دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس میں 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں کی شرکت ،تحفظ شریعت کیلئے ہندوستانی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی

پٹنہ ۔15اپریل
ملت ٹائمز کی خاص رپوٹ
پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میںا مارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے زیر اہتمام آج دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کے عنوان سے ایک تاریخی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انداز ے کے مطابق20 لاکھ سے زائد مسلمانان ہند نے شریک ہوکر دینی غیر ت وملی حمیت کا بھر پور ثبوت پیش کیا اور لاکھوں کے مجمع نے امیر شریعت کے سامنے دین و شریعت اور ملک کی حفاظت کا حلف لیا ۔ گذشتہ دیڑھ ماہ سے اس ریلی کی تیاری چل رہی تھی جو آج شام کو چھ بجے اختتام کو پہونچی۔دن بجے میں ایک بجے شروع ہوئی تھی ،سوشل میڈیا پر بھی یہ ریلی مسلسل چھائی اور ہزاروں کی تعداد میں یوزرس نے ریلی کی تصویر اپنے فیس بک ،ٹوئٹر اکاﺅنٹ اور وہاٹس ایک گروپ پر شیئر کرکے اس کے پیغام کو دور تک پہونچانے کی کوشش کی ۔اس موقع پر دین بچاﺅ دیش چاﺅ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیاگیا ۔
اس تاریخی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے کہاکہ ہمارا ملک بدترین دور سے گذر رہاہے، حکمراں ،ملک میں دہشت پھیلارہے ہیں، یہ خوف کے بیوپاری ہیں ، نفرت کی کاشت کاری کررہے ہیں،جھوٹ کی آبیاری ان کا پیشہ ہے،ان چیزوں نے پورے ماحول میں بے یقینی کی فضا بنادی ہے،اور یہ بے یقینی ہرسطح پر چھاگئی ہے۔حدیہ ہے کہ قانون کا مطلب بتانے والی ،بے لگام انتظامیہ کو قابو میں رکھنے والی،،وطن عزیز کی جمہوریت کی حفاظت کرنے والی اورآئین کی پاسدارعدلیہ خود پریشان ہے،چار سینئر ججز پریس کانفرنس کرکے بتارہے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے،عدالتیں آزاد نہیں ہیں، ایک خاص نظریہ کو تھوپنے کے لئے عدالتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مولانا ولی رحمانی نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ آئین کی حکمرانی ،قانون کی بالادستی ،انصاف اور مساوات اوربنیادی حقوق کمزور پڑتے جارہے ہیں، ایک طرف دلہے صاحب ہیلی کاپٹر سے سسرا ل جارہے ہیں،دوسری طرف یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوسکتی کہ بارات میںدولہا گھوڑے پر سوار ہو، اور سوار ہوا تو زندگی موت کے حوالہ کردی گئی،جھولے میں کوئی گوشت لے جارہاہے تو اس کی درگت بنادی جائے گی،مسلمان کو پہچان کر اس کی اتنی پٹائی کی جائے گی کہ وہ مرجائے،اونچی تعلیم گاہوں کا ماحول ایسی گھٹن والا بنادیا اور ایسے جبروظلم کی فضا بنائی گئی کہ طالب علم خود کشی کرلے،اس کا جرم کیا ہے؟،صرف ایک !شڈولڈکاسٹ ،شڈولڈ ٹرائب سے تعلق رکھتاہے، وہ مظلوم طبقہ سے تعلق رکھتاہے، وہ مسلمان ہے، وہ اقلیتی طبقہ کا فرد ہے، یہی جرم ہے اس کا،چرچوں پہ حملے کئے گئے،پادریوں کو ختم کیا گیا،جرم یہ تھاکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے،کیا یہی قانون کی حکمرانی ہے،؟ کیا یہی آئین کی بالادستی ہے۔؟ایک کھرا سچ یہ ہے کہ ظلم ایجاد کرنے والوں، ظلم ڈھانے والوں کا ایک بڑا طبقہ تیار ہوگیا ہے ،جس نے الگ الگ ناموں کی تنظیم بنارکھی ہے، اور وہ بہانے دھونڈ کے پیداکررہاہے جفاکے لئے! مسلمانوں کا خون بہاکر انہیں مزہ آتاہے، مسلمانوں کے دوکانوں کو آگ لگاکر انہیں خوشی ہوتی ہے، ان کو برباد کرکے ان کو سکون ملتاہے، ایس سی/ایس ٹی کو موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے، ظالموں کی یہ جماعت انہیں عزت کے ساتھ بٹھانے کے لئے تیار نہیں،یہی ذہنیت آئین ہند سے کھلواڑ کررہی ہے، دستور کو بدلنا چاہتی ہے، انسانوں کے خون کو سستا اور گائے کے پیشاب کو مہنگا کررہی ہے۔
