اسلام میں سیاست کا مقام

محمد شادان نفیس کانپوری

یقیناً مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، ہہمارے لئے اس میں سب سے بڑا چیلنج دینی اقدار، دینی روایات، عقائد اور اسلامی فقہ کے میدان میں ان مسائل کا حل اور جواب تلاش کرنا ہے جس سے بڑے بڑے انقلابات پیدا ہوئے ہیں، اور جس سے کئی بڑے بڑے میدان بھی کھل گئے ہیں، اس میں علماء کو اپنی بھر پور صلاحیتیں لگانے کی ضرورت ہے اور یہ حالات کی ستم ظریفی ہے، کہ یہ اتنے بڑے بڑے میدان ایسے حالات میں کھلے جب مسلمان اپنی تاریخ کے زوال پزیر دور سے گزر رہے تھے، ہمارے اسلاف کے زمانہ میں جب حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ائمہ مجتہدین کو حالات سے واسطہ پڑا، اس وقت یونان کا فلسفہ آیا تھا، علماء کرام اس کے جوابات دیتے تھے، نئی حکومتیں اور نئی فتوحات ہوئی تھیں، فقہی مسائل کے نئے میدان کھلے تھے، ان کے جوابات دینے کے لیے نابغئہ روزگار ہستیاں موجود تھیں، فقہاء عظام اور مجتہدین موجود تھے، ابو منصور ماتریدی، فخرالدین رازی اور امام غزالی رحمھم اللہ جیسے اللہ والے مفکرین موجود تھے، لیکن آج امت اپنے زوال کے دور سے گزر رہی ہے علماء میں بھی وہ صلاحیتیں اور جسمانی طاقتیں نہیں ہیں، اس درجہ کا اخلاص و تقوی بھی باقی نہیں رہا ہے، لیکن اللہ کو یہ دین قائم و دائم رکھنا ہے، ہر زمانے میں امت کے اندر ایسی شخصیتیں پیدا ہوتی رہیں گی جو ان مسائل کا اسلامی حل امت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے، ان میں ایک میدان، سیاست کا میدان ہے، لیکن جب ہم سیاست کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں سیاست کا جو تصور آتا ہے، وہ بہت غلط ہے، اس میں جھوٹ، وعدہ خلافی، ایک دوسرے پر الزام تراشی، حکومت سازی کے لئے چال بازی اور دھوکہ دہی شامل ہے، لمبے چوڑے عوام سے جھوٹے وعدے، خود غرضی وغیرہ بھی لازم طور پر آتی ہے،اور یہ تصور موجودہ سیاست کے پیش نظر بالکل صحیح ہے اس لئے کہ آج ہم اس قسم کی سیاست کا تجربہ اور مشاہدہ کرہے ہیں گویا سیاست ایک گندہ کھیل اور گھناؤنا عمل ہے- ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں یہ کھیل کچھ زیادہ ہی گھناؤنا بنا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کسی شریف باوقار سنجیدہ شخص کے بارے میں جب سنا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں ہے تو ہمارے دلوں میں ان کی عزت کم ہوجاتی ہے، ہم سیاست کو ان کی بلند شان اور اعلی مقام کے منافی تصور کرتے ہیں، خاص کر اگر کوئی دیندار صالح مزاج عالم دین سیاست میں حصہ لیتا ہے تو ہمارا تکدر انتہا کو پہونچ جاتا ہے کیونکہ ہماری نگاہ میں سیاست کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے سیاست خالص دنیاوی معاملہ بن گیا ہے، جس میں مکروفریب، جھوٹ، فساد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سیاست نام ہے بدعنوانی اور بدعہدی کا، ذخیرہ اندوزی اور اقربا پروری کا، عوام کے جذبات سے کھیلنے اور منافرت پھیلانے کا، سیاست نام ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا، آج کے سیاستداں اور ماہرین سیاست ارباب اقتدار بڑے شدومد کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیاست کا مذہب سے کوئی جوڑ نہیں، دونوں کو الگ الگ رکھنے میں ہی بھلائی ہے، تو میں ان کو صاف اور واضح طور پر یہ کہہ دینا چاہتاہوں کہ اسلام اور سیاست کی درمیان بڑا ہی گہرا تعلق اور ربط ہے، جہاں اسلام کی حیثیت ایک گلزار کی ہے تو وہیں سیاست کی حیثیت مرگزار کی ہے، اسلام اگر دریا ہے تو سیاست اسکی