نئی دہلی(ملت ٹائمز)
بیباک خاتون جرنلسٹ اور’گجرات فائلس‘ کی مصنفہ ربان ایوب کو اس کتاب کا ہندی ایڈیشن شائع ہونے کے بعد ایک بار پھر بدنام کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ انھوں نے اپنے اس دَرد کا بیان سوشل نیٹورکنگ سائٹ ’فیس بک‘ پر انگریزی زبان میں کیا۔ قارئین کو ان کے ساتھ ہو رہے سلوک سے باخبرکرنے کے لیے فیس بک پوسٹ کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے ۔
یہ پوسٹ تھوڑی طویل ہے، اس لیے مجھے امید ہے کہ آپ اس کے لیے مجھے معاف کریں گے۔ چار سال قبل جولائی 2013 میں ’تہلکہ‘ نے گجرات میں مودی حکومت کے قریبی آئی بی افسروں کے فرضی تصادم کی سریز میں شامل ہونے والی میری ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ یہ پہلی بار ہوا تھا جب کسی رپورٹ میں ایماندار تصور کیے جانے والے آئی بی افسران کا تذکرہ کیا گیا تھا۔اس رپورٹ نے میڈیا میں سنسنی پیدا کر دی تھی جس کے بعد میرے کام کو بدنام کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی گئیں۔ سوشل میڈیا پر ’رانا ایوب سی ڈی‘ ہیش ٹیگ چلانے والوں کے ذریعہ میری بدنامی اور ہتک عزتی کی ایک مہم شروع ہو گئی جو دو دنوں تک جاری رہی۔گجرات حکومت اور آئی بی کے افسران نے انفرادی طور پر مدیروں اور صحافیوں کو فون کر کے اس خبر کو اہمیت نہ دینے کے لیے کہا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ میں نے خبر حاصل کرنے کے لیے سی بی آئی میں اپنے خاص تعلقات کا استعمال کیا ہے۔ ان اشاروں کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا تھا۔ آئندہ ہفتہ ’تہلکہ‘ نے اپنے جولائی کے شمارہ میں ایک اداریہ شائع کیا جو اس طرح سے تھا—”گزشتہ کچھ ہفتوں سے مدیر رانا ایوب تعصب کا شکارہو رہی ہیں۔ تہلکہ کی سب سے شاندار اور بے خوف صحافیوں میں سے ایک رانا گزشتہ تین سالوں سے انتہائی مضبوطی کے ساتھ گجرات میں فرضی تصادم پر خبریں کرتی رہی ہیں۔ ان کی صحافت میں انصاف اور آئینی اقدار کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ جب عشرت جہاں معاملے پر ان کی خبریں جیسے ہی قومی اخباروں کی سرخیاں بننے لگیں تو انھیں لوگوں کے ذریعہ خود کو ایک پیشہ ور صحافی کی شکل میں نہیں بلکہ مسلم صحافی کی شکل میں دیکھے جانے کے افسوسناک تجربہ سے گزرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی سی بی ا?ئی افسران کے ساتھ ان کی ایک سی ڈی سے متعلق بے بنیاد افواہ پھیلا کر ان کے خلاف بے حد گھناو?نی مہم شروع کر دی گئی جس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں تھی۔“یہ جھوٹ اپنی موت تبھی مر گیا جب میں نے ’اندھ بھکتوں‘ اور جھوٹ پھیلانے والوں کو سی ڈی سامنے لانے کا چیلنج پیش کیا اور کہا کہ میں بھی اپنی فیملی کے ساتھ اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے مجھے شرمندہ کر خاموش کرانے کی کوشش کی لیکن حقیقت نے جھوٹ پھیلانے والوں کو شکست دے دی۔2016 میں میری کتاب آنے کے بعد سے ایک حقیقت جو میرے کچھ خاص دوست جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ میری زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ میرے بینک اکاﺅنٹ کی مستقل جانچ کی جاتی ہے اور ہمیشہ میرے فون کال کو ٹیپ کیا جاتا ہے۔ حکومت کے لوگوں کے ذریعہ نیوز چینل کے مدیران کو مجھے نہ بلانے اور میری کتاب کا کوئی تذکرہ نہیں کرنے کے لیے کہا گیا (اس ہفتے ندھی راجدان اور راج دیپ سردیسائی نے اپنے پروگرام میں میری کتاب کے مواد پر تبادلہ خیال کر کے ہمت کا مظاہرہ کیا ہے)۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ’بدلہ‘ لینے کا جذبہ بہت عام ہے۔ میرے بہت سے صحافی دوست جب حکومت کو پسند نہ ا?نے والی خبر شائع کرتے ہیں یا ایسی بات کرتے ہیں جس سے زیراقتدار لوگ ناراض ہو جائیں تو انھیں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دو ہفتے قبل یعنی میری دوست گوری کے قتل کے ٹھیک ایک دن پہلے میں نے اپنی انفرادی زندگی میں حکومت کی دخل اندازی اور کئی اشتہار ویب سائٹ کے ذریعہ جھوٹ پھیلانے کے بارے میں ایک فیس بک پوسٹ لکھی تھی۔ گوری کی موت کے فوراً بعد مجھے اس پوسٹ کو ہٹانی پڑی کیونکہ میں ’پلیز محفوظ رہو‘ کے پیغامات سے تنگ آ گئی تھی۔
گزشتہ ایک ہفتہ سے یعنی کتاب کا ہندی ایڈیشن شائع ہونے کے بعد سے ایک بار پھر ایسا محسوس کر رہی ہوں جیسے میری ہتک عزتی کی شروعات ہو گئی ہے۔ وہ مبینہ تعلقات جن کی وجہ سے مجھے خبریں حاصل ہوئیں اور میں کتاب لکھ پائی جیسی باتیں اور کسی عورت سے نفرت کرنے کی حد تک لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کا دور پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ میں نہ تو حیران ہوں اور نہ ہی غصے میں ہوں کیونکہ اپنے حساب سے خبر نہیں چلنے پر کسی کو بھی خاموش کرانے کا یہ سب سے کامیاب طریقہ ہے۔اس سال ’ٹائمس لٹریری فیسٹول‘ میں جب میں سدھارتھ وردھ راجن سے بات کر رہی تھی تو ناظرین میں سے ایک شخص نے مجھ سے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ میرا کام پسند کرتے ہیں لیکن اگر میں تھوڑا کم گلیمرس نظر آنے کی کوشش کروں گی تو مجھے زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ یہ خوشی کی بات رہی کہ ناظرین نے اس شخص کی جنس پر مبنی تبصرہ کے لیے اسے شرمندہ کیا اور معافی مانگنے کے لیے مجبور کیا۔ چنڈی گڑھ میں ایک دیگر پروگرام میں جہاں میں نے اپنا پنجابی ایڈیشن لانچ کیا، ناظرین میں سے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ جیسی پرکشش لڑکی کو افسران سے وہ سب بلوانے میں یقیناً کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہوگی جو میں نے کتاب میں تحریر کی ہے۔خاتون مخالف ذہن ہر جگہ موجود ہے اور اس کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ میں ایک بات جانتی ہوں کہ ماضی کی طرح صحافت کے ہر اہم دور میں مجھ سے مذہب اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کے علاوہ اس بات کے لیے بھی کیریکٹر سرٹیفکیٹ مانگا جائے گا کہ میں نے صحیح طریقے سے خبر حاصل کی ہے۔ لیکن ان کو پتہ ہے کہ وہ چاہے جو بھی کر لیں، وہ مجھے شرمندہ کر کے خاموش نہیں کر سکتے جو کہ وہ چاہتے ہیں۔ اس لیے اگلی بار وہ جب بھی آئیں، اپنی جنس پر مبنی سوچ کی جگہ حقیقت پر مبنی کوئی اہم شئے لے کر آئیں۔





