یوپی اسمبلی انتخابات : یہی فضاء برقرار رہنی چاہئے

ہلال احمد
اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے تین مرحلے اب تک امن وسکون سے مکمل ہوچکے ہیں، مزیدکئی مراحل ابھی باقی ہیں، یوپی کی نمائندگی دراصل مرکزمیں حکومت سازی کی راہ آسان کرتاہے اس لیے پورے ملک کی نگاہیں یوپی کی سیاست پرٹکی ہوئی ہیں۔جمہوریت میں حق رائے دہی آدمی کی طاقت ہوتی ہے،اس لیے زیادہ سے زیادہ رائے دہی کااستعمال کرنا فریضہ میں بھی شامل ہے،تاکہ اپنے صوابدیدکے مطابق بہترین رہنما کو منتخب کیاجاسکے۔ملک کے حالات ماضی سے زیادہ پیچیدہ تر ہوتے ہیں جارہے ہیں ایسے میں سیکولراوردانشوران قوم کی ذمہ داری مزید ڑھ جاتی ہے کہ ہواکے صحیح رخ پہچانیں اورعوام متبادل منتخب کرنے کی تلقین کریں۔یوپی کی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو لاقانونیت کا بول بالاہے، عوامی لیڈران سے لے کرملک کے وزیراعظم تک کمیونل اورفرقہ پرستانہ بیان بازی سے احترازنہیں کررہے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایاہے کہ مذہب اورذات پات کے نام پرقطعی ووٹ کامطالبہ نہیں کیاجاسکتاہے تاہم حکومت وایوان میں بیٹھے اعلی سطح کے لیڈران جملہ بازی اورالزام تراشی میں اپنے مؤقر عہدہ بھول کر قانون کو پاؤں تلے روندجاتے ہیں۔وزیراعظم مودی جی نے فتح پورمیں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مخالف جماعت پرجم کربرسے اورتہمت طرازی میں فرقہ وارانہ کارڈ کھیل کربی جے پی کے دیرینہ عزائم ومنشورکربیان کرنے سے بھی نہیں چوکے۔انہوں نے کہا’ جب یوپی حکومت مسلمانوں کے لیے قبرستان کے لیے جگہ فراہم کرتی ہے توغیرمسلموں کے لیے شمشان کی زمین بھی فراہم کرنی چاہیے‘۔پی ایم یہیں پرنہیں رکے بلکہ مزید کہا کہ’جب رمضان میں بجلی رہتی ہے تو دیوالی اورہولی میں کیوں نہیں؟یہ ایک طرح سے بی جے پی کاپراناایجنڈارہاہے جسے مودی جی بزبان خاص دہرارہے ہیں ۔ اس بیان بازی سے مرکزمیں حزب اقتدارکی بوکھلاہٹ صاف جھلک رہی ہے،کیونکہ ترقی کے تمام تردعوے یوپی میں فلاپ شوثابت ہوتے جارہے ہیں،تین مرحلے گزرچکے لیکن بی جے پی کی کوئی امیدکہیں برنہیں آرہی ہے ۔ترقی کے علاوہ دوسراسب سے اہم اورفرقہ پرستانہ ایجنڈاکہ جس میں مذہب کے نام پرسخت گیرہندوؤں اکٹھاکیاجاسکتاہے اب مذہبی استحصال شروع کردیاگیاہے۔خیریوپی میں ابھی تک تینوں مراحل بہت ہی امن وسکون سے گزرگئے ہیں کہیں سے کوئی ناگہانی یافرقہ وارانہ جھڑپ کی کوئی خبرمنظرعام پرنہیںآئی ہے۔ جس سے صاف ظاہرہورہے کہ یوپی کے عوام نہیں سنجیدگی اورخاموشی سے اپنی چال رہے ہیں۔ وہ بھڑکاؤ اوراشتعال انگیزی کاجواب ووٹنگ کے ذریعہ دے رہے ہیں۔یہ حکمت عملی نہایت درست اورخوش آئندبھی ہے۔
۲۰۱۴ء پارلیمانی انتخاب سے لے کراب تک متعدد نعرے وضع کئے جاچکے ہیں،ہرانتخابی ریلی میں کچھ نئے سلوگن ضرورسامنے آتے ہیں۔جس میں سب کاساتھ سب کاوکاس،سوچھ بھارت ابھیان،میڈان انڈیا،اسکیم علاوہ ازیں لاتعداداصلاحات اورنعرے ہیں ۔جس میں اکثریت مرکزی حکومت کی جانب سے ہیں لیکن ان نعروں میں کوئی بھی طنزوتنقیدسے محفوظ نہیں رہ سکا۔ابھی حال میں بجاج آٹوکے ایم ڈی راجیوبجاج نے میڈان انڈیااورنوٹ بندی پرحکومت کوسخت تنقیدکانشانہ بنایااوربلاتردداظہارخیال کیا۔اس سے تجارت پیشہ افراد کی ناراضگی ہورہی ہے۔مودی جی نے ایک ریلی کے دوران جذباتی انداز میں کہا’میں اترپردیش کابیٹاہوں مجھے اترپردیش نے گودلیاہے‘ اس پرترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے پرینکاگاندھی نے نہایت معقول جواب کہ ’یوپی کے پاس اپنے بیٹے ہیں بیرونی بیٹوں کی ضرورت نہیں ہے‘۔ ساتھ ہی سوشل میڈیاپریہ بات مذاق کاموضوع بن گیاہے لوگ باگ مزاق اڑانے لگے۔کسی نے کہااب تک کے وزراء اعظم کسی خاص موقعوں پرقوم کے نام خطاب کرتے تھے لیکن موجودہ وزیراعظم ہمیشہ چالورہتے ہیں‘۔کسی نے کہا’پہلے بہارگئے توبہارکابیٹا،پنجاب گئے توپنچاب سے خون کارشتہ ،اب اترپردیش نے مجھے گودلیاہے اورمیں اتردیش کابیٹاہوں۔۔۔بھیاسیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ جس صوبے میں انتخاب ہوتاہے وہی صوبہ آپ کاباپ ہے‘۔اسی طرح یوپی کی کسی ریلی میں خطاب کے دوران غریبوں کامذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’میں بھی غریب ہوں میرے پاس کارنہیں ہے‘۔اس پربھی طرح طرح کے مزاحیہ کلمات سوشل میڈیامیں گردش رہے ہیں جس میں ایک بھی یہ ہے’مودی جی کے پاس کوئی کارنہیں ہے وہ۔۔۔ بے کارہیں‘۔جھانسی میں انتخابی جلسہ میں راہل گاندھی یہاں تک کہہ دیاہے کہ’ یوپی الیکشن کے نتائج کے بعدمودی جی یوپی کانام لینابھی بھول جائیں گے‘۔میری دانشت کے مطابق شایدملک کے یہ پہلے وزیراعظم ہوں گے جن کااتنازیادہ مذاق اورتنقیدوں کانشانہ بنایاجارہاہے۔ملک ہی نہیں بیرون ملک کی میڈیابھی انہیں اسی زاویے سے لے رہی ہے جس کااندازہ خودانہیں بھی ہوچکاہے۔
دراصل یوپی انتخاب میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی پوری طاقت کااستعمال کیے ہوئے ہیں جن میں نمایاں طورپرسماجوادی کانگریس متحدہ محاذ،بی جے پی اوربہوجن سماج پارٹی ہے ۔خبروں کے مطابق یوپی میں ہواکارخ سیکولررائے دہندگان کے حق میں کافی سازگارمعلوم ہورہاہے،بقیہ دنوں میں بھی یہی فضا قائم رہی توپھرفرقہ پرستوں کی ہوا اکھڑجائے گی اورمنہ کھانی پڑے گی ۔مشرقی یوپی کے کئی اضلاع میں انتخابی تیاریاں زوروں پرجہاں پرسیاسی بساط پھیلانے کے لیے تمام جماعتیں میدان میں ہیں ۔سیکولررائے دہندگان کے سخت آزمائش کاوقت ہے کہ فہم وفراست کے مطابق ووٹ کو تقسیم ہونے بچائیں اورایسے لیڈرکومنتخب کرنے کی کوشش کریں جوسیکولرزم اورہندوستان کی قومی یکجہتی برقراررکھنے کاخواہاں ہے ،ساتھ ہی وسیع القلب،وسیع النظراورملکی وسماجی ترقی اورمفادات کوملحوظ رکھنے والے ہوں۔
ہلال احمد (ایڈیٹرماہنامہ ’الاتحاد‘گوونڈی ممبئی)