نئی دہلی(ملت ٹائمزایجنسیاں)
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی روز اول سے ” طلاق ثلاثہ “ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشوں میں مصرف ہے، سیاسی دکان چمکانے کیلئے بی جے پی لیڈران تقریروں اور بیانات میں اکثر و بیشتر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ مسلمان خواتین کو ان کا بنیادی حق دلانا چاہتے ہیں ،مختلف انتخابی ریلیوں میں مودی ”منہ پھاڑ پھاڑ “ کر کہتے تھے کہ مسلمان عورتوں پر بڑا ظلم ہورہا ہے، مسلمان اپنی بیویوں کو ٹیلیفون، خط اور ایس ایم ایس کے ذریعہ جب چاہا تین طلاق دیدیتے ہیں، یہ ظلم ختم ہونا چاہئے ، لال قلعہ کی فصیل سے بھی انہوں نے طلاق کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی ،سپریم کورٹ کے فیصلے سے مودی جی اور ان کی پارٹی بہت خوش اور فیصلے کو تاریخی بتا رہی ہے ،لیکن اب اسی ”تاریخی فیصلے “ کی روشنی میں ہی مودی کے اپنے گھر سے ہی ان کی بیوی نے بھی مسلم خواتین کو ملنے والے ”انصاف “ کا مطالبہ اپنے لئے بھی کر دیا ہے،دوسری طرف انسانی حقوق کے لئے ملک میں سرگرم تنظیموں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی اہلیہ جو اپنی شادی شدہ زندگی کے باوجود مودی کے ساتھ نہیں رہ سکتیں اور انہیں بیوی کے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں اور نہ وہ اپنے شوہر سے علحدہ ہو پائی ہیں ،انہیں بھی مسلمان خواتین کی طرح انصاف فراہم کیا جائے۔
وزیر اعظم نریندرا مودی جنہوں نے 18سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ لڑکی جسودھا بین کے ساتھ 1968میں شادی رچائی اور پورے 46سال اس شادی کو عوام کی نظروں سے چھپائے رکھا اور خود کو کنوارا ظاہر کرتے رہے جبکہ وہ اپنے انتخابی فارم میں” شادی شدہ یا غیر شادی شدہ “ والا خانہ دانستہ پر ہی نہیں کرتے تھے تاہم 2014 کے الیکشن میں مودی نے پہلی مرتبہ الیکشن فارم کے خانے میں خود کو شادی شدہ ظاہر کیا بلکہ اپنی بیوی جسودھا بین کا نام بھی لکھا جس پر دنیا کو معلوم ہوا کہ 46سال سے خود کو کنوارا ظاہر کرنے والے مودی نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ ان کی بیوی بھی حیات ہے جو کئی سالوں سے اپنے شوہر سے الگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے۔