مسئلہ صرف ایک “نجیب” کا نہیں ہے

جمیل اخترشفیق
ملک کی مشہور ترین یونیورسیٹی جے این یو سے ڈرامائ انداز میں ایک ہونہار، نیک اور شریف طالبِ علم نجیب کو غائب کردیا گیا، اس کی ماں سرکاری عملہ سے لےکر سفید پوشوں کے دروازے کھٹکھٹاتی رہی، انصاف کی بھیک مانگتی رہی، اپنے بیٹے کے امان کی فریاد کرتی رہی، ہر امن پسند قانون پہ یقین رکھنے والے محبِ وطن کی طرح تھانے پہونچ کر تعلیم کے نام پر غنڈہ گردی کا ننگا ناچ ناچنے والوں کے خلاف ایف آئ درج کروانے گئ تو ان شکایت درج تک نہ کی گئ، بیٹے کے غم میں پاگل سی ہوگئ ایک بوڑھی بیوہ خاتون کے دل پہ کیا گزر رہی گی اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے،اُس ماں کو کسی سے کسی طرح کے چیک کی بھیک، امداد کی خیرات نہیں چاہیے اس نے ایک بار نہیں ہزاروں بار کہا ،رو کر کہا ،گرگرا کر کہا ،چینخ کر کہا ،چلا کر کہا، مجھے شہرت نہیں چاہیے ،بلندی نہیں چاہیے ،کسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ نہیں چاہیے بس مجھے صرف میرا لال دے دو، میرے جگر کا ٹکڑا دے دو، میرے بوڑھا پے کی لاٹھی دے دو، میرے مستقبل کا چراغ دے دو،مجھے میرا بیٹا دے دو، مجھے میرا نجیب دے دو، میں کچھ بھی نہیں کہوں گی، کسی سے کوئ شکایت نہیں کروں گی، چپ چاپ اپنے گھر کولوٹ جاؤں گی لیکن آدم خوروں نے، انسان نمابھیڑیوں نے اپنے اپنے عیش کدوں میں بیٹھ کر اس کی بے بسی کا خوب مذاق اُڑا یا، گونکے بہرے بنے رہے اور یہ ثابت کردیا کہ ان کے کلیجے میں انسان نہیں خونخوار جانور کا دل ہے –
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئ جنگل کے درندوں میں نہیں

