خدا را ! اتر پردیش کے رائے دہندگان کو برا بھلا مت کہیے

اشرف علی بستوی

آہ! اتر پردیش ، بہار کے سیاست دانوں کی سیاسی بصیرت سے کوئی سبق نہ لے سکا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتر پردیش پر کیسریا رنگ غالب آگیا، شروعاتی رجحان جو قائم ہوئے آخر تک جاری رہے ، یہ سبھی تفصیئلات آپ نے خبروں میں دیکھ لیا ہوگا ہم بی جے پی کی حکمت عملی کا بھی تجزیہ نہیں کریں گے ہم یہاں صرف ان عوامل پر گفتگو کریں گے جو اس طرح کے تشویش ناک نتائج کے اصل وجہ بنے۔ کل تک کی جانے والی قیاس آرائیاں اب تبصروں ،تجزیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں ، اتر پردیش میں ووٹوں کی تقسیم کا بڑا فائدہ بی جے پی کے حصے میں آیا۔ غیر متوقع تشویش ناک نتائج سے پریشان ہر شخص بڑی آسانی سے اتر پردیش کے عوام کی سیاسی سمجھ پر سوال اٹھا رہا ہے ، جبکہ یہ درست نہیں ہے اس کے اصل ذمہ دار ریاست کے رائے دہندگان نہیں بلکہ وہ سبھی سیاسی جماعتیں ہیں جو بات تو فرقہ پرستی کو شکست دینے کی کرتی رہیں لیکن حالات کی سنگینی جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اپنی انا سے دستبردار نہ ہو سکیں ۔ جبکہ بہار کے دور اندیش سیاست دانوں نے اس کی کامیاب مثال پیش کر دی تھی ،انہوں نے جب بی جے پی کو شکست دینے کا فیصلہ کیا تو کھلے دل سے ایک دوسرے کے ساتھ آئے ، سیٹوں کی تقسیم میں ایک دوسرے کا پورا خیال رکھا لالو یادو ، نتیش کمار ، کانگریس جو ایک عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف کمر بستہ تھے بڑے خطرے کو بھانپتے ہوئے ساتھ آگئے، نتیجہ سامنے ہے ۔ بہار کے عوام کے سامنے کوئی کنفیوز نہیں تھا ، لیکن اتر پردیش میں کنفیوز پہلے تو کچھ کم تھا لیکن سماج وادی پارٹی اور کانگریس اتحاد کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا ، یہی اس شکست کی بنیادی وجہ رہی ۔

کانشی رام کا وہ نعرہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے ” ہم نے منو وادیوں کو شکست دینے کے لیے سماج وادی پارٹی سے ہاتھ ملایا ہے “۔ میں اس وقت 9 ویں جماعت کا طالب علم تھا دوپہر بعد ہم گھر کے نکل رہے تھے راستے میں جونئر ہائی اسکول سمریاواں سنت کبیر نگر میں کانشی رام اور راج ببر کا مشترکہ جلسہ تھا ، ہیلی کا پٹر دیکھ کر سارے بچے ٹوٹ پڑے ، اس وقت کسی لیڈر کی آمد کے اعلان میں یہ ضرور شامل ہوتا کہ فلاں لیڈر ہیلی کاپٹر سے تشریف لارہے ہیں ۔ اس طرح پہلی بار دونوں لیڈروں کو ایک ساتھ سننے کا موقع ملا جب کانشی رام نے بولنا شروع کیا تو جھٹ میں اپنی ریاضی کی رف کاپی نکال کر تقریر نوٹ کرنے لگا لیکن سننے اور نوٹ کرنے میں توازن نہ رکھ سکا بہت کچھ چھوٹ گیا صرف اتنا ہی درج کر سکا تھا ” کہ ہم نے منوادیوں کو شکست دینے کے لیے سماجوادی پارٹی سے ہاتھ ملایا ہے ” اور نتیجہ ایسا ہی ہوا بی جے پی زبردست شکست سے دوچار ہوئی اور اس کے بعد سے ابتک وہ مقام حاصل نہ کر سکی تھی لیکن آج ایک اب ایک بار پھر کامیاب ہوگئی ۔ کانشی کا وہ نعرہ مایا وتی کا نعرہ کیوں نہیں بن سکا اور سماجوادی کے سربراہ اکھیلیش تاریخ سے کیوں سبق نہ لے سکے ؟ یہ امر غور طلب اور تجزیہ طلب بھی ہے ۔