موج، اسلام اگر شجر ہے تو سیاست اس پر بکھرنے والی شبنم، تو اسی مستحکم رشتے کو برقرار رکھتے ہوے میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اسلام اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ اسلام اور سیاست کے موضوع پر کئی ساری کتابیں لکھی گئیں ہیں، تاکہ یہ بات متعصبین کے سامنے آجائے کہ سیاست کو اسلام سے جدا کرنا ممکن نہیں، لیکن یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ موجودہ سیاست کا اسلام سے دور دور تک کوئی ربط نہیں، ہماری آج کی سیاست اپنے اصول و ضوابط میں، اپنی طبعیت اور مزاج میں مذہب سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتی تو کیا؟ ایسی گھناؤنی سیاست کو مذہب کے ساتھ جوڑا گیا تو یہ مذہب کی پاکیزگی کو تار تار کرنا ہوگا؟ اس کا صاف جواب یہ ہےکہ مذہب کو سیاست سے جدا نہیں کیا جاسکتا، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اسلام نے سیاست کا جو اصول بتایا ہے وہ سیاست انسانی فطرت کے عین مطابق اور شان بندگی کے عین موافق ہے۔
جب ہم اسلام کی حقیقت و فطرت پر غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اسلام ایک جامع نظام زندگی پیش کرتا ہے، زندگی کے ہر شعبہ کے اصول و ضوابط رکھتا ہے، یہ اصول کسی فرد کے نہیں بلکہ خالق کائنات کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں، اسلام کا دستور زندگی اپنی جامعیت اور اکملیت کے لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے، اسلام نے عوام و خواص، حاکم و محکوم، امیر و غریب کو ایک سطح پر رکھ کر ان میں خاندانی، قبائلی، نسلی، ملکی تفریق کو ختم کیا ہے، اسلامی سیاست ہر ایک فرد کو اپنے دستور کے تابع بناتی ہے، کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دیتی، اسلامی سیاست حکمراں طبقہ کو یہ باور کراتی ہے کہ تم بھی قرآن اور آسمانی دستور کے تابع ہو، اسلامی سیاست نہ جمہوریت ہے، نہ اشتراکیت، نہ سامراجیت ہے، نہ بادشاہت بلکہ ایک شورائی نظام پیش کرتی ہے، جس معاملہ میں قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں وہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی ایک فیصلہ پر امت کے سنجیدہ اصحاب بصیرت تجربہ کار افراد کا اتفاق قابل قبول ہوتا ہے، اسلامی سیاست نہ کسی کی آزادی سلب کرتی ہے، اور نہ کسی کو بے راہ روی کے لیے آزاد چھوڑتی ہے، اسلامی سیاست ہر حال میں احکم الحاکمین کے احکام کی بالادستی کو قائم رکھتی ہے، قرآن کریم کے کسی بھی قطعی حکم کو نہ اکثریت رائے تبدیل کرسکتی ہے اور نہ ہی منسوخ کرسکتی ہے۔
سیاست میں نئے نئے نظریات سامنے آئے ہیں، نئے انداز حکومت سامنے آئے ہیں، نئے مسائل سامنے آئے ہیں، علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں اسلام کے موقف کو واضح کریں کہ کون سی سیاست اسلامی ہے؟اور کون سی سیاست ملحدانہ اور کافرانہ ہے؟ اور جو موجودہ سیاسی نظام جمہوریت کے نام پر یا مختلف ناموں پر چل رہے ہیں، ان میں اور اسلام میں مابہ الامتیاز کیا ہے؟ اسلام کا نظام حکومت کیا ہے؟ اس کو موجودہ دور میں کیسے اختیار کیا جائے؟ اسی طرح کے سوال دوسرے میدانوں میں بھی اٹھتے ہیں، اور سیاست میں بھی، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ سیاست کے بنیادی نظریات اور افکار میں یہ بات داخل ہےکہ مملکت کے تمام باشندوں کو جماعت یا انجمن بنانے کا حق حاصل ہے، اور کسی گروہ یا جماعت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے ، اسی طرح کسی بھی ملک میں جو انجمنیں یا جماعتیں قائم ہوتی ہیں وہ تین قسم کی ہوتی ہے:

