نئی دہلی(ملت ٹائمز)
ملک کی بیشتر ریاستوں بالخصوص اتر پردیش میں واقع مدارس اسلامیہ کو’بیسک شکشا ادھیکاریوں ‘کے ذریعے مختلف معاملات میں جاری کردہ نوٹس آئین ہند میں اقلیتوں کو دی گئی مذہبی آزادی کی صریحاً خلاف ورزی ہے ، جو نا قابل برداشت ہے ۔مدارس اسلامیہ ان نوٹسوں کے جال میں نہ پھنسیں اور ان کا صحیح جواب داخل کر یں ، اس کے لئے جمعیة علما ہند نے ماہر اور تجربہ کار وکلاءکی ایک ٹیم بھی تیار کر دی ہے۔ جمعیة نے مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لئے ’مدارس ایسوسی ایشن ‘ کے قیام کی تجویز بھی منظور کی ہے ،ورکنگ کمیٹی نے جمعیةلیگل سیل کا دفتردہلی میں بھی قائم کرنے کی منظوری دی ہے اس کا اعلان مولانا سید ارشدمدنی نے جمعیةعلماءہند کی قومی مجلس عاملہ کے اختتام کے بعد کیا ۔ اس موقع پر روہنگیامسلم پناہ گزینوں کی امداد،جد و جہد آزادی میں مدارس کا رول ، آسام میں لاکھوں مسلمانوں پر غیر ملکی شہریت کی لٹکتی تلوار سمیت کئی اہم ایشوز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تجاویز پیش کی گئیں میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی آزادی کی جد و جہد میں مدارس اسلامیہ کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے ۔آزادی کے بعد ملک کے آئین میںہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی رسم و رواج ادا کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے ۔ جس کے تحت مسلم نوجوان نسل کی بقا اور انہیں دینی تعلیم سے مالا مال کرنے کی غرض سے مدارس مسلسل اپنا فرض ادا کرتے آ رہے ہیں ۔مدارس اسلامیہ کے تحت ایک ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جس میں حکومت کے تعاون سے در گذر کرتے ہوئے آزادانہ طور پر قوم اورمذہب کا تحفظ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے نفرت کا بازار گرم کرنے والوں کوجو آزادی دی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج یو پی میں بیسک شکشا ادھیکاری بغیر کسی اختیار کے مدارس کو خوف زدہ کرنے کے علاوہ نوٹس جاری کر کے انہیں بند کر ادینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ریاستی حکومت کے افسران کی یہ کارروائی آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کسی بھی مدرسہ کو جو کسی مدارس بورڈ سے وابستہ نہیں ہے اور،جو حکومت سے کوئی مالی تعاون حاصل نہیں کرتا ، اسے کوئی نوٹس جاری نہیں کیاجا سکتا۔نوٹس اسی مدرسہ کوبھیجا جا سکتا ہے جو سرکار سے منظور شدہ اور کسی مدارس بورڈ سے منسلک ہو اور اس سے مالی و دیگر مراعات حاصل کر رہا ہو ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اگر کسی مدرسہ کو نوٹس ملتا ہے تو وہ خوف زدہ نہ ہو اور تعلیمی سلسلہ برقرار رکھے اور نوٹس کا قانونی طور سے جواب دیا جائے۔مدارس اسلامیہ ان نوٹسوں کے جال میں نہ پھنسیں اور ان کا صحیح جواب داخل کر سکیں ، اس کے لئے جمعیة علما ہند نے ماہر اور تجربہ کار وکلاءکی ایک ٹیم بھی تیار کر دی ہے۔ جس نے مدارس کو جواب کا وہ مسودہ فراہم کرایا ہے جو جواب کی شکل میں حکومت کو دینا ہے۔واضح ہو کہ سپریم کورٹ میں 11ججوں کی ایک ڈویزن مقدمہ نمبر 537اور 481 میں وضاحت کر دی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 30(1)کے تحت مدارس چونکہ اقلیتی تعلیمی ادارے ہیں اس لئے ان پر مدرسہ ایکٹ 2012کے تحت کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ جمعیة نے مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لئے ایک ’مدارس ایسوسی ایشن ‘ کے قیام کی تجویز بھی پاس کی ہے، جومستقبل میں مدارس کی صورتحال پر نظر رکھے گی اور جہاں ضروری ہوا جمعیة علماءہند قانونی چارہ جوئی کرے گی۔مولانا مدنی نے مرکز اور ریاستی حکومت کو انتباہ دیا کہ وہ اپنے افسران کو تاکید کریں کہ وہ مدارس کے لئے بلا وجہ پریشانیاں پیدا نہ کریں ۔ روہنگیائی پناہ گزینوں کے تعلق سے حکومت کی پالیسی پر بھی اظہار تشویش کیا گیا۔تجویزمیں کہا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور عسکری تشدد پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔اس کی وجہ سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں بوڑھے، بچے اور خواتین میانمارچھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان گنت لوگوں کا بہیمانہ قتل کر دیا گیا ۔بہت بڑی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں داخل ہو کر پناہ لی ہے ۔مولانا مدنی نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ ان حالات پر عالمی برادری کا جو رد عمل سامنے آنا چاہئے تھا وہ نہیں آیا، البتہ بنگلہ دیش حکومت نے اس معاملہ میں وسیع النظری کا ثبوت دیا اور روہنگیائی پناہ گزینوں کی انسانی طور پر ہر ممکن امداد کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لئے بنگلہ دیش حکومت کی ستائش کی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جمعیة علما ہند عالمی برادری سے اپیل کرتی ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے تئیں بیداری اور انسانیت نوازی کا ثبوت دے۔میانمار کے پناہ گزینوں کے تعلق سے حکومت ہند کی پالیسی انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف اور ہندوستان کی قدیمی تاریخی روایات کےخلاف ہے۔جمعیة علما ہند نے اپنی تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو انسانیت کی بنیاد پر ہندوستان میں رہنے کی اجازت دے۔میٹنگ کے دوران آسام میں جاری غیر ملکی شہریت معاملہ پربھی غور و فکر کیا گیا ۔ یہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اور جمعیة علما ہند بھی اس میں ایک فریق ہے۔اس تعلق سے صدر جمعیة مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی آسام میں ہی ہے ، اس لئے وہاں ہمیشہ سے فرقہ پرست قوتیں مسلمانوں کی آبادی کوکم کرنے کے لئے سازشیں کرتی رہی ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج لاکھوں خواتین کے سر پر غیر ملکی شہریت کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ میٹنگ میں بابری مسجد مقدمہ کے تعلق سے ہوئے غور وخوض میں بتایا گیا کہ جمعیة علما ہند اس معاملہ میں شروع سے ہی فریق ہے اور پوری قوت کے ساتھ قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس کے علاوہ ورکنگ کمیٹی کے سامنے بہار سیلاب سے ہوئی تباہ کاری اور متاثرین کی امداد کے تعلق سے ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی ۔ سروے رپورٹ مولانا اسجد مدنی نے تیار کی ہے ۔ سروے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جمعیة علما ہندبہار سیلاب زدگان میں خواتین بالخصوص بیواﺅں کو پختہ مکانات مہیا کرائے گی۔رپورٹ میں سیلاب سے ہوئے نقصان کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔مجلس عاملہ کی میٹنگ کے شرکاءمیں ارکان عاملہ مولانا سید ارشدمدنی ، صدرجمعیةعلماءہند ، مولانا عبدالعلیم فاروقی ناظم عمومی جمعیةعلماءہند ، مولانا حبیب الرحمن قاسمی ، مولانا محمد مستقیم احسن اعظمی صدرجمعیةعلماءمہاراشٹرا ، مفتی محمد غیاث الدین قاسمی صدرجمعیةعلماءآندھرا پردیش ، حسن احمد قادری ناظم اعلیٰ جمعیةعلماءبہار ، حاجی سلامت اللہ دہلی ، مولاناعبدالہادی قاسمی ناظم اعلیٰ جمعیةعلماءیوپی ، مولانا سید اشہد رشیدی صدرجمعیةعلماءاترپردیش ، مولانا عبدالرشید قاسمی ناطم اعلیٰ جمعیةعلماءآسام ،مولانا عبدالناصر قاسمی صدرجمعیةعلماءبنارس ،مولانا فضل الرحمن قاسمی ممبئی ، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، مفتی محمد اسماعیل قاسمی مالیگاو¿ں شامل ہیں ان کے علاوہ جناب گلزاراحمد اعظمی سکریٹری قانونی امدادکمیٹی جمعیةعلماءمہاراشٹرا، جناب مولانا بدراحمد مجیبی پھلواری شریف پٹنہ، مفتی اشفاق احمد سرائے میر اعظم گڑھ ، قاری شمس الدین ناظم عمومی مغربی بنگال، مفتی حبیب الرحمن قاسمی راجستھان ، مولانا محمد خالد قاسمی صدرجمعیةعلماءہریانہ پنجاب، مولانا محمد مسلم قاسمی صدرجمعیةعلماءصوبہ دہلی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی مالیگاو¿ں، مفتی محمد شمیم الحسینی بنارس،مفتی ضیاءاللہ قاسمی ناظم اعلیٰ جمعیةعلماءمدھیہ پردیش، مولانا محمد عمر قاسمی صدرجمعیةعلماءسنت کبیر نگر، بطورمدعوخصوصی میٹنگ میں شریک ہوئے ۔