اسی طبقہ کے لوگ واٹس اپ کے ذریعہ دل آزار اور اہانت آمیز پیغام بھیجتے ہیں، اذان کو بند کرانے کی کوشش کرتے ہیں، مسجدوں کو نقصان پہونچاتے ہیں، مذہبی کتابوں کی توہین کرتے ہیں، قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اور ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہ حالات وہ لوگ پید ا کررہے ہیں، جن کے نمائندے حکمرانی کررہے ہیں، یہ حکمران سماج میں دشمن عناصر کی پرورش اور پرداخت کررہے ہیں اوران کا شکار مسلمان ،ایس سی /ایس ٹی ،عیسائی اور اقلیتیں ہیں، یہ سب مظلوم ہیں، ان کے درد کا مداوا ،پریشانیوںکا علاج ،اور ہونے والے مظالم کے خاتمہ کا طریقہ یہ ہے کہ یہ مظلوم طبقہ ،یہ الگ الگ رہنے والا کمزور طبقہ ،ظلم کے خلاف ،زیادتی کو مٹانے کے لئے ایک جٹ ہوجائیں اور مشکل وقت میں یہ مظلوم طبقات ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

https://www.facebook.com/millattimes/videos/2108228859411702/

مسئلہ صرف جان ومال کی حفاظت ،عزت وآبرو کا بچانا اور پروقار زندگی گذارنے کا نہیں ہے۔ان مسائل سے زیادہ اہم اپنے دین کی حفاظت ،اپنے شعائر اور شعار کی حفاظت ،اپنے ملی تشخص کی حفاظت ،اپنی تہذیب اورزبان کی حفاظت کا معاملہ بڑا اہم ہے۔شریعت ہماری روح ہے، قرآن ہماری بنیاد ہے، سنت نبوی ہماری راہ نماہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاہ وجلال ہماری جان ہے۔ان سے کھلواڑ کی کوششوں کو ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟۔ ان حالات میں بھڑکنا،جذباتیت کا مظاہرہ کرنا، بلاوجہ جوش میں آجانا مسئلہ کا حل نہیں ہے____مسئلہ کا حل آئین کے دائرے میں تلاش کرنا ہے،ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلہ کرنا ہے، لانبی پلاننگ کرنی ہے، دشمنوں کو پہچاننا ہے، نئے دوستوں کو تلاش کرنا ہے اور ان غلطیوں سے بچنا ہے جنہیں اس ملت نے ماضی قریب یا ماضی بعید میں کیا ہے۔اپنے صدارتی خطاب میں امیر شریعت نے یہ بھی کہاکہ ہمیں مثبت حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے،اپنے جمہوری حقوق کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے، ہمیں اپنے سماج کے مزاج کو بدلنے کی پالیسی بنانی ہے، ہمیں اندھی حمایت اور روایتی وابستگی سے باہر نکلنا ہوگا،ہماری ذمہ داری ہے کہ سیاسی استحصال کرنے والوں کو پہچانیں، اپنے اندر شعور وآگہی پیدا کریں ،اورکلمہ واحدہ کی بنیاد پر جینے کا مزاج پیدا کریں۔مسلکی اختلافات سے دورہنے کی بھی انہوں نے تلقین کرتے ہوئے کہاکہ مسلک راہ عمل ہے،یہ دینی راہ ہے،یہ اختلاف اور ٹکراﺅ کا ذریعہ نہیں ہے، ہم نے اس دینی راہ کو اختلاف وانتشار کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔اسلام نے دوسرے مذاہب کے قدرمشترک کو آواز دی ہے، کیا شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ان کے نام لیوا تھوڑے سے مسلکی اختلا ف کو ایک واضح دائرہ میں نہیں رکھ سکتے ؟ اورآپس میں بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے؟ ۔
