وزیر اعظم کابیان مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اجلاس کے موقف کوکنڈم کرنے کی کوشش
علماءدیوبند کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کے عنوان سے شریعت اسلامیہ کے مخالف چلائی جانے والی تحریک کی پروزور مذمت
دیوبند(ملت ٹائمزسمیر چودھری)
گزشتہ روز مسلم پرسنل لاءبورڈ کے لکھنو¿ میں منعقد مجلس عاملہ کے اجلاس میں بورڈ نے طلاق ثلاثہ کو لیکر اپنے گزشتہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تین طلاق دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کئے جانے کافارمولہ سامنے رکھا ہے وہیں بورڈ کی میٹنگ کے بعد اس معاملہ پر ایک مرتبہ پھر سیاست گرم ہوگئی ہے ۔ گزشتہ روز پھر وزیر اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر دیا گیا بیان نہ صرف مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اجلاس کے بعد سامنے آئے بورڈ کے موقف کو کنڈم کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس سے یہ بھی پوری طرح صاف کردیاگیا ہے کہ حکومت اپنے اسٹینڈ پر پوری طرح قائم ہے اور وہ طلاق ثلاثہ کو ہندوستانی قانون کے دائرہ میں لانے کی ہر ممکن اور آخری حد تک کوشش کریگی۔ اب یہاں سے دیکھنے والی بات یہ ہوگی آخر مسلم پرسنل لاءبورڈ اس شرعی حکم کے تحفظ کے لئے کیا راستہ اختیار کریگا؟۔11 مئی سے گرمی کی تعطیلات میں سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت شروع کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے،جہاں بورڈ کو نہ صرف مضبوط دلائل سے کورٹ کومطمئن کرنا ہے بلکہ حکومت اور میڈیا کے اسٹینڈ کو کمزورکرنے کے ساتھ پوری طرح کنڈم کرکے طلاق ثلاثہ کا شکار خواتین کو انصاف کی یقین دہانی کرانے کی ذمہ داری نبھانی ہے۔ طلاق ثلاثہ پر مرکزی و صوبائی حکومت کے اسٹینڈ اور وزیر اعظم نریندر مودی ووزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ دیئے گئے بیانات پر علماءدیوبند نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی وریاستی حکومتیں مسلمانوں نیز ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر سارا زور اس بات پر صرف کررہی ہیں، جیسے مسلمانوں کے لئے کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے اور ہر مسلمان تین طلاق کا استعمال ضروری سمجھتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی سفارشات اور حالیہ اجلاس میں منظور کی گئی قرار داد میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ تین طلاق کسی بھی حالت میں کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی ہے جو مسلمان اس کا استعمال کرتے ہیں انہیں مسلم سماج میں پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھنا چاہئے، بلکہ ہم اس میں یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کے خلاف جو بہ یک نشست تین طلاق دے کر اپنے دل ودماغ کو سکون پہونچاتے ہیں وہ ملت اسلامیہ کے لئے ایک بدنما داغ ہیں اُن کا سماجی مقاطعہ بہت ضروری ہے، جہاں تک تین طلاق کے نفاذ کا تعلق ہے وہ تمام فقہی مکاتب میں نافذ ہوجاتی ہے اس لئے اس مسئلے پر ہمیں مزید رائے زنی سے اجتناب کرنا چاہئے، ویسے بھی مسلم سماج میں تین طلاق کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر اعلیٰ وممتاز عالم دین مولانا ندیم الواجدی اور یوپی رابطہ¿ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے جاری مشترکہ بیان میں حکومت ہند کی طرف سے طلاق ثلاثہ کے عنوان سے شریعتِ اسلامیہ کے مخالف چلائی جانے والی تحریک کی پروزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق کے مسئلے کو جس طریقے پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اول بات تو یہ ہے کہ اس گئے گذرے دور میں بھی مسلم سماج میں طلاق کا تناسب دوسرے مذاہب کے مقابلے بہت کم ہے اور جہاں کہیں مجبوری کی شکل میں اس صورت کو اختیار کرنا پڑتا ہے تو اس کے لئے طلاقِ ثلاثہ کوئی ضروری نہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ دیوبند سے وابستہ ان علمائے کرام نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ وقت اور حالات کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عائلی مسائل کو شرعی عدالتوں کے ذریعہ حل کریں اور علمائے کرام حالات کے مطابق جو تصفیہ کردیں اُس کو تسلیم کریں تاکہ ملت اسلامیہ عدالتوں میں رسوا وبدنام نہ ہو۔ انہوں نے تمام مدارس سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں دار القضاءبھی قائم کریں تاکہ مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لئے عدالتوں میں نہ جائیں۔





