ صلہ اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے اور ان کے رسم و رواج کو اپنانے سے بھی شدت سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لئے وعیدیں بیان فرمائی ہیں ۔
مشہور حدیث ہے__من تشبہ بقوم فہو منھم__یعنی جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے(بروز قیامت اس حشر انہیں لوگوں کیساتھ ہوگا)۔ (ابوداوئد:کتاب الباس)
ایک دوسری صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ___ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ میں نے بوانہ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟)
آپ نے فرمایا: دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟
ان صحابی نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا (ہل کان فیہا عید من أعیادہم؟)کیا وہاں مشرکین کے تہواروں(میلوں) میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟ ان صحابی نے کہا:نہیں۔تو آپ نے فرمایا کہ (پھر اپنی نذر پوری کرو۔ کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی (کی مشابہت بھی)ہو اسے پورا کرنا جائز نہیں)(ابوداوئد کتاب الایمان والنذور)
اس مفہوم حدیث سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ شریعت اتنی پاکیزہ و مطہرہ ہے کہ اس میں کسی مشتبہ اور مشابہ بد کام کی بھی گنجائش نہیں ۔
علاوہ ازیں ویلن ٹائن ڈے منانا اخلاقی و سماجی اقدار کے لئے بھی نہایت ضرررساں ہے ۔ کیوں کہ ویلنٹائن ڈے فحاشی و جنسی بے راہ روی کا دوسرا نام ہے۔اسے معاشرے میں رواج دینا فحاشی و جنسی بے راہ روی کا دروازہ کھولنا ہے۔ جس قوم میں فحاشی و بے حیائی عام ہوجاتی ہے وہ قوم اخلاقی بربادی کی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے ۔مغربی و یوروپین معاشرے کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جہاں کنواری مائیں رفیق حیات کی منتظر اور پاپ کے بچے باپ کے متلاشی ہیں۔
فحاشی و عریانی فقط اسلام میں ہی نہیں بلکہ ہر مذہب و ہر قوم میں ایک قبیح و حرام فعل قرار پایا ہے۔
اسلام نہ صرف یہ کہ برائی سے روکتا ہے بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کو مسدود کرتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں___”یقیناًجو لوگ چاہتے ہیں کہ مؤمنوں میں فحش (و بے حیائی) پھیلے ان کے لئے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہے(النور)جبکہ ویلنٹائن تو ہے ہی بے حیائی اور فحاشی کا دن ۔ اس دن کیا کیا شیطانیت سرعام انجام پاتی ہیں وہ ظاہر ہے ۔ لہذا یہ کسی بھی صورت میں ایک دیندار و صالح معاشرے کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