1991 میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اپنی طاقت بڑھا رہی تھی سابق وزیر اعظم چندر شیکھر سنگھ کی سماجوادی جنتا پارٹی سے الگ ہوکر ملائم سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی تشکیل دی تھی دونوں نے الگ الگ اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کوئی اثر ڈالنے میں ناکام رہے کانگریس 1989 میں ہی عوام کے دلوں سے نکل چکی تھی نتیجے میں بی جے پی نے بڑئ جیت درج کی اور پھر 1992 کا سانحہ پیش آنے کے بعد کانشی رام اور ملائم سنگھ نے ازسر نو غور کیا ۔ 1993 کے اسمبلی انتخابات سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے اپنے اتحاد کے ذریعے بی جے پی کو بڑی شکست سے دوچار کر دیا ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا فارمولہ قابل عمل نہیں تھا لیکن اتر پردیش میں یہ ممکن نہ ہوسکا ، اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی سیاسی دوری نے اتر پردیش میں بی جے پی کو اس قدر ابھرنے کا موقع فراہم کیا ۔ اکھیلش ،مایا وتی اور کانگریس ساتھ آتے ، کم ازاکم بہار کے حالیہ انتخابات سے ہی کچھ سبق لیا ہوتا ، نہ جانے کیا وجہ ہے کہ بی ایس پی اور ایس پی 1993 کے بعد سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہوتے چلے گئے ۔ کانشی رام جنہوں نے دلتوں کو منوادیوں کے چنگل سے بڑی حد تک نکال لیا تھا مایاوتی اسے برقرار نہ رکھ سکیں ، بلکہ کئی مواقع پر حکمرانی کی چاہ میں انہیں کے ساتھ جانا مناسب سمجھا ،اور اسے وہ دلتوں کے مفادات کا تحفظ نام دیتیں ، اس سے انہیں کچھ دنوں کی حکمرانی تو مل گئی لیکن دلتوں کو یہ پیغام گیا کہ اب ہمارا دوسرا سیاسی متبادل بی جے پی ہے ، اس طرح کانشی رام کی تحریک کو کمزور ہوتی چلی گئی اس کی مثال لوک سبھا الیکشن میں دیکھنے کو ملی ، کم و بیش یہی حال یادووں کا رہا انہوں نے جہاں مناسب سمجھا بی جے پی کو تو ووٹ دے دیا لیکن بی ایس پی یا کانگریس کے امیدوار وں کے ساتھ نہیں گئے ۔

رہی بات مسلم ووٹوں کی تو اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکٹیکل ووٹنگ کا فارمولہ ایک بار پھر ناکام ہو گیا ، مسلم رائے دہندگان الیکشن سے قبل تک تو مسلم ووٹر اکھیلش کی ناکامیوں اور سماجوادی کے اندرونی خلفشار سے قدرے نارراض تھے اور متبادل کے طور بی ایس پی کی طرف دیکھنے لگ گئے تھے ، اور ایسا تاثر ابھر رہا تھا کہ بی ایس پی بڑی کامیابی حاصل کر لے گی ، مسلمانوں کو ساتھ لینے کے لیے پہلا کام بی ایس پی نے یہ کیا کہ بڑے پیمانے پر ٹکٹ دیا ، پھر ایسا اشارہ دیا کہ وہ حکومت سازی کے لیے بی جے سے دوری بنائے رکھیں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سماجوادی کانگریس اتحاد اور بی ایس پی میں تقسیم ہو کر رہ گئے ، اور پھر الگ الگ مسلم تنظیموں کی جانب سے بے وقت اپیلوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے مزید منتشر کر دیا ۔ جو غلطی بی ایس پی اور سماج وادی نے کی وہی طرز اپنا ڈاکٹر ایوب اور اسد الدین اویسی نے بھی اپنایا ، ساتھ آنے کے بجائے باہم دست گریباں ہوگئے اور ایک حلقے نے تو باقاعدہ اشتہار رات کے ذریعے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی ، بد کرداری کے الزامات لگانے میں ساری توانائی صرف کر دی ، جبکہ دونوں صاحبان کا دعویٰ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانا ہی ہے ۔ اس شکست کی بڑی ذمہ دار سیکولر ہونے کا دعو یٰ کرنے والی بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی ہی کے سر جاتا ہے ۔ ابھی تو نتائج کی تکمیل کے بعد تفصیلی تجزیے سے یہ بات پتہ چل سکے گی کہ کیا عوامل کار فرمارہے ، کس کس کا کیا رول رہا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی گڑبڑیاں بھی زیر بحث آئیں گیں ۔ اب باری ہے اپوزیشن کا موثر کردار نبھانے کی اگر وہ تمام شکست خوردہ سیاسی قوتیں ایک ساتھ کوئی مشترکہ پلیٹ فارم بناکر کام کریں گیں تو پھر بھی کسی حد تک امید کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی طرح کی زیادتی سے مقابلہ ممکن ہے ۔ جیتنے والی پارٹی کے حوصلے بلند ہیں اور دل مٰں درجنوں عزائم لیے ڈھائی برس سے راجیہ سبھا میں دم بخود ہے ، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہاں پر اکثریت حاصل کر لینے کے بعد بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی یہ اس کے لیے بڑا امتحان بھی ہے ۔

موبائل : 9891568632
ashrafbastavi@gmail.com