سعودیہ ۔ قطر بحران : غور و فکر کے چند پہلو

اسعد اعظمی 

عرب ممالک کا قطر کے ساتھ جو تنازعہ چل رہاہے اس کو لے کرامت کا باشعور طبقہ فکرمند ہے۔ کیونکہ پہلے سے ہی امت متعدد مسائل سے دوچار ہے جن کے حل کے راستے نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ موجودہ بحران کو لے کر میڈیا میں بالخصوص سوشل میڈیا میں جس طرح گھمسان چل رہاہے وہ الگ تشویش کا باعث ہے۔ اس تعلق سے بعض اہم نقاط پر غوروفکر کی ضرورت ہے:
* اختلاف کوئی نئی اور انہونی چیز نہیں، اگرچہ قابل تعریف نہیں۔ گھروں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں، خاندانوں، قبیلوں، جماعتوں اورتنظیموں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح دویادوسے زائد ملکوں میں بھی اختلافات جنم لیتے رہتے ہیں۔
* بحیثیت مسلمان ہر فرد مسلم و جماعت مسلمہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اختلاف کے رونما ہونے پر اس کے خاتمہ کی کوشش کرے اور صلح وآشتی کے لیے تگ ودو کرے، نہ یہ کہ اس اختلاف میں فریق بن بیٹھے، اوراپنے اقوال واعمال سے اس اختلاف کو ہوادے، ایسے مواقع پر ایمانی بصیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مومن سے ایسے ہی اقوال واعمال کا صدور ہو جو نفرت کو محبت میں، دشمنی کو دوستی میں اور اختلاف کو اتحاد میں تبدیل کرنے کا کوئی رول ادا کرسکیں۔
* کسی بھی نزاع میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک فریق کے موقف سے دلائل کی روشنی میں اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتاہے۔ موجودہ بحران میں سعودیہ اور اس کے اتحادی ممالک حق پر ہیں یاقطر۔ اپنے اپنے نقطہ نظر سے آدمی جو موقف چاہے رکھے لیکن اپنے موقف کو پیش کرتے وقت متانت وسنجیدگی، انصاف اورادب وتہذیب کے دائرے سے باہر نہ آجائے۔ نہ ہی تمام نئی پرانی فائلیں کھول کر بیٹھ جائے اور جلتی آگ میں تیل ڈالنا شروع کردے۔
* بڑے بڑے اور عالمی مسائل میں ہرکس وناکس کو نہیں کودنا چاہیے بلکہ ان مسائل کو ماہرین اور اہل بصیرت کے حوالے کردینا چاہیے۔ بالخصوص ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کی جزئیات اور باریکیاں سب کے پیش نظر نہیں ہوتیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند ‘‘۔ کسی مسجد کی تولیت، کسی مدرسے کی نظامت اورکسی تنظیم کی سر براہی الگ چیز ہے اور کسی ملک اور سلطنت کو چلانا الگ چیزہے۔
افسوس کہ موجودہ خلیجی بحران کو لے کر کچھ لوگ کسی بھی طرح کے سودوزیاں کی پرواہ کیے بغیر اپنی زبان وقلم کو بے لگام استعمال کررہے ہیں۔ جن لوگوں کو مملکت سعودی عرب ان کے فکری اور مسلکی اختلاف کی وجہ سے کبھی حلق سے نہیں اترا وہ ہر اس موقع پر خم ٹھونک کر میدان میں اتر پڑتے ہیں جس سے سعودیہ کا قریب یا دور سے کوئی تعلق ہو اور پرانا حساب کتاب برابر کرنے کی سعی نامسعود میں لگ جاتے ہیں۔ وہ ملک جس کی اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے تعلق سے پوری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں جس کا اعتراف موافق ومخالف ہر ایک کو ہے اس کی ساری قربانیوں اور ساری خدمات کو فراموش کرکے اسے یہود ونصاریٰ، ہنود و مجوس اور صہیونیوں اور صلیبیوں سے بڑا اسلام دشمن اور مجرم گردانا جاتا ہے اور پوری امت کو اس پر چڑھ دوڑنے کی دعوت دی جاتی ہے، جب کہ سبائی اور تبرائی ٹولہ جس کے خونی کارناموں کی پوری تاریخ گواہ ہے، جس کی عیاری و مکاری، شرانگیزی، اور مسلم امہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا طویل مجرمانہ رکارڈ ہے وہ فرقہ اسلام اوراہل اسلام کا مسیحا نظر آتا ہے ،اس سے مملکت توحید کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور ارض حرمین و جزیرۃ العرب پرمجوسی حکومت کے قیام کے لیے مراسلت ہورہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ مراسلت کرنے والے اس ٹولے کے عقائد اور اس کی تاریخ سے ناواقف ہوں گے ۔اگر واقعی ناواقف ہیں تو مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی زبانی سنیے۔ مولانا نے کتاب ’’ ایرانی انقلاب ، امام خمینی اور شیعیت‘‘ مؤلفہ مولانا محمد منظور نعمانی کے مقدمہ میں خمینی صاحب اور عام روافض کے عقائد جو بقول مفکر اسلام’’اسلام کی بنیاد پر تیشہ چلاتے ہیں‘‘ ان عقائد کو اجمالا بیان کرتے ہوئے لکھاہے:
