مفتی اشرف علی باقوی کاانتقال اسلامک فقہ اکیڈمی کیلئے عظیم خسارہ ، تاسیس سے لیکر تادم حیات مکمل اہتمام کے ساتھ اپنا تعاون دیتے رہے 

نئی دہلی(ملت ٹائمزپریس ریلیز)

آج جمعہ کے دن، اکیڈمی کو جب یہ ا طلاع موصول ہوئی کہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی، اس کے قدیم معاون،حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ کے رفیق خاص اور اکیڈمی کے فعال نائب صدر کاحرکت قلب بند ہوجانے سے شب میں انتقال ہوگیاتواس خبر سے اکیڈمی کے تمام وابستگان و ذمہ داران اور اس سے وابستہ تمام علماءکو گہرا صدمہ اور رنج و غم ہوا، کیونکہ حضرت مفتی اشرف علی صاحب باقوی اپنی ذات میں نہایت مخلص انسان تھے،وہ بےک وقت استاذ حدیث بھی تھے اور معلم فقہ بھی ، خطیب وامام بھی تھے اور شاعر و ادیب بھی، اعلی نفیس ذوق رکھنے والے شخص تھے، ان کی رقیق القلبی،انکساری، بلندی اخلاق، مہمان نوازی اپنے آپ میں ایک مثال تھی، وہ ایک قادر کلام شاعر بھی تھے، انہوںنے بہت سی نعتیں بھی لکھیں، اردو ادب سے بھی ان کومناسبت تھی وہ نہایت شستہ رواں اور سہل زبان لکھتے تھے، حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ سے ان کا خاص تعلق تھاجو شگفتگی اور والہانہ طرز پر تھا ان کے انتقال پر انہوں نے ایسی شاہکار تحریر لکھی جس کو پڑھ کر لوگ ان کی زبان دانی، ادبی ذوق اورقلبی کیفیات کی ترجمانی پر حیرت زدہ رہ گئے، حضرت مفتی اشرف علی صاحب ؒ داعیانہ فکر کے حامل تھے، ملی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے تھے، ملی سرگرمیوں میں ان کا رول ہمیشہ قائدانہ رہا،

ان کے دعوتی، تبلیغی، اصلاحی اسفار پورے ملک میں ہوتے رہے، ان کا علمی ذوق اگر کسی کو دیکھنا ہو تو اس کا اندازہ ان کی عظیم لائبریری سے لگایاجاسکتا ہے، وہ کتابوں کی دنیاسے بہت زیادہ تعلق رکھتے تھے۔ اکیڈمی کی تاسیس سے لے کر آج تک وہ مسلسل اکیڈمی کی میٹنگوں اور سمیناروں میں شریک ہوتے رہے اور اپنے قیمتی مشوروں، کلمات اورتاثرات سے نوازتے رہے، اکیڈمی کا تیسرا فقہی سمینار ان کی دلچسپی سے ان کے ادارہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا تھاوہ دینی علمی مجالس بہت اہتمام کے ساتھ منعقد کیا کرتے تھے اوردینی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے، شرعی امور میںوہ بہت احتیاط کے ساتھ فتوی دیا کرتے تھے۔حضرت مفتی اشرف علی صاحب ؒ کی اصل تعلیم باقیات صالحات ویلور سے ہوئی تھی اور اس کے بعد دارالعلوم دیوبند سے، وہ باقوی تھے اور اسلامی شریعت ، اسلامی تہذیب و ثقافت کا جیتا جاگتا نمونہ ،بہت طویل عرصہ سے غالبا پینتس سالوں سے وہ بخاری کا درس مسلسل دے رہے تھے، ان کے مضامین اور تحریریں ان کے ذوق اور فکر کانمونہ اور آئنہ دار ہیں، حضرت مفتی اشرف علی صاحب ؒ ندوة العلماءلکھنو¿، مسلم پرسنل لاءبورڈ، دارالعلوم وقف اور دیگر بڑے ملی ادارے اور تنظیموں کے رکن تھے ، اور وہاں کی میٹنگوں اور اجتماعات میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، اکیڈمی کے رفقاءاور کارکنان اور اس کے جملہ وابستگان ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی تمام علمی ، دینی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے۔