آج اُس دکھیاری ماں کی ہمدردی میں انسانیت کی بقاء وتحفظ کے لیے ،بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کے لیے ملک بھر کی مختلف تنظیمیں کھل کر سامنے آگئ ہیں ،دیش کے طول وعرض میں جگہ بجگہ احتجاج ہورہے ہیں،صدائیں بلند کیجا رہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے چپ رہنے کی قسم کھا لی ہے شاید انہوں نے کمزوری کو پکڑ لیا ہے اُنہیں یہ پتہ ہے کہ یہ قوم جنونی ہے، وقتی طور پر جذبات میں آنا جانتی ہے، آنسو بہاتی ہے چینختی ہے چلاتی ہے پھر کان میں تیل ڈال کر سوجاتی ہے –
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ نجبیب کو مسلمان ہونے کی سزا ملی، اس وقت وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ زندہ ہے یا مردہ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا،لیکن نجیب کے مسئلے میں خوش آئین بات یہ ہے کہ لوگ مذہبی، علاقائ، ذات برادری کی عصبیت، سے اوپر اُٹھ کر سوچ رہے ہیں وہ سسٹم میں موجود اس ذہنیت کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں جن کے دلوں میں مسلم دشمنی کا شیطان قسطوں میں سر ابھارتا رہتا ہے وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی بھی میدان میں ترقی کریں، ان کے بچے ملک کے اعلا عہدوں تک پہونچیں ،افسر بنیں، باوقار زندگی جیئیں اسی لیے دہشت کا ماحول بناکر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ ملک آر ایس کے باپ کی جاگیر ہے ملک کے بڑے عہدے پہ جن سنگھیوں نے اپنے تربیت شخص کو کیا پہونچا دیا ایسا لگتا ہے جس ملک کو برسوں سے ہندو راشٹ بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے وہ شرمندہء تعبیر ہوتا ہوا نظر آرہا ہو جبکہ سچائ یہ ہے کہ کروڑوں کی تعدا میں موجود ملک کے اقلیتی طبقے کو فراموش کر کے کبھی بھی بھارت ترقی کے آکاش کو نہیں چھوسکتا ہے-
نجیب کے معاملے میں انصاف کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو یہ شکایت بھی زبان پر آتی ہے کہ ملک کے عام کمزور، بے بس تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے اصول وضابطے کے آئینہ دار طلباء جمہوری طریقے سے اپنی آواز تو بلند کررہے ہیں لیکن وہ سیاسی پارٹیاں، وہ مسلم چہرے،وہ مسلم تنظیمیں جو ہمیشہ مسلم دوستی ومسیحائ ڈھنڈورا پیٹتی ہیں وہ آج حاشیے پہ کھڑی نظر آتی ہیں، کچھ لوگوں نے محض ایک دو اخباری بیان بازی کے بعد اپنی زبان پہ تالا لگا لیا تو کچھ لوگوں کو بند کمرے میں قید ہوکر تسبیح وتحلیل سے ہی فرصت نہیں ہے یا پھر جان بوجھ کر مصلحت کے لحاف سے باہر نہیں نکلنا چاہتے ہیں –
افسوسناک بات یہ ہے کہ سوشل سائٹ پہ کچھ لوگ کبھی میسیج کے ذریعے کبھی آڈیو یا ویڈیو بناکر اُس کے سہارے یہ پیغام بھی عام کرنے کوشش کرتے ہیں کہ جو موجودہ حکومت یا مودی کے خلاف زبان کھولے گا اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی ،خاموش طریقے سے کچھ ایسے لوگوں کو تیار کیا گیا ہے جو سوشل سائٹ پہ لوگوں کی تشخیص کرکے خفیہ ایجنسیوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں آدمی موجودہ حکومت کے خلاف سرگرم ہے یا کچھ اور……. بہت ممکن ہے کہ اس طرح کی خبریں بھی سن کر کچھ لوگ سہم جاتے ہوں گے،ان کے دلوں میں خوف پھیل جاتا ہوگا وہ اکیلے میں بھی اللہ سے زیادہ ایسی طاقتوں سے ڈرجاتے ہوں گے اور یہ سوچتے ہوں گے کہ میری آواز کوئ سن نہ لے -کیونکہ فطری طور پر سب کو اپنی اپنی جان پیاری ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی حکومت یا پارٹی کے خلاف بولتے ہوئے اگر ہماری زبان تھر تھراتی ہے، لکھتے ہوئے ہماری انگلیاں کانپتی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمیں ملک کے آئین کا بالکل بھی علم نہیں ہم یہ نہیں جانتے کہ ملک کا قانوں ہمیں کیا حق دیتا ہے؟ کسی کے ڈرانے سے اگر ہم ڈرنے کے عادی ہوجائیں گے ،سچ بولنے سے کترائیں گے، ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے،اپنی قوم کے بچوں کی تباہی کا تماشہ یونہی دیکھتے رہیں گے تو مستقبل کی تصویر اور کیا ہوگی؟ اس کی وضاحت کی قطعی ضرورت نہیں ہم سمجھ سکتے ہیں-
آج سوال صرف ایک نجیب کا نہیں، ایک مسلمان کا نہیں، ایک یونیورسیٹی علاقہ یا صوبے کا نہیں ہے بلکہ سوال اس ذہنیت کا ہے جو ملک کے اندر تعلیمی، سیاسی، سماجی ومعاشی ہر سطح پر حاوی ہونا چاہتی ہے،ملک کے آئین کو طاق پہ رکھ کر اپنا خودساختہ نظام قائم کرنا چاہتی ہے، ہاتھوں میں بھارت کا جھنڈا اورزبان پہ جے شری رام کا نعرہ لگا کر انسانیت کا قتل کرنا چاہتی ہے،اپنے سوا ملک کے ہر ذاتی، ہر مذہب کے لوگوں کو کمتر جانتی ہے ،انہیں غلام بناکر رکھنا چاہتی ہے، ایسی طاقتیں دھیرے دھیرے اسلیے اپنا پنجہ مضبوط کررہی ہیں کیونکہ ہم امن پسند لوگوں نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، اپنے کانوں کو بند کرلیا ہے،اپنے پیروں میں مفاد پرستی کی بیڑیاں ڈال لی ہیں –
یاد رکھیے اگر ہم یونہی بے حسی کی چادر اوڑھ کر سوئے رہے تو ہمارے بچے اعلا تعلیم کے حصول کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں گے، ہماری قوم ترقی کے نام سے دور بھاگے گی اور ہم دھیرے دھیرے اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ ہماری سانسیں ہمارے اندر گردش کریں گی لیکن اس پہ تسلط زمانے کے خداؤں کا ہوگا،پھر ہم اپنی مرضی سے نہ بول پائیں گے، نہ سوپائیں گے، نہ دیکھ پائیں گے، نہ کھاپائیں گے حتی کہ سوچ بھی نہیں پائیں گے کیونکہ تساہلی انسان کو غلامی سے قریب کردیتی ہے-
اگر ہمارے عمل کی داستان ہماری ذات تک ہی سمٹ رہ کر جاتی تو کوئ ملال نہ ہوتا ،تڑپ پیدا نہیں ہوتی،فکر بے چین نہیں کرتی، دل میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا دراصل ہماری ایک ایک رفتاروگفتار کا کنیکشن ہماری آنے والی نسلوں سے جڑا ہوا ہے اگر ہم زندہ دلی کے ساتھ ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں تو ہماری آنے والی نسلیں دنیا کی دوسری ترقی یافتہ قوموں کی طرح مستقبل میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چل پائیں گی ورنہ اُنہیں گھٹ گھٹ کر قسطوں میں مرنا پڑے گا اور وقت کا حسّاس مؤرخ صرف ہمیں مجرم کہے گا صرف ہمیں ….!

کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو بُرا کہنے سے
اپنے حصے کا دِیا خود ہی جلانا ہو گا

رابطہ:9973234929