حضرت امیرشریعت کرناٹک کی زندگی علم و عمل کا نمونہ تھی،جب تک زندہ رہے قو م و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے:مفتی محفوظ الرحمن عثمانی

نئی دہلی(پریس ریلیز)
جنوبی ہندوستان کی عظیم دینی ،علمی و ملی شخصیت امیرشریعت کرناٹک محمد مفتی اشرف علی کے سانحہ ارتحال پر اظہار تعزیت پیش کرتے ہوئے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم اسلامیہ سپول بہار نے کہا کہ حضرت امیرشریعت کرناٹک کی زندگی علم و عمل کا نمونہ تھی،جب تک زندہ رہے قو م و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔ مولانا مفتی اشرف علی سے اپنے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے مزیدکہاکہ صرف دین کی خدمت کی وجہ سے انہوں نے پہلی ملاقات میں جس طرح والہانہ انداز میں اپنی محبت و شفقت کا اظہار فرمایا وہ لمحہ یقینا میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔
مفتی عثمانی نےکہاکہ مولانا کے والد ماجد مولانا ابو سعود صاحبؒ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خلیفہ تھے۔چنانچہ مولانامحمد مفتی اشرف علی اپنے والد محترم کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آخری سانس تک دینی تعلیم کی ترویج واشاعت  میں مصروف رہے۔یہی وجہ ہےکہ  آپ کے شاگر د دنیا بھر میں موجود ہیں اور دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہوں نےکہاکہ مفتی اشرف علی صاحب جنوبی ہند کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشادکے علاوہ درجنوں مدارس و مکاتب کے سربراہ اور نگراں تھے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مجلس عاملہ کے رکن اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدرکےساتھ رابطہ ادب اسلامی اور  متعدد ملی،سماجی تنظیموں سےوابستہ تھے۔مفتی عثمانی نےکہاکہ ریاست کرناٹک میں ان کی عظمت و مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ آپ کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی سرکاری سطح پر بھی تعزیت کی گئی وزیر اعلیٰ سدارمیا نے اظہار افسو س کیا اور سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین عمل میں آئی۔
انہوں نےکہاکہ مفتی اشرف علی کے ا نتقال کی اطلاع ملتے ہی جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ میں ایصال و ثواب کے لئے ’دعائیہ مجلس کا اہتما کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلبہ نے قرآن پاک کی تلاوت اورآپ کے بلندیہ درجات کے لئے دعائیں کی گئیں۔آخر میں مفتی اشرف علی کے صاحبزادے مولانا احمد سمال رشادی سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مفتی عثمانی نے کہاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل اور دارالعلوم سبیل الرشاد کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔امین یارب العالمین۔