یوپی انتخابات کے نتائج ….. صرف مسلمان ذمہ دار کیوں؟

ڈاکٹر عبدالرحیم خان
سنتے آئے تھے کہ “جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”۔ آج اترپردیش سمیت پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج دیکھکر ایک تجزیاتی احساس ہوا کہ یہ شعر کچھ غلط ہے۔ سیاست اور دین ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں، البتہ سیاست کے لئے دین کا یا دین کے لئے سیاست کا استعمال قطعی طور پر درست نہیں۔

مجھے نہ تو بی جے ہے سے نفرت ہے اور نہ دوسری پارٹیوں سے کسی قسم کی کوئ انسیت اور ھمدردی۔ ہاں ھندوستانی سیاست کی گرتی سطح اور بلا تفریق تمام پارٹیوں کے ذریعے استعمال کئے جانے والے سیاسی ھتکنڈوں سے تشویش ضرور ہے۔ سیاست کی یہ سطحیت ملک کے لئے کس قدر نقصاندہ ہے اسکا فی الحال اندازہ کرپانا بھی مشکل ہے۔

اگر میں اترپردیش کی بات کروں تو گزشتہ کئ ہفتوں سے تمام پارٹیوں نے ہر ممکن ہربوں کا استعمال کیا۔ شاید اسی لئے کہا بھی جاتا ہے کہ محبت، جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سیکولرزم کے نام پر سبھوں نے مسلمانوں کا خوب استعمال کیا۔ سماجوادی نے انکو اپنی دیرینہ جاگیر سمجھا تو مایاوتی نے انکے جان مال کی تحفظ کا حوالہ دیکر اپنی طرف بلایا، وہیں بی جے پی نے ٹرپل طلاق جیسے مسئلوں کوحل کرنے کا سبز باغ دکھایا۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہ آئ کہ کیا “سیکولرازم” کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ھے اور کیا اسکا تعین صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی ھوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اب میں یہ بھی نہیں سمجھ پارھا ہوں کہ سیکولرازم کہتے کسے ہیں۔ کیا ہیں وہ نکات جنکی بنیادوں پر ایک جماعت سیکولر اور دوسری کمیونل ھوجاتی ہے۔ دراصل آج سیکولرزم کی تعریف “بی جے پی مخالفت” ہوکر رہ گئی ہے ھو شاید درست نہیں۔

میں صبح سے نتائج اور اعدادوشمار دیکھ رہا تھا تو مجھے جو بات سمجھ میں آئ وہ یہ تھی کہ تقریبا تمام سیٹوں پر بی جے پی کو سماجوادی اور بہوجن سماجوادی کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ اگر آپ کسی بھی اسمبلی حلقے کو دیکھیں تو معلوم ھوگا کہ سماجوادی اور بہوجن سماجواد کا مجموعی ووٹ جیتنے والے بی جے پی امیدوار سے زیادہ ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ووٹوں کی اس تقسیم کے لئے صرف مسلمان اپنے آپ کو ذمہ دار کیوں ٹہرا رہا ہے۔ کیا سماجوادی یا بہوجن سماجوادی کو سیاست کی تھالی سجا کر دینے کی ذمہ داری ہم مسلمانوں نے ہی لے رکھی ہے۔ کیا ان دونوں کے اپنے ووٹ بینک تقسیم ہوکر بی جے پی کی طرف نہیں گئے ہیں؟ اور ہاں مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرنے والے کیا اس بات کی وضاحت کریں گے کہ تمام مسلمانوں کوایک ہوکر صرف سماجوادی یا صرف بہوجن ہی کو کیوں ووٹ کرنا چاہئے؟ دونوں ہی نے یوپی کے مسلمانوں کو کب کیا دیا ہے؟ اور میرا بڑا سوال تو یہ ہے کہ بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں؟ کون سا ایسا ممکنہ نقصان ہوسکتا ہے جو سماجوادی یا بہوجن نے اب تک نہیں کیا اور بی جے پی کرے گی؟ مجھے اس بات سے سخت تکلیف ہے کہ پردیش میں اتنا بڑی مسلم آبادی کے باوجود اپنے ھندو ووٹوں کو اکٹھا کرنے کے مقصد سے بی جے پی نے ایک بھی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا، لیکن ساتھ ہی سوال بھی ھے کہ مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ھوکر پہونچے اور خود ساٹھ کے قریب مسلم ایم ایل ایز نے پچھلے پانچ سالوں میں کب کس مسلم مفاد پر اپنی آواز بلند کی ھے؟

آج ہم سولہ سے اٹھارہ فیصدی اترپردیش کےمسلمانوں کے اتحاد کو کوستے ہیں، اسی کے بالمقابل دلت، یادو اور دیگر ذاتیوں کا کیا۔ مسلمانوں کے لئے تو دو ہی جگہ رہی ہوگی سماجوادی یا بہوجن۔ لیکن آخر دلیتوں اور یادو برادری کا اپنا ووٹ کہاں گیا؟ انکو کب اور کون ذمہ دار بتلائے گا؟

دراصل اگر دیکھا جائے تو یہ ایک طرف حکومت مخالف (اینٹی انکامبینسی) اور دوسری طرف اس سے بھی زیادہ ھندوتوا کے ایجنڈے کا الیکشن تھا۔ اکھلیش حکومت نے کچھ کام کیا یا نہیں یہ بات اپنی جگہ مگر ایک طبقہ حکومت کے کام کاج سے خوش نہ رہ کر ہمیشہ بدلاؤ کے لئے ووٹ کرتا ہی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہیکہ بی جے پی نے ھندوتوا کے نام پر ووٹ حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ھندوتوا کے نام پر لگائ گئ اس آگ میں سماجوادی اور بہوجن کے ساتھ ساتھ اسدالدین اویسی اور ڈاکٹر ایوب جیسوں نے گھی بلکہ پیٹرول ڈالنے کابہترین کام بھی کیا ہے۔ اگر سیاست میں مذھب کے نام پر ۱۸ فیصدی مسلمانوں کا ووٹ کسی ایک پارٹی کو جانا اتحاد کہلاتا ہے تو پھر غیر مسلم ووٹوں کو مذھب کے نام پر متحد ھونے میں کیا حرج ہے اور انکو کیوں نہیں ہونا چاہئے۔

آزادی کے وقت اگر مولانا آزاد نے مسلمانوں کو ملک چھوڑنے سے روکا تھا تو انکا اپنا تجزیہ کھوکھلا نہیں رھا ھوگا۔ انکو معلوم تھا کہ ھندوستان کی مٹی بڑی زرخیز اور بنیادی طور پر سلیکولرازم کا خمیراپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ خواہ گزشتہ عمومی انتخابات رہے ہوں یا آج کے اترپردیش کے نتائج میرے نزدیک مایوس کن بالکل نہیں۔ ہاں اگر کوئ جماعت اس اکثریت سے نہ آتی اور مخلوط حکومتیں بنتیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے اور من مانی کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔ ھندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور رہے گا۔ تقریبا سات دہائیوں تک کانگریس نے حکومت کیا اور بالآخر عوام نے راتوں رات انہیں اکھاڑ پھینکا، آج بی جے پی ہے، اگر اس نے بھی ملک کی جمہوری اقدار سے کھلواڑ کیا تو عوام کو انکا بھی حساب کرنا آجائے گا۔ رہی بات بی جے پی آنے کے بعد اس ملک کے بھگوا کرن یا ھندوراشٹر بن جانے کی تو میری اپنی ناقص سمجھ میں ایسا کچھ ممکن نہیں۔ جس ملک کو آٹھ سو سالوں تک مسلمان اور دو سو سالوں تک انگریز حکومت کرنے کے بعد اسلامی یا عیسائ نہیں بنا سکے انکو پانچ دس سالوں میں یہ بھاجپا ھندو راشٹر کیسے بنادےگی۔

آج سیاست ہندوستان میں بدل چکی ہے۔ مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش کریں- یہاں مذھب کے نام پر کسی سیاسی جماعت کو جگہ نہیں مل سکتی، ہاں اپنی اس طرح کی نام نہاد جذباتی پارٹیوں اور تقریروں سے غیر مسلم ووٹوں کو متحد کرنے کا کام ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں مسلم نمائندگی ھو تاکہ جب بھی کہیں کوئ پارٹی آپکے خلاف کچھ سازش کرے تو خود اسکے اندر سے یہ مسلم نمائندے کھڑے ہوکر آپکی آواز بن سکیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان سیاست کو اپنی ضرورت سمجھ کر اپنائیں۔ خواہ مخواہ اسے ھندو مسلمان اور اسلام یا ھندوازم کا نام نہ دیا جائے۔ ضرورت ہے کہ تمام پارٹیوں میں گھسنے کی کوشش کی جائے تاکہ مجموعی طور پر ھماری آبادی کے تناسب میں ھماری نمائندگی ہر جگہ برقرار رہے۔ ہمیں نہ تو سماجواد اور بہوجن جیسی پارٹیوں کو ہمیشہ ھماری بیساکھیوں پر چلنے کا موقعہ دینا چاہئے اور نہ ہی بی جے پی کی ضرورت سے زیادہ مخالفت کرکے اسے پوری ھندو قوم کو اپنے خلاف متحد کرنے کی دعوت دینا چاہئے۔ ھم کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں اگر بہتر تعداد اور نمائندگی میں ہیں تو ہمارا یہ روزمرہ کا استحصال بند ہوجائےگا۔