’’……….. اس بنا پر اس بات کی پوری توقع تھی کہ عقیدہ وبنیاد کے اس اختلاف، امت کے بنیادی عقیدۂ توحید میں رخنہ اندازی، مشارکت فی النبوۃ (جو امامت کی تعریف اور امام کے اوصاف کا منطقی نتیجہ ہے) اور صحابہ کرام کی شخصیتوں پر جو مسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ قابل احترام اور قابل محبت شخصیتیں ہیں اور جن کا دور تاریخ اسلام ہی میں نہیں تاریخ انسانی میں (مستند تاریخ کی روشنی میں اور مسلم وغیر مسلم مورخین کی متفقہ شہادت کے مطابق) دنیا کا معیاری ومثالی دور حکومت اور نمونۂ زندگی تھا طعن وتشنیع کے بعد کم سے کم اس حلقہ میں جو سنی العقیدہ ہے (اور وہی مسلمانوں میں اکثریت کی حیثیت رکھتا ہے) ان (خمینی) کی دعوت مقبول نہیں ہوگی، اور ان کو اسلامی انقلاب کا علم بردار، حکومت اسلامی کا مؤسس وبانی اور مثالی رہنما وقائد نہیں سمجھا جائے گا۔ لیکن یہ دیکھ کر صدمہ بھی ہوا اور حیرت بھی کہ بعض ایسے حلقوں میں جو فکر اسلامی کے علمبردار اور اسلام کے عروج وغلبہ کے داعی ومتمنی ہیں ان کو ایک ’’امام منتظر‘‘ کی حیثیت دی گئی اور ان سے ایسی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا گیا جو اس عصبیت کی حد تک پہنچ گئی ہے جو تنقید کا ایک لفظ سننے کی روادار نہیں ہوتی۔ اس تجربہ اور مشاہدہ سے دو باتوں کا اندازہ ہوا:
۱۔ بہت سے حلقوں میں مدح وذم اور تعریف وتنقید کا معیار کتاب وسنت، اسوۂ سلف اور عقائد اور مسلک کی صحت نہیں رہا، بلکہ اسلام کے نام پر مطلق حکومت کا قیام، طاقت کا حصول، کسی مغربی طاقت کو للکاردینا، اس کے لیے مشکلات پیدا کردینا، اس کو محبوب ومثالی قائد بنا دینے کے لیے کافی ہے۔
۲۔ عقیدہ کی اہمیت ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل میں خطرناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے اور یہ بڑی تشویش انگیز اور قابل فکر بات ہے…الخ۔‘‘
(مقدمہ کتاب، ص:۱۳۔۱۴)
مفکر اسلام رحمہ اللہ نے آخر میں بطور نتیجہ جن دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے انہیں پڑھیے اور موجودہ خلیجی بحران کے تعلق سے ہمارے ملک کے جو افراد یا جماعات اچھل کود مچائے ہوئے ہیں انہیں اوران کے موقف کو دیکھیے کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔
اس طرح کے مواقع پر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے سعودیہ کے ناقدین سعودی۔امریکی تعلقات کو لے کر بھی خوب جلی کٹی سناتے ہیں اوراپنے بے شعور حمایتیوں کی واہ واہی لوٹتے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ پورے عالم اسلام میں سعودیہ ہی ایک ملک ہے جس کے امریکہ سے تعلقات ہیں، باقی تمام ممالک بڑے زاہد، متقی اور خان بہادر ہیں اور امریکہ کے دشمن ہیں۔ صرف قطر امریکہ تعلقات کی تفاصیل دیکھ لیں، بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ ہم مانیں یا نہ مانیں امریکہ سپر پاور ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک طوعا یاکرھا اس سے رشتہ استوار کیے ہوئے ہیں۔ جس رافضی سلطنت کی محبت میں لوگ اندھے بنے ہوئے ہیں اس کے امریکہ مخالف نعرے محض فریب ہیں جو اس کے سادہ لوح عقیدت مندوں کو بے وقوف بنانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ ورنہ اندر اندر معاملہ کچھ اور ہے اس کی بھی تفصیلات موقع بموقع میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ رہ گئی بات ترکی کی تو امریکہ ہی کیا اسرائیل سے اس کے اعلانیہ سفارتی تعلقات ہیں۔ آج کی دنیا میں اگر امت کے کسی خیر خواہ کو ان حقائق کا علم نہ ہو پھر بھی وہ عالمی رہنما بنتا پھرے اور ہر موقع پر تیر کمان لے کر میدا ن میں اتر پڑے تو اس کی سادہ لوحی اور بے چارگی پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
مجھے ہرگز اس پر اصرار نہیں کہ مملکت سعودی عرب کے ہر موقف کی آپ تائید کریں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ مسائل کو صحیح تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ جوش انتقام میں حقائق کو مسخ کرنے سے گریز کریں۔ تنازعات کی آگ میں گھی ڈالنے کے بجائے پانی ڈالیں۔ رب ذو الجلال سے یہی دعا ہے کہ موجودہ بحران کو ختم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ بارآور ہوں۔ اس تنازعہ پر جو لوگ اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں انہیں ہدایت ملے، تمام اسلامی ممالک کا اتفاق واتحاد عود کر آئے اور امت مسلمہ کو سربلندی عطا ہو۔