(1) مشترک مفاد کے حصول کی انجمن (Interest Group)
یعنی وہ جماعت جو مشترک مفاد اور مقصد حاصل کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی ہو، مثلا خاص پیشے کے لوگ
اپنے حقوق کے تحفظ یا امداد باہمی کے لیے کوئی جماعت بنالیں، اس جماعت کا اقتدار یا حکومت حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ جماعت غیر سیاسی مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے، علم سیاست کے اصطلاح میں ایسی جماعت کو
(انٹرسٹ گروپ) یا (مشترکہ گروپ) کہا جاتا ہے۔

(2) پریشر گروپ ( Pressure Group )
اس جماعت اور گروپ کا مقصد اقتدار اور حکومت کا حصول نہیں ہوتا ہے، لیکن اس کا مقصد حکومت سے باہر رہ کر حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے کہ ہمارا فلاں مطالبہ منظور کرو، یا ہماری پالیسی کو اپنی پالیسی کا حصہ بناؤ وغیرہ۔

(3) سیاسی جماعت (Political Group/Party)
اس جماعت اور ان افراد کے مجموعے یا گروہ کا نام ہے، جو کسی خاص پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہو۔ جمہوریت میں سیاسی پارٹی بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ پہلے یہ سوچتے ہیں، کہ ملک کے لیے کس قسم کی معاشی یا معاشرتی پالیسی مفید ہوسکتی ہے، پھر اس کو عمل میں لانے کے لیے وہ اپنا ایک منشور تیار کرتے ہیں، کہ اگر ہم برسر اقتدار آگئے تو ملک کو اس منشور کے مطابق چلائیں گے۔
منشور اس دستاویز کا نام ہے جو ایک سیاسی جماعت اپنے مقصد بیان کرنے کے لیے تیار کرتی ہے، کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ ملک کو کس طرح چلائے گی، پھر وہ دوسرے لوگوں گو اس منشور سے متفق کرکے ان کو پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہے، اسی طرح ان جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں کا نظام چلتا ہے، بہرحال یہ بات ضمناً آگئی ہیں، عرض یہ کرنا تھا کہ دین کو صرف نماز، روزہ کی حد تک محدود سمجھ کر دوسرے شعبوں سے بالکل غفلت اختیار کرنا بھی بہت بڑی غلطی ہے، حقیقت یہ ہیکہ دین کے بہت سارے شعبے ہیں، جن میں سیاست بھی ایک اہم شعبہ ہے اور اس سے غفلت اختیار کرکے اسے دین سے خارج سمجھنا بھی بڑی گمراہی ہے، دین پر عمل کے لیے اسلام کے تمام احکام پر عمل ضروری ہے، چاہے وہ کسی شعبہ سے متعلق ہو، البتہ جہاں تک دین کی جدجہد کا تعلق ہے عادة کوئی ایک شخص تمام شعبوں میں جدجہد نہیں کرسکتا اس لیے اس میں تقسیم کار پر عمل ضروری ہے، مثلا کسی نے اپنے لیے دین کے کام کا شعبہ اختیار کیا، اس میں وہ اپنا وقت اور محنت صرف کررہا ہے اور اس پر زیادہ توجہ دے رہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، حرج اس میں ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ میں نے جو شعبہ اختیار کیا ہے وہ دین کا مقصود اصلی ہے، تو یہ غلط ہے، بلکہ جس طرح دین کے بہت سے کام ہیں اسی طرح سیاست بھی کام ہے، جیسے کوئی شخص سیاست کے شعبہ کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ حالات کے مطابق اس لائن میں خدمت زیادہ بہتر طریقہ پر کرسکتا ہے اور لوگوں کو اس کے حقوق دلاسکتا ہے اور اپنے آپ کو اسی کام کے لیے لگاتا ہے، لیکن اگر یہ کہنے لگے کہ سیاست دین کا مقصود اصلی ہے تو یہ غلط ہے اور اگر کوئی شخص اپنے لیے سیاست کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے لیے جد جہد کرتا ہے تو وہ بھی عین دین کا ایک حصہ ہے، اسلام نے سیاست کی تعلیم بھی دی ہے، اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت کی تعلیم میں تمام معاملات کے متعلق احکام نہیں ہیں، ان کا یہ خیال ہے کہ شریعت نے صرف عبادات اور معاملات کے تعلق سے ہی احکام بیان کیے ہیں سیاست کے تعلق سے اسلام نے تعلیم نہیں دی، اور لوگوں کے اس فاسد خیال سے بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ لوگ حدشرعی سے آگے بڑھنے لگے اور ان کا گمان یہ ہونے لگا کہ دین اسلام کی تعلیم ناقص ہے حالانکہ اسلام ایسا پاکیزہ اور مقدس مذہب ہے کہ شریعت نے سیاست کے متعلق کافی قانون اور احکام بیان کیے ہیں، حالانکہ کسی دوسرے مذہب میں سیاسی تعلیم اور ضروری احکام تو درکنار، رہنے سہنے کے متعلق بھی تعلیم نہیں ملتی، شریعت مطہرہ میں تمام انسانی حالات کے مفصل قواعد موجود ہیں کوئی ایسا جزئیہ نکلنا ممکن نہیں جس میں شریعت کا کوئی حکم نہ ہو، بہرحال مجھے یہ لگتا ہے آج ہم جو کمزور ہے اور دستور ہند کے مطابق جو حقوق ہمیں ملنے چاہیے تھے وہ ہمیں نہیں مل پارہے ہیں۔ وہ اسلئے کہ ہم سیاست سے کوسوں دور ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم سیاست کے سین سے بھی واقف نہیں ہیں اور اس کا مکمل فائدہ ایوان میں بیٹھے اسلام مخالف حضرات بخوبی اٹھا رہے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم شعبہ سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اور جو موجودہ گندی سیاست ہے اس کو اسلامی سیاست سے تبدیل کریں اور شریعت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں، شرعی حکومت نہ سہی شرعی سیاست سے تو ہم فرقہ پرستوں کو اور باطل طاقتوں کو سبق سکھائیں۔
اللہ تعالی ہم سبھی کو شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے، اور جو لوگ شعبہ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں ان کو صحیح طور پر سیاست کرنے کی توفیق بخشے۔ اور ہم سب کو اسلام اور سیاست کے درمیان کے ربط کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین،

(محمد شادان نفیس کانپوری)
رابطہ نمبر: 91-8430907385
shadannafees.51@gmail.com

SHARE