گھر بیٹھے ہی ”سیف اللہ“ مل جاتا ہے مگر ایک ماں کا ”نجیب “ نہیں ملتا

محمد رضوان قاسمی
اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ کامیابی کی اساس اکثریت واقلیت کے گٹھ جوڑ ، مزہبی رہنماؤں کی احمقانہ بیان بازی، اور سیاسی لیڈروں کی دلالی سے وابستہ نہیں ہے۔ انتہائی اہم اور مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر اجتماعی نظام میں کامیابی کی اساس صرف دو ہیں، اور صرف دو،، پہلی اور بنیادی چیز، اس اجتماعی نظام کی مکمل سمجھ جس کے تحت وہ ملک یا اس ملک کا جمہوری نظام گردش کر رہا ہے، اور دوسری چیز اس نظام یا سسٹم میں آپ کی موجودگی کتنی ہے ؟؟
انسانی تاریخ کا ہر دور، اور سماجی زندگی کا ہر لمحہ، اس بات کا گواہ ہے کہ ہمیشہ دنیا کی بڑی سے بڑی اکثریت کو چھوٹی چھوٹی اقلیتوں نے شکست دی ہے، اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا ہے، آج بھی دنیا کے انتہائی طاقتور ملک امریکہ کو وہ لوگ چلا رہے ہیں جنکا تناسب اس ملک کی آبادی میں صرف %3 فیصد ہے، اور جنھیں ہم یہودی کہتے ہیں، خود ہمارے ملک ہندوستان کو پچھلے 66 سال سے اس ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت برہمن چلا رہا ہے، جس کی مجموعی آبادی ہندوستان کے تناسب میں صرف %5 فیصد ہے، لیکن ہندوستان کے عدالتی، مخابراتی، اور سول سوسائٹی جیسے اہم ترین اداروں میں انکا تناسب %83 فیصد سے بھی زیادہ ہے، اور ملک کی دو قومی مرکزی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو وہی لیڈ کر رہے ہیں، اس کے بعد ہندوستان کی دوسری سب سے چھوٹی اقلیت عیسائی ہیں جنکی مجموعی آبادی صرف %3 فیصد ہے، لیکن ہندوستان کا مکمل ترین فرسٹ کلاس ایجوکیشنل سسٹم وہ چلا رہے ہیں، اس کے بعد ہندوستان کی ایک اور اقلیت،، سکھ،، جسکا تناسب ہندوستان کی مجموعی آبادی میں صرف %4 فیصد ہے لیکن بھارت کی مجموعی تجارت میں %50 سے بھی زیادہ حصہ داری انکی ہے، MAX اور FORTIS جیسے پرائیویٹ ہاسپٹل کےدو بڑے گروپ جنکی مجموعی تعداد ساٹھ سے بھی زائد ہے، یہ میڈیکل انڈسٹری بھی سکھ برادران کی ہے۔
ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت پارسی جنکا مجموعی تناسب بھارت کی کل آبادی میں صرف %2 ہے، لیکن بھارت کی پوری معیشت کا %77 حصہ صرف انکے پاس ہے، اور اسی ہندوستان کی سرزمین پر ہم مسلمان بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں، جنکا تناسب بھارت کی مجموعی آبادی میں %23 سے بھی زیادہ ہے، لیکن اس ملک کے معاشی، تعلیمی، سیاسی، اور مخابراتی نظام میں انکی حصہ داری صرف %2 ہے، اور وجہ صرف یہ ہے کہ، ہماری روشن خیال سیاسی قیادت کو دلالی اور چاپلوسی کے سوا کوئی کام نہیں، اور مزہبی رہنماؤں کے نزدیک مسجد اور مدرسہ بنانے اور چلانے کے سوا بقیہ تمام علوم و فنون بے کاری، بے دینی اور گمراہی قرار پائے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس قوم میں ڈاکٹر، وکیل، جج، آئ ایس، اور دیگر تمام علوم وفنون جو جہاں بانی اورتسخیردنیا کے لئے لازمی تھے، اور جدید سائنسی تحقیق اور طبی مہارت کے لئے جن اداروں، کالجوں، اور انسٹی ٹیوشن کا قیام ضروری تھا وہ سب کے سب، جب علم نبوت اور نور نبوت کی فہرست سے خارج قرار پائے تو اس قوم کو ضرورت جواں مردوں، سیاست کے ایوانوں، اور دنیا کو تسخیر کرنے والے جرأت مندوں کی نہیں، بلکہ بے عمل قسمت کے سہارے زندہ رہنے والے نکموں کی ہے جو اسے بےکا ری افیون پلا کر زکرِ صبح گاہی میں مست رکھیں، اور محض کرامات ومعجزوں کے سہارے اپنے قومی مسائل حل کریں۔

یا وسعت افلاک میں …. تکبیر مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات