ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا اور ملک کے کئی علاقوں میں کسانوں نے ایک طویل عرصہ کے بعد زبردست احتجاج کیا۔ مدھیہ پردیش میں تو ان پر گولی بھی چلائی گئی۔ جس کے پراشچت کے طور پر چیف منسٹر چوہان برت شروع کیا۔مہلوکین کے ورثاء کو فی کس ایک ایک کروڑ روپئے اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری کا وعدہ کیا۔ مگر کسانوں کا جوش ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو اس آگ پر اپنی روٹیاں سیکنے کا بہت اچھا موقع ملا ہے۔ چنانچہ کبھی راہول گاندھی تو کبھی سندھیا احتجاج سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں اگرچہ کہ وہ کامیاب نہیں ہیں‘ مگر اسے بھی کامیابی ہی کہا جائے گا کیوں کہ میڈیا کی توجہ انہیں مل گئی ہے۔ اس درمیان یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی کے کسانوں کا 36ہزار 359 کروڑ کا قرض معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی یوگی کو کسی قسم کی راحت ضرور ملے گی کیوں کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کی وجہ سے چاروں طرف سے ان کی لعنت و مذمت کی جارہی تھی۔ یوگی نے کسان راحت بانڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے‘ اس کی تفصیلات کا انتظار ہے۔ کسان ہمارے معاشرہ کا سب سے اہم فرد بھی ہے اور طبقہ بھی۔ اسی کی محنت کا پھل ہمیں ملتا ہے اور سب سے زیادہ پریشان یہی طبقہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں کسانوں کا ہر ایک جماعت نے سیاسی استحصال کیا۔ جئے جوان جئے کسان کا نعرہ تو لگایا گیا مگر ان کی بنیادی مسائل پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے استفسار پر مرکز نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ 2013ء سے ہر سال ملک بھر میں 12ہزار سے زائد کسان خودکشی کرتے ہیں۔ 2015ء میں 12602 خودکشی کے واقعات پیش آئے تھے۔ ان میں 8ہزار سے زائد کسان، کاشتکار اور 4.5ہزار زرعی مزدور ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ہر سال ایک لاکھ 29ہزار 623 خودکشی کے واقعات پیش آتے ہیں جن میں کسانوں کا فیصد تناسب 9.4فیصد ہے۔ مہاراشٹرا سب سے زیادہ 4291 خودکشی کے واقعات سے سرفہرست ہے۔ کرناٹک (1569)، تلنگانہ (1400)، مدھیہ پردیش (1290)، چھتیس گڑھ (954)، آندھراپردیش (916)، تاملناڈو (606) شامل ہیں۔ کسان خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر ایک فریق اپنے اپنے طور پر الگ الگ دے گا۔ بیشتر کسان فصل کی خرابی، قرض کے بوجھ، بینکوں اور ساہوکاروں کی جانب سے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے انتہائی اقدام کرتے ہیں۔ بعض کو کچھ مفاد پرست عناصر اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ترغیب دیتی ہے کہ اگر وہ انتہائی اقدام کریں تو ان کی قربانی کے عوض ان کے ارکان خاندان خوشحال رہیں گے کیوں کہ جب خودکشی کے واقعات سیاسی مسئلہ بن جاتے ہیں تو ارباب اقتدار کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے خودکشی کرنے والے کسانوں کو ایکس گریشیا کی رقم اور ان کے خاندان کے کسی ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینی پڑتی ہے۔ بہرحال کئی کسان گھریلو حالات کی وجہ سے بھی موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ بعض مختلف امراض کے شکار ہوکر فوت ہوجاتے ہیں۔
کسانوں کو درپیش جو مسائل ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان کا مال چاہے وہ غلہ ہو یا ترکاری یا پھل‘ یہ مارکٹ تک پہنچنے پہنچنے تک خراب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ ملک میں ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج کی سہولتوں کا فقدان اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ وزارت زراعت کی کمیٹی جو فصلوں کی تحقیق کے مقصد سے قائم کی گئی ہے (سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ ہارویسٹ انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی) CIPHET نے 2015ء میں جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق ہر سال 67ملین ٹن غذائی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں۔ جس کی قیمت 92ہزار کروڑ روپئے ہے۔ گلوبل فوڈ ویسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ہندوستان میں جتنا گیہوں اسٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے‘ وہ پورے آسٹریلیا میں ہونے والی گیہوں کی پیداوار کے مساوی ہے۔ 2013 سے 2016ء کے دوران فوڈ کارپوریشن انڈیا کی وےئر ہاؤزس میں 46ہزار 658ٹن غلہ خراب ہوگیا۔ اور 143 ٹن غلہ کی چوری ہوئی۔
کسانوں کا دار و مدار بارش اور اچھی فصل پر ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے موسمی حالات مانسون میں تاخیر، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ناقص بیج اور غیر معیاری کھاد بھی کسانوں کی بربادی کا سبب ہے۔ ہندوستان کے بیشتر کسان روایتی کاشتکاری کے اصولوں پر قائم ہے جس کی وجہ سے وہ حالات کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ بارش میں تاخیر، زیر زمین پانی میں کمی واقع ہونے سے ان کی فصلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ شیریانائر منیجر کانٹنٹ آپریشنس، سوشل ایکٹ ہب نے اپنے ایک مقالہ میں زرعی شعبہ میں آرٹی فیشیل انٹلیجنس AI کو متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس کا متحدہ آندھراپردیش تجربہ کیا جاچکا ہے۔ چوں کہ کسانوں کی اکثریت تعلیم یافتہ نہیں ہے اور وہ جدید انفارمیشن ٹکنالوجی سے بھی واقف نہیں ہے اس لئے انہیں ایکریسائٹ ICRISAT کے سائنسدانوں اور مائیکرو سافٹ کے انجینئرس نے ایک ایسا اَیپ APP تیار کیا جو بادلوں کے مشاہدے کی اساس پر تخم ریزی کے لئے موزوں وقت کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ یہ اَیپ زمین کی حالت یا صحت اور اس کے لئے مناسب کھاد کی سفارشات کے علاوہ سات دن پہلے موسمی پیش قیاسی کرسکتا ہے۔ متحدہ آندھراپردیش کے سات مواضعات کے 175کسانوں کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان تمام کسانوں کو ایس ایم ایس کے ذریعہ تخم ریزی کے آغاز کی ہدایت دی گئی۔ اگرچہ کہ کسانوں کو اس ٹکنالوجی پر اعتماد نہیں تھا اس کے باوجود انہوں نے اس ٹکنالوجی کا استعمال کیا اور اس سال موسم برسات میں سائنسدانوں اور انجینئرس کی کاوشیں رنگ لائیں اور ساتھ ہی کسانوں کے چہروں پر اُمید اور طمانیت دوڑ گئی کیوں کہ اس سال ان کی فصل میں 30تا 40فیصد اضافہ ہوا۔ ہندوستان ترقی پذیر ممالک میں سرفہرست ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مسابقت کرنا چاہتا تے اس لئے اُسے زرعی شعبے میں ماڈرن ٹکنالوجی کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس وقت زرعی شعبے میں اسرائیل نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے اور برسوں پہلے سے ہندوستان اور اسرائیل میں زرعی شعبہ میں ٹکنالوجی اور تعاون کے تبادلے کے معاہدے کئے ہیں۔ بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے کسانوں کو مہارت حاصل ہے۔ ہندوستان میں جو اراضیات زرخیز تھیں‘ وہ بھی بنجر ہونے لگی ہیں۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کو کبھی بارش کی قلت کی وجہ سے خشک سالی کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی ط وفان کی وجہ سے بھی ایسے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی فصل خراب ہوتی ہے تو کبھی فصل اچھی نکلنے کے باوجود اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ کبھی اشیائے خوردونوش، پھل ترکاری کی قلت کی وجہ سے قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگتی ہیں تو کبھی قیمتیں اس قدر گرجاتی ہیں کہ کسان کو اپنی پیداوار سڑکوں پر پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی نصف آبادی زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ جن میں سے 90فیصد غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ جس کی وجہ سے بینکس بھی ان کا استحصال کرتے ہیں۔ مارکیٹنگ کے شعبے میں وہ ناکام رہتے ہیں۔ آبپاشی کی سہولتوں کا فقدان، بجلی کی قلت۔میکانیزم اور پیسے کی کمی سہولتوں کے حصول کیلئے رشوت خور عناصر کی جانب سے استحصال سے بیزار کسان برادری اپنی زمینوں کو بیچ کر شہر میں محنت و مزدوری کے لئے مجبور ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 34فیصد بے زمین کسان اور 30فیصد چھوٹے کسان شہروں میں مزدوری کررہے ہیں۔ انہیں اپنے آبائی پیشہ کو ترک کرنے کا غم ضرور ہے مگر قرضوں کی ادائیگی، فصلوں کی خرابی، بارش میں تاخیر کی کوئی فکر نہیں۔ تاہم یہ رجحان زرعی شعبے کے مستقبل کیلئے نقصاندہ ہے۔ قرضوں کی معافی وقتی طور پر مسائل کا حل ضرور ہے تاہم سب سے اہم ضرورت کسانوں کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے تعلیم سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ انہیں موبائل کے ذریعہ موسمی حالات سے باخبر رکھنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔ ٹرانسپورٹیشن سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کی یکسوئی کے بعد کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت ملنی چاہئے۔ ورنہ کسان تو تباہ ہوگا ہی اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کی بھی خیر نہیں کیوں کہ جو دوسروں کا پیٹ بھرتا ہے وہ خود بھوکا رہ جائے تو کیا ہوگا؟ اس سلسلہ میں حکومت زبانی جمع خرچ سے زیادہ عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ جئے کسان کا نعرہ بہت لگاچکے‘ اب وقت ہے نعرہ بلند کئے جائیں ’’جیو کسان‘ جیو ہندوستان‘‘۔
(مضمون نگار گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون:9395381226