اندلس میں شدید بغاوت ،کاتا لونیاکی آزادی کے لئے ریفرنڈم جاری،حالات کشیدہ

بار سلونا(ملت ٹائمزایجنسیاں)
اسپین حکومت کی مخالفت کے باوجود کاتالونیہ ریجن کی آزادی کے لیے ریفرینڈم کا آغاز ہو گیا ہے جبکہ پولیس کی جانب سے لوگوں کی بڑی تعداد کو پولنگ سٹیشنوں میں جانے سے روکنے پر شروع ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 337 افراد زخمی ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہزاروں افراد پولنگ ا سٹیشنوں پر جمع ہو رہے ہیں جبکہ اس ریفرنڈم کی مخالفت میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں جس سے تصادم کا مزید خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسپین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس افسران نے پولنگ کا آغاز ہوتے ہی بیلٹ پیپرز اور باکس ضبط کرنے شروع کر دیے ہیں،پولیس ووٹروں کو بارسلونا کے پولنگ ا سٹیشنوں میں داخلے سے روک رہی ہے۔علاقائی دارالحکومت بارسلونا میں پولیس نے علیحدگی پسند مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔کاتالونیہ کی علاقائی حکومت اور مقامی محکمہ صحت نے زخمیوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے جبکہ ہسپانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ 11 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔اسپین کی ڈپٹی وزیراعظم سورایا سائنز ڈی سانتاماریہ کا کہنا ہے کہ پولیس پیشہ وارانہ اور صحیح انداز میں حرکت میں آئی ہے۔
کاتالان کے رہنما کارلس پوئیمونٹ نے صحافیوں سے بات کرتے پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست ا سپین کی جانب سے تشدد کا استعمال غیر منصفانہ ہے اور یہ کاتالان کے لوگوں کو روکنے میں ناکام رہے گی۔اس سے قبل کاتالونیہ کے حکام کا کہنا تھا کہ بیلٹ باکس تیار ہیں اور ان کا اندازہ ہے کہ ٹرن آو¿ٹ بہت زیادہ ہو گا۔واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے ریفرینڈم روکنے کا عہد کیا ہے جسے عدالت نے بھی غیر قانونی قرارد دیا تھا۔کاتالونیہ کے 160 اسکولوں میں ریفرینڈم کے آغاز سے قبل ہی آزادی کے حامی گھس گئے تھے تاکہ ریفرینڈم کروایا جا سکے،سکولوں کے اندر موجود بیشتر افراد میں سکول جانے والے بچے اور ان کے والدین شامل ہیں۔ کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں کسانوں نے پولنگ سٹیشنوں، شاہراہوں اور سکولوں کے گیٹ پر ٹریکٹر کھڑے کر رکھے تھے تاکہ حکام کی طرف سے کسی بھی عمارت کو سیل کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔پولیس نے علاقے میں 2315 سکولوں میں سے 1300 کا دورہ کیا اور 160 سکولوں میں کارکنان کو پایا ہے۔ادھر کاتالونیہ کے شہر بارسلونا میں اس ریفرینڈم کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے جہاں اسپین کی یکجہتی کے حق میں نعرے بازی کی گئی۔
اسپین کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہزاروں مظاہرین نے ٹاو¿ن ہال کی جانب مارچ کیا۔ ان کے بینروں پر لکھا ہوا تھا ‘کاتالونیہ ا سپین ہے۔اسپین کی مرکزی حکومت کے حکام کی کوشش ہے کہ وہ اس ریفرینڈم کو روک سکیں۔ پولیس نے صوبائی حکومت کا ٹیلی کمیونیکشن سنٹر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ریفرینڈم کا انعقاد کرنے والوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ پولیس کی جانب سے کسی بھی کارروائی کے جواب میں پرامن مزاحمت کریں۔بیلٹ پیپرز پر صرف ایک ہی سوال درج ہے کہ ” کیا آپ چاہتے ہیں کہ کاتالونیہ ایک ریپبلک کی حیثیت سے الگ ریاست بن جائے؟اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں کی صورت میں مانگا گیا ہے۔
کاتالونیہ کے حکام نے ووٹرز کو پولنگ کے آغاز سے قبل ہی پیغام دے دیا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ پولنگ سٹیشنز کے بند ہونے کی صورت میں کسی بھی پولنگ سٹیشنز میں جا سکتے ہیں۔یاد رہے کہ کاتالونیہ سپین کا شمال مشرقی قدرے مالدار علاقہ ہے اور اس کی زبان اور ثقافت باقی ملک سے مختلف ہے، اس کی آبادی 75 لاکھ ہے۔کاتالونیہ کو کافی حد تک خود مختاری حاصل ہے تاہم سپین کے آئین کے مطابق یہ علیحدہ ملک نہیں ہے۔گذشتہ پانچ سالوں میں خودمختاری کے حوالے سے ریفرینڈم کے لیے دباو¿ بڑھتا گیا ہے جس کی ایک وجہ سپین کی معیشت میں مشکلات اور حکومتی کفایت شعاری کی پالیسی سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔تاہم سپین کی یکجہتی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کاتالونیہ کو پہلے ہی ملک کے آئین میں کافی خودمختاری حاصل ہے۔پولیس کی کوششوں کے باوجود کاتالان رہنمائیوں کا کہنا ہے کہ یہ ریفرینڈم ہو گا۔ رہنما کارلس پوئیمونٹ کا کہنا ہے کہ 2000 پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ پیپر اور ریفرینڈم کی دیگر تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