سنبھل سیٹ پر سہ رخی مقابلہ، مسلم ووٹ کی تقسیم پر بی جے کی جیت کا خدشہ

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

سنبھل قدیم شہر ہے، اس کو تاریخی دستاویزوں میں ’’سرکار سنبھل‘‘ لکھا گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانہ میں سنبھل کو راجدھانی کا مقام حاصل تھا۔ مغلوں کے دور میں بھی سنبھل کی امتیازی حیثیت باقی رہی۔ متعدد علماء کرام اس سرزمین میں پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن وحدیث کی ترویج میں نمایاں خدمات پیش کیں۔ البتہ برطانوی عہد حکومت میں دوسرے اہم مغل مراکز کی طرح سنبھل کا بھی زوال ہوا۔ انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لئے سنبھل کے متعدد حضرات نے قربانیاں دیں، جن میں میرے دادا مجاہد آزادی مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کا بھی ایک اہم نام ہے۔ ان کو انگریز حکومت کے خلاف شعلہ بیان تقاریر کی وجہ سے صرف ۲۲ سال کی عمر میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی دادا محترم کو کئی بار قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ ۱۹۳۶ اور ۱۹۴۶ کے دونوں الیکشن میں مولانا اسماعیل سنبھلی کو عوام نے اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ آزادی کے بعد۱۹۵۲ میں ہونے والے پہلے جمہوری اسمبلی الیکشن تک مولانا اسماعیل سنبھلی ہی اسمبلی میں سنبھل کی نمائندگی کرتے رہے۔ بعد میں اپنے استاتذہ کے مشورہ سے سیاست کو الوداع کہہ کر مدارس اسلامیہ میں دین اسلام کی خدمت انجام دینے میں مصروف ہوگئے۔ صحیح بخاری جیسی حدیث کی مستند کتاب مختلف اداروں میں پندرہ سال سے زیادہ زیادہ عرصہ تک پڑھائی۔ جمعےۃ علماء ہند سے منسلک رہ کر مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
۱۹۵۲ سے گزشتہ الیکشن تک اسمبلی کے ۱۶ الیکشن میں ۱۳ مرتبہ سنبھل سے مسلم امیدوار کو ہی جیت حاصل ہوئی۔ نواب عاشق حسین خان کے بیٹے نواب محمود حسن خان تین مرتبہ (۱۹۵۷، ۱۹۶۲، ۱۹۶۹)، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق چار مرتبہ (۱۹۷۴، ۱۹۷۷، ۱۹۸۵، ۱۹۸۹)، شریعت اللہ ایک مرتبہ(۱۹۸۰) اور نواب محمود کے بیٹے نواب اقبال پانچ مرتبہ (۱۹۹۱، ۱۹۹۶، ۲۰۰۲، ۲۰۰۷، ۲۰۱۲) اترپردیش اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ اس طرح تقریباً ۲۰ سال سے نواب اقبال اترپردیش اسمبلی میں مسلسل سنبھل کی نمائندگی کررہے ہیں۔ وہ اکھلیش یادو کی حکومت میں کابینہ وزیر بھی ہیں۔ ان کی مسلسل چار مرتبہ جیت کی بنیادی وجہ ان کے حریف ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا اس دوران مرادآباد سے دو مرتبہ اور سنبھل سے ایک مرتبہ پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونا ہے۔ ڈاکٹر برق ۲۰۱۴ کے الیکشن میں سنبھل پارلیمنٹ سیٹ سے دو لاکھ پچپن ہزار ووٹ لے کر صرف پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے مودی کی لہر میں بی جے پی امیدوار کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہوئے۔

۱۵ فروری کو ہونے والے الیکشن میں سہ رخی مقابلہ ہے۔ سماج وادی سے ایک بار پھر نواب اقبال الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کے پوتے ضیاء الرحمن کو ملائم سنگھ نے بلاری سیٹ سے ٹکٹ کا اعلان کیا تھا، مگر سماج وادی میں داخلی خلفشار کی وجہ سے اکھلیش یادو نے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا، جس پر ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے سماج وادی کو خیر آباد کہہ کر اپنے پوتے کو مجلس اتحاد المسلمین کا ٹکٹ دلایا اور نواب اقبال کے خلاف میدان میں اتار دیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ضیاء الرحمن بلاری سیٹ سے الیکشن لڑتے تو ایک پھر نواب اقبال کافی آسانی سے جیت حاصل کرسکتے تھے۔ بہوجن سماج سے رفعت اللہ عرف نیتا چھدّا کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ موصوف کا تعلق شہر سنبھل کے بجائے موسیٰ پور گاؤں سے ہونے کی وجہ سے آپ کی امیدواری کو بہت کمزور سمجھا جارہا ہے۔ مسلم ووٹ اگر تقسیم ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کے امیدوار ڈاکٹر اروند کو مل سکتا ہے۔
سنبھل سیٹ کے ۳ لاکھ ۵۳ ہزار ووٹرس میں تقریباً ۲ لاکھ ۲۰ ہزار مسلم ووٹ ہیں۔ ڈاکٹر برق کا تعلق ترک برادری سے ہے جو سنبھل سیٹ پر ایک لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ ہیں۔سنبھل کے کافی حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے شہر کے ہندو ووٹ کی اکثریت بی جے پی کو ہی جاتی ہے۔ شہر سنبھل کی ۷۸ فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جس کی روایت ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ہے۔ بہوجن سماج امیدوار کے کمزوری ہونے کی وجہ سے اُن کی شکست یقینی سمجھی جارہی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی یہ حکمت عملی ہونی چاہئے کہ ایک ایسے امیدوار کی حمایت کریں جو بی جے پی کی شکست کو یقینی بنا سکے۔ ۱۹۹۳ میں بھی اسی طرح کے ایک سہ رخی مقابلہ میں ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کو شکست دے کر بی جے پی کے ستیہ پرکاش نے جیت حاصل کی تھی۔
ایک طرف سنبھل کی سیاست میں نواب خاندان کا اہم رول ہے وہیں پچاس سال سے زیادہ سیاسی تجربات کے حامل ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ڈی پی یادو (۱۹۹۶)، ملائم سنگھ یادو (۱۹۹۹) اور پروفیسر رام گوپال یادو (۲۰۰۴)جیسے لیڈران نے پارلیمنٹ میں سنبھل کی نمائندگی کی مگر کوئی قابل ذکر ترقی کا کام نہیں کرواسکے۔ وہی ایک ڈگری کالج جو ۴۰ سال قبل موجود تھا آج بھی اپنی بے نوری پہ رو رہا ہے۔ انگریزوں کے زمانہ سے موجود حاتم سرائے سنبھل کا ریلوے اسٹیشن صرف جانوروں کا چارہ ڈھونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نواب اقبال محمود کی مسلسل ۲۰ سال سنبھل کی نمائندگی کے باوجود سنبھل تجارت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں ترقی نہیں کرسکا۔ اترپردیش کی موجودہ حکومت میں کابینہ وزیر ہونے کے باوجود پانچ سال میں سنبھل ضلع کا ہیڈکواٹر شہر میں تعمیر نہ کرانے، نیز ان کا اور ان کے بیٹے کا عوام کے ساتھ رویہ انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے لوگ نواب اقبال سے ناراض ہیں، جس کا فائدہ ڈاکٹر برق کے پوتے ضیاء الرحمن کو مل سکتا ہے، حالانکہ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے بھی سنبھل کی عوام کے لئے کوئی خاص کام حتی کہ تعلیم یا صحت کے میدان میں بھی کچھ نہیں کیا، مگر اُن کی صوم وصلاۃ کی پابندی اور پچاس سال سے زیادہ عرصہ سیاست میں رہنے کے باوجود برائیوں سے پاک وصاف رہ کر زندگی گزارنا قابل تقلید وعمل ہے، جس کا میں خود بھی شاہد ہوں کیونکہ ہمارا آبائی مکان اُن کے گھر کے بالکل سامنے ہے۔
شہر سنبھل کو سیاسی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک ترکوں کی آبادی والے مختلف محلوں پر مشتمل علاقہ دیپاسرائے، جہاں کے ووٹرس تقریباً ۳۰ ہزار ہیں، ڈاکٹر برق کا تعلق اسی علاقہ سے ہے۔ دوسرا حصہ میاں سرائے، نئی سرائے اور پنچو سرائے وغیرہ جہاں کے ووٹرس تقریباً ۳۰ہزار ہیں، نواب اقبال کا تعلق اسی علاقہ سے ہے۔نواب اقبال اور ضیاء الرحمن کی جیت کا فیصلہ کسی حد تک ۴۰ ہزار ووٹرس پر مشتمل سرائے ترین علاقہ کے ووٹرس کے فیصلہ پر منحصر ہے۔ اس الیکشن میں سرائے ترین سے کوئی امیدوار نہیں ہے۔
آخر میں سنبھل کی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر سابقہ تمام ریکارڈوں کو توڑ دیں۔ نیز سنبھل میں بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کو انتہائی کمزور اور کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے ووٹ نہ دیں تاکہ مسلم ووٹ صرف دو جگہ تقسیم ہوں۔ مسلم ووٹ تین جگہ تقسیم ہونے پر بی جے پی پارٹی جیت سکتی ہے۔