اس کانفرنس سے مولانا عبید اللہ خان اعظمی ، مولانا محفوظ عمرین رحمانی ،مولانا ابو طالب رحمانی اور وامن مشرام نے خطاب کیا جبکہ نظامت کا فریضہ جناب خالد انور اور مفتی محمد سہراب ندوی نے انجام دیا ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ، نائب ناظم مولانا محمد ثناءالہدی ٰ قاسمی ، نائب ناظم مولانا سہیل احمد ندوی، نائب ناظم مولانا محمد سہراب ندوی ، نائب ناظم مولانا شبلی القاسمی نے تجاویز پیش کی ۔

تجویز نمبر ۱۔ہماری شریعت ہماری جان
۱۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ہمارے ملک میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے دین و شریعت سے کھلواڑ کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسلامی تہذیب اور قرآنی تعلیمات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے مسلم خواتین تحفظ بل 2017 کے نام سے لاکر شریعت میں حکومتی مداخلت کا نیا دروازہ کھول دیا ہے۔یہ عظیم مجمع شریعت میں مداخلت کی ہر کوشش کی مذمت کر تا ہے۔اور آج کی کانفرنس کے ذریعہ مطالبہ کر تا ہے کہ حکومت اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور قرآن و حدیث کے تقدس کو پامال کر نے سے گریز کر تے ہوئے مسلم خواتین بل 2017 واپس لے اور شریعت میں مداخلت بند کرے۔
2۔ ہجومی تشدد اور کچھ بے لگام لیڈروں کے بیانات کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں، دلتوں اور محروم طبقات میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آج کی یہ کانفرنس ان واقعات کی شدید مذمت کر تی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ سماج میں مساوات کے قیام کی کوشش کرے اور نفرت و خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرے، ملک کی سا لمیت و اتحاد کو خطرہ میں نہ ڈالے۔

3۔ ہمارے ملک کا دستور سیکولر روایات و اقدار کا امین ہے۔ آئین ہند نے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی دی ہے۔ گذشتہ کچھ مدت سے پورے ملک پر ایک نظریہ کو تھوپنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس دستور ہند کا احترام نہ کر نے والوں کے رویہ کی مذمت کر تے ہوئے حکومت ہند، آئینی اداروں اورسیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ مکمل طور پرملک کے آئین کا احترام کریں۔یہ کانفرنس خبردار کر تی ہے کہ دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے دیش کے خیر خواہ نہیں ہیں،انہیں ملک کے عوام جمہوری طریقہ سے سزادیں گے۔
3۔ ایک طرف حکومت عورتوں کے تحفظ کی بات کر تی ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ معصوم بچیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ یو پی اور جموں کشمیر کے واقعات کی مذمت کر تے ہوئے یہ کانفرنس مطالبہ کر تی ہے کہ حکومت ایسا ماحول تیار کرے جس میں آئندہ اس قسم کے واقعات پیش نہ آئیں اور مجرمین کو عبرتناک سزا دے۔
تجویز -2آزاد عدلیہ جمہوریت کا ستون ہے:
1۔ جمہوریت کا وجود ہماری عدالتوں کی آزادی اور احترام پر منحصر ہے۔ آج حکومتی سطح پر عدالتوں کو مسلسل متاثر کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چار موقر ججوں نے جس طرح آئینی اداروں کو بر باد کرنے کی کوششوں کے خلاف پریس کانفرنس کی اور جمہوریت کے درپشت خطرات سے ملک کو با خبر کیا وہ عدلیہ کی صحیح صورت حال کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس سپریم کورٹ کے چاروں ججوں کی جرا¿ت کی ستائش کر تی ہے اور مرکزی حکومت، پارلیامنٹ، تمام سیاسی پارٹیوں اور عوام سے اپیل کر تی ہے کہ عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کو ہر حال میں بچایا جائے۔ جو فاشسٹ ادارے عدالتوں کی توہین کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ آج کی کانفرنس حکومت کے ذریعہ عدالتوں کو متاثر کر نے کی کوششوں کی بھر پور مذمت کر تی ہے۔
2۔ آزاد و خود مختار عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ ججوں کی تقرری میں سرکاری مداخلت نہ ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ حکومت ججوں کی تقرری من مانے ڈھنگ سے کر رہی ہے۔ آج کی کانفرنس مرکزی سرکار سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ ججوں کی تقرری کے معاملات کو عدالتوں پر چھوڑ دے۔
3۔ عدالتوں کے بعض فیصلوں کی وجہ سے یہ تاثر جارہا ہے کہ عدالتیں اسلامی احکام و قوانین کی تشریح من مانے طور پر کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو فیصلے آتے ہیں اس سے شریعت میں مداخلت ہو تی ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں کے احترام کے ساتھ یہ کانفرنس اس رویہ میں تبدیلی کا مطالبہ کر تی ہے تا کہ دستور ہند میں دیے گئے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔
تجویز -3مساجد و مقابر و مدارس کی حفاظت
1۔ مسجدیں ہمارے دین و شریعت کا مرکز اور مدارس دین کے قلعے اور ہماری تہذیب کی شناخت ہیں۔ ہماری درگاہیں اور خانقاہیں عوام الناس کے روحانی مراکز ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ہمارے ان مقامات کے خلاف مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر اور یہاں سے اٹھنے والی صدا پر لگام لگانے کے لئے قانون بنائے جار ہے ہیں۔ مدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر نشانہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ خانقاہوں اور درسگاہوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ آج کی کانفرنس حکومت سے یہ مطالبہ کر تی ہے کہ ہمارے مساجد ، مقابر و مدارس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ سماج دشمن عناصر کو لگام دے کر ملک کی ان وراثتوں کی حفاظت کی جائے۔
تجویز -4فسادات سماج کے لئے ناسور اور اجتماعی ترقی کے دشمن ہیں
1۔ فرقہ وارانہ فسادات نے ہمارے سماج کو توڑ دیا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مرکز میں جب سے نئی سرکار آئی ہے فسادیوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ فسادی گروہ سر گرم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں مکانوں اور کار خانوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ کچھ ریاستی حکومتیں ایسے سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان کا ووٹ بڑھ رہا ہے۔ یہ کانفرنس ایسی سرکاروںکی شدید مذمت کر تی ہے۔ یہ کانفرنس مطالبہ کر تی ہے کہ فسادات کو روکنے کے لئے مستحکم کارروائی کی جائے۔ فسادات میں شامل عناصر کے خلاف قتل عمدکا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ کانفرنس تمام ریاستی سرکاروں اورمرکز سے مطالبہ کر تی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات مخالف بل پاس کرے، متاثرین کو ہر جانہ ادا کرے اور فسادیوں کو سزا دے۔
تجویز -5دلتوں کے خلاف مظالم بند ہوں
1۔ درج فہرست ذات و درج فہرست قبائل کی آبادی سخت بے چینی کا شکار ہے۔دلتوں پر مظالم عام بات ہے۔ ایس سی،ایس ٹی ایکٹ کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔ آج کی کانفرنس ملک میں بسنے والے دلت بھائیوں سے اظہار ہمدردی کر تے ہوئے سرکار سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ دلتوں، محروموںپر ظلم کر نے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ریزر ویشن کی پالیسی میں چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو مضبوط بنائے۔
2۔ غیر مسلموں اور خاص طور پر دلتوں کے ساتھ سماجی رابطے کی کمی ہے۔ یہ کانفرنس تمام مسلمانوں سے اپیل کر تی ہے کہ سماجی ہم آہنگی کی فضا بنائی جائے اور دلتوں کے ساتھ میل ملاپ میں اضافہ کیا جائے۔
تجویز 6-خواتین بیداری مہم
اس کانفرنس کا احساس ہے کہ مختلف وجوہات سے ہمارا گھریلو اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا جا رہا ہے۔ دینی معاملات میں بھی مسلمان کمزور ہو رہے ہیں اور خواتین کے معاملے میں دینی علوم اور مذہبی شعور کی کافی کمی پائی جاتی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان دین بچانے کے لئے اپنی ذاتی اور خانگی زندگی میں بھی حساس اور بیدار ہوں۔ دین بچانے کا یہ سب سے اہم طریقہ ہے۔اس سلسلے میں خواتین بیداری مہم چلائی جائے۔ اس کے لئے صوبائی سطح سے ضلع اور بلاک کی سطح تک پڑھی لکھی دیندار اور مہذب خواتین کی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس کمیٹی کے ذریعہ عورتوں کے اسلامی طور طریقے ، شرعی قوانین اور حکم دین کے تئیں بیداری لائی جائے اور امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر کو اس کی پیش رفت سے مطلع کیا جائے۔
تجویز -7تعلیم و تر بیت
2۔ مسلمانوں کے لئے بنیادی دینی تعلیم کا حصول فرض عین ہے۔ اس لئے لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایسی جگہوں پر دلوائی جائے جہاں بنیادی دینی تعلیم کا حصول ممکن ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عصری تعلیم دینی تربیت کے ساتھ اسلامی ماحول میں بچوں کو دی جائے۔ ایسے بچے جن کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی سہولت نہیں ہے ان کے لئے مختلف چھٹیوں کے ایام میں ووکیشنل کورسیز چلائے جائیں۔

تجویز -8اردو زبان کی بقا
سرکاری سطح پر حکومت اپنے انداز میں اردو کی ترویج و اشاعت اور بحیثیت زبان اس کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن اردو زبان کو گھر گھر داخل کئے بغیر اس کو زندہ زبان کی حیثیت سے باقی رکھنا دشوار ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ گھر گھر میں اردو زبان بولی جائے، اردو کے اخبارات و رسائل خرید کر پڑھے جائیں، دکانوں کے بورڈ اور ناموں کے نیم پلیٹ اردو میں بھی لکھے جائیں۔ تا کہ جو ورثہ ہمارے بڑوں نے ہمیں دیا ہے ہم اس کی حفاظت کر سکیں۔
تجویز -9اوقاف
اوقاف انتہائی کسم پرسی کی حالت میں ہیں۔ سروے کے کام مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے اوقاف کی جائیداد تیزی سے خرد برد ہو رہے ہیں اور ان پر زمین مافیاﺅں کا قبضہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سروے کے کام کو جلد سے جلد مکمل کرائے اور وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم 2013 کے مطابق اوقاف کی جائیداد کو خالی کرانے کے لئے اپنی سطح سے کارروائی کرے۔
تجویز -10عالم اسلام
عالمی سطح پر برما ، میانمار ، شام اور فلسطین کے مسلمانوں کو مختلف مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ نسل کشی اور کیمیاوی اسلحوں کے استعمال کی وجہ سے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کی تنظیموں عرب لیگ وغیرہ اور اقوام متحدہ کو ان ممالک میں امن و امان کی فضا قائم کر نے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مسلم ممالک میں امن و سکون نہ ہو نے کی وجہ سے طاقت کا توازن بگڑتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