امن و امان کی بحالی کے بغیرملک کی تعمیرو ترقی کا خواب بے معنی :مولانا اشہدرشیدی

سعید ہاشمی سے خاص بات چیت پر مبنی
قوموں کے عروج وزوال، کامیابی وناکامی اور ترقی وتنزلی کا مدار اُن کے اِرد گرد کے ماحول اور قائدین کے افکار وخیالات پر منحصر ہوتا ہے،لہذا ارد گرد کا ماحول سازگار اور تعمیری سوچ و فکر پر مبنی ہوگا تو نسل نو پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوگا ہاں اگر ماحول میں اپنائیت ہے، پیار ومحبت ہے، محض انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہونے کا جذبہ ہے، تو اس میں ہوش سنبھالنے والے بچے اور جوان ہونے والی نئی نسل میل ملاپ اور اُخوت وبھائی چارہ کی عادی ہوگی، اور انسانیت نوازی میں مثالی ہوگی ۔مذکور خیالات کا اظہار جمعیة علماءاترپردیش کے صدر مولانا اشہدرشیدی نے کیا ۔وہ نامہ نگار سے لکھنو¿ کے رفاہ عام میں ہونے والی قومی یکجہتی کانفرنس کے سلسلے میں خصوصی گفتگو کر رہے تھے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر پیغام محبت کو عام کرنے اور نفرت کا جواب محبت سے دینے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ جمعیة علماءہند کی ایک روشن تاریخ رہی ہے جب بھی فرقہ پرستی نے پر امن ماحول میں نفرت کا زہر گھول کر ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت گھولنے کی کوشش کی تو جمعیة علماءہند کے قائدین نے انکے عزائم کو ناکام بنایا ہے ۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم برادران وطن کے ساتھ حسن سلوک اور اعلی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں اور ہم خیال برادران وطن کو اپنے جلسوں میں مدعو کریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اسلام کی تعلیمات اور قومی یکجہتی اور اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا فروغ اور اسکی بقاءکا راز باہمی اتحاد میں مضمر ہے اس لئے کہ ملک اور صوبے میں امن و امان اور عدل و انصاف کے بغیر ترقی کا خواب بے معنی ہے ۔ مذہب کی بنیاد پر ظلم وستم عام ہے، اور بھید بھاو¿ کی سیاست کو پھیلایا جارہا ہے، تو یقینا ایسے ماحول میں بسنے والے افراد ذہنی خلفشار، عدمِ اطمینان، خوف ودہشت اور بے چینی کا شکار ہوںگے، اور دوسروں کو نقصان پہنچاکر سکون حاصل کرنے کی کوشش بے سود کریںگے۔اسی طرح قومی لیڈروں کے افکار وخیالات اگر تعمیری ہوںگے اور وہ ہر طرح کے تعصب وامتیازات سے اوپر اُٹھ کر قوم وملک کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیںگے تو ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیںگی، اور زندگی کے ہر شعبے میں وکاس ہونے لگے گا۔ اِس کے برخلاف اگر لیڈرانِ قوم وملت خود نفرت کی کاشت کرنے لگیں، مذہبی بنیادوں پر ملک کے باشندوں کو مشق ستم بنانے لگیں، اور آبادی کے ایک حصہ کو ترقی کے فوائد سے محروم رکھنے کے لئے تانے بانے بننے لگیں، تو یقینا ملک کی ترقی کا دعویٰ ایک سراب ہی بن کر رہ جائے گا، اور ایسا خواب ہوگا جو کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہ ہوسکے گا۔آج کل ہندوستان اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے، قومی سطح پر امن وامان کو تہہ وبالا کردیا گیا ہے، ملک کی آبادی کو مذہبی منافرت میں مبتلا کرکے دیش کو ترقی کے میدان سے باہر ڈھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، عدل وانصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے، غیرملکی کمپنیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت تو دی جارہی ہے، مگر امن وامان اور عدل وانصاف کو قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام تر جدوجہد کے باوجود سرمایہ کاری کے میدان میں ہندوستان کو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اقتصادی طور پر دیش شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز اِس وقت تاریخ کے خطرناک ترین دور سے گذر رہا ہے، جس میں نہ امن وامان ہے، نہ چین وسکون۔ قوم اپنی جان ومال، کاروبار اور عزت وآبرو ہر چیز کی طرف سے پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، نقصان آبادی کے تناسب سے ہر ایک کو پہنچ رہا ہے، برسراقتدار گروہ مذہبی منافرت کا راگ الاپ کر عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ہے، کبھی گﺅ رکشا کا نعرہ لگاکر نفرت کی آگ لگائی جاتی ہے، تو کبھی رام مندر اور بابری مسجد قضیہ کو بنیاد بناکر متحدہ قومیت کے قلعہ کو مسمار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور کبھی نوٹ بندی وجی ایس ٹی لاگو کرکے پبلک کو اقتصادی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ کیا وکاس حاصل کرنے کے یہی طریقے ہےں؟ کیا دیش کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے یہی راستے ہےں؟ کیا دیش کو امن وامان کا گہوارا بنانے کے یہی اُصول ہےں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے کے بجائے قوم کو جگانے اور ملک کو بچانے کے لئے ہر محب وطن کو حسب استطاعت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا؛ کیوںکہ ملک ہوگا تو ہم ہوںگے، ملک کی عزت ہماری عزت ہے، ملک کی ترقی ہماری ترقی ہے، ملک کا وکاس ہمارا وکاس ہے، اسی طرح ملک کا نقصان بھی ہم سب کا نقصان ہے، اقلیت واکثریت سب کے سب اسی دھرتی سے پیدا ہوئے ہےں، اور سب اسی مادر وطن کے باشندے ہےں، ہر ایک کے دل میں اس کی محبت کا ہونا ایک فطری جذبہ ہے، جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر ہندوستانی کو ظلم وتشدد، تعصب وامتیاز اور نفرت وعداوت کی روک تھام کے لئے، اور ملک میں امن وامان، بھائی چارہ اور پیار ومحبت کو عام کرنے، نیز عدل وانصاف کے علم کو بلند کرکے دیش کے لئے ترقی اور وکاس کی راہوں کو کھولنے کے لئے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ اسی غرض سے ۲۱نومبر ۷۱۰۲ءبروز اتوار جمعیة علماءاترپردیش کی جانب سے لکھنو¿ کے ”رفاہِ عام کلب“ کے وسیع میدان میں ایک عظیم الشان ”قومی یکجہتی کانفرنس“ منعقد کی جارہی ہے، جس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر قائد ملت مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیة علماءہند شرکت فرمارہے ہےں۔اِس کانفرنس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اگر ایک طرف ملی اتحاد کے لئے مسلمانانِ ہند پورے جوش وخروش سے شریک ہوںگے، تو دوسری طرف برادرانِ وطن کو بھی بھرپور انداز سے شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اور دیگر مذاہب کے رہنماو¿ن کو بھی بلایا گیا ہے؛ تاکہ ملک بھر کے باشندوں اور حکومت وقت کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ ہم نفرت کی سیاست کو ختم کرکے ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جس میں نفرت کی جگہ محبت وپیار، خوف ودہشت کی جگہ امن وامان اور پسماندگی کی جگہ
ترقی ہوگا اور چہار سو جانب امن و امان اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا ۔