مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ کئے بغیر صرف بی جے پی کا خوف دلاکر کانگریس کی تائید کرناغیر دانشمندانہ عمل:ایس ڈی پی آئی

بنگلور (ملت ٹائمز پریس ریلیز)
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ریاستی صدر عبدالحنان نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں گزشتہ 24اکتوبر کو Deccan Chronicleمیں اوردیگر اردو اخباروں میں شائع ہوئے اک اجلا س کی خبر پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی کچھ نام نہاد مسلم موسمی سیاستدان عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کا آغاز کررہے ہیں۔ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالحنان نے مذکورہ اجلاس کے خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 24اکتوبر کو بنگلور میں منعقد ہوئے ایک اجلاس میںبنگلور ، شیموگہ، کولار ، ٹمکور اور چتر درگہ سے کچھ نام نہاد مسلم لیڈران اور ریٹائرڈ افسران کی بنگلور میں میٹنگ ہونے کی خبر شائع ہوئی ہے جس میں ان موسمی اور مفاد پرست سیاستدانوں نے عہدوں کے خاطر مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور عوام کے جمہوری حقوق کا مذاق اڑانے کی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلمان ایس ڈی پی آئی اور جے ڈی ( ایس ) کوآنے والے انتخابات میں ووٹ دینگے تو اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔میٹنگ میں مذکورہ نام نہاد ملت کے لیڈروں نے یہ کہہ کر علماءکرام کے وقار کو ٹھیس پہنچایا ہے کہ وہ ریاست کے باوقار اور دانش مند علماءکرام کو بھی اس بات پر منوالیں گے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ووٹ دینے کے لیے عوام سے مطالبہ کریں اور اس سلسلے میں ریاست کے علماءکرام کی میٹنگ بلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے حقوق اور جمہوریت کا کھلا مذاق اڑاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مسلمان کانگریس کو ووٹ نہیں دیں گے تو ان کا سوشیل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالحنان نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا بیان غیر آئینی ہے اور عوام کو دھمکی دینے کے مترادف ہے ، اس طرح کے بیانات ہی سے عوام اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مذکورہ نام نہاد مسلم سیاسی لیڈران اور ریٹائرڈ افسران کتنی سیاسی بصیرت رکھتے ہیں اور عوام کے کتنے ہمدرد ہیں۔ایسے نام نہاد لیڈرعوام کی فلاح بہبودی کو پرے رکھ کر عوام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے مسلمانوں کو کسی ایک پارٹی کے غلام اور ووٹ بینک بنانا چاہتے ہیں۔ایس ڈی پی آئی کے تعلق سے ریاستی صدر عبدالحنان نے کہا ہے کہ ایس ڈی پی آئی کو احتجاجی اور انتخابی سیاست کا 9سالہ تجربہ ہے۔ ایس ڈی پی آئی نے گزشتہ 9سالوں میں گرام پنچایت ، تعلق پنچایت، ضلع پنچایت میونسپل وارڈس، کارپوریشن ، اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیکر فسطائی طاقتوں کو ہرانے کا تجربہ ہے۔ ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالحنان نے ان نام نہاد مفاد پرست لیڈروں کو اس بات کی طرف دھیان دلاتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ BBMP انتخابات کے بعدجب بی جے پی BBMPپر بی جے پی کا قبضہ ہونے والا تھا تو اس وقت JDS کے کارپوریٹرس اور SDPIکے صرف ایک کارپوریٹر کے ووٹ سے ہی کانگریس BBMPمیں اقتدار میں بیٹھ سکی ہے۔اسی طرح چامراج نگر میں ایس ڈی پی آئی کے4کونسلرس نے بی جے پی کو ہرانے کے لیے کانگریس کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح مڈیکرے ، شیموگہ ، گلبرگہ اور منگلور میں بی جے پی کو ہرانے کے لیے کانگریس کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہرانے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ اس کے بجائے اپنے حقوق کے مطالبہ کئے بغیر صرف بی جے پی کا خوف دلاکر مسلمانوں کے ووٹوں کو کانگریس کے جھولی میں ڈالنے کی کوشش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کے لیے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ بھی بیٹھ کر بات کرنا پڑے گا۔ نیز کانگریس کے جن لیڈروں کو گھمنڈ اور تکبر ہے ان کو بھی زمین پر آنا پڑے گا اور مسلم قیادت جسے کہتے ہیں ان تمام کو ساتھ میں لیکر اس تعلق سے حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گا۔ یہاں پر صرف پارٹیوں کی نمائندگی نہیںبلکہ کمیونٹی کی نمائندگی اہم ہے۔ ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالحنان نے مذکورہ نام نہاد لیڈروں اورریٹائرڈ افسران سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ان لیڈروں نے ریاستی حکومت پر کوئی دباﺅ نہیں ڈالا، اقلیتی کمیشن کے لیے اور مائنارٹی فنڈ کا انہوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ریاست میں بہت سے فسادات ہوئے، قتل و غارت گری ہوئی لیکن کھبی یہ لوگ وزیر اعلی کے پاس گئے اور نہ ہی ودھان سودھا گئے اور نہ ہی انہوں نے ان فسادات کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیا ۔بغیر کسی حقوق کے مطالبے کے صرف بی جے پی کا خوف دلانا اور عوام کو گمراہ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ریاستی صدر عبدالحنان نے مزید کہا کہ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کرناٹک کے تمام اسمبلی حلقوں کا باریکی سے جائزہ لے رہی ہے کہ کہاں خود انتخاب میں حصہ لینا ہے اور کہاں کس کی حمایت کرنا اور کہاں کس کو ہرانا ہے بغیر کسی جائزہ کے کسی اے سی کمرے میں بیٹھ کر اجلاس کرکے بیان جاری کردینا صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے مذکورہ نام نہاد لیڈروں سے ایک اور سوال کرتے ہوئے کہا کہ گجرات، جارکھنڈ ، اتر پردیش ، بہار اور گوا میں ایس ڈی پی آئی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیاتھا تو کیا ان ریاستوں میں بھی کانگریس کی ہار کو ایس ڈی پی آئی ذمہ دار ٹہرائیں گے۔ ان سب کا جائزہ کانگریس کو کرنا ہے اور کانگریس کے ہم خیال ہمارے لیڈر اور ریٹائرڈ افسران کو کرنا چاہئے ، اپنی کمزوری سے ہار کر دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹہرانا اور اپنا پلو جھاڑ لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ آپ کو اپنے منصوبوں کو لیکر ووٹرس کے پاس جانا صحیح رہے گا۔ دوسروں کوانگلی دکھانا یہ بزدلی کی علامت ہے اوراپنی ذمہ داری سے باہر آنا اور بغیر محنت کئے مزدوری حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جتنے بھی ریاست کے اندر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اور ریاست کرناٹک میں جب اقتدار میں آئی تھی اس وقت بھی ایس ڈی پی آئی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا ، جس جگہ ایس ڈی پی آئی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا اس جگہ جہاں جہاں بی جے پی جیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اس کا جائزہ ان نام نہاد کانگریس لیڈروں کو لینا پڑے گا۔ بی جے پی کا خوف دلانے کے بجائے پہلے سے ڈری ہوئی قوم کو ہمت دلاتے ہوئے عقل مندی کے ساتھ عوام کو بیدار کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں اپنے ووٹوں کی اہمیت کو جگانے کی جو فکریں چل رہی ہیںاس کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ بے وقوفی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ دن کی سیاست کرنے کے لیے جو کیڑے واپس آرہے ہیں ان سے ہمیں پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کرناٹک کے اند ر سیکولر حکومت ہے سیکولر سیاستدان ہیں اس کا یہ معنی نہیں کہ ہم بغیر اپنی ووٹوں کی اہمیت جانے اور بغیر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کہ صرف بی جے پی کا خوف دلایا جارہا ہے وہ بالکل اپنی کمزوری ، نااہلی اور بے وقوفی کی علامت ہے۔ ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالحنان نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کتنی ایسے مثالیں ہیں کہ وارڈ کونسلرس اور اسمبلیوں میں کانگریس کے نام سے کتنے نمائندے جیتے ہیں اور پچھلے دروازے سے بی جے پی کی حمایت کی ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے نام سے جیتنے والے ایوانوں میں جاکر بڑے عہدے حاصل کرنے والے لیڈر کب کونسی پارٹی کو چلے جائیں گے، کب سیکولر رہیں گے کب کمیونل رہیں گے ، کب ان کی پارٹی ان کے لیے دشمن بن جائے گی۔اس تعلق سے بہت سے افسوسناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے سامنے کرناٹک کے سابق وزیر اعلی ایس ۔ ایم ۔ کرشنا ہیں جن کو نمبر ون وزیر اعلی کے نام سے مشہور تھے آج بی جے پی کے گود میں ہیں۔ اسی طرح کے جے پی کے نام سے ایک سیکولر پارٹی بنانے والے اور شہید ٹیپو سلطان ؒ کے نام پر پروگرام کرنے والے لیڈر آج بی جے پی کے ریاستی کے صدر بنے ہوئے ہیں۔ ریاست بہار کی مہا گٹھ بندن کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ مہا گٹھ بندھن کے نام پر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد نتیش کمار بی جے پی کے گود میں چلے گئے۔ کیا ان نام نہاد لیڈر اور ریٹائرڈ افسران نے جاکر کیا نتیش کمار سے بات کی کہ وہ مہا گٹھ بندھن سے جیتنے کے بعد کس طرح بی جے پی کو جاسکتے ہیں ؟ ۔ ہمیں عوام کو ووٹ کی اہمیت بتانے، ووٹ کے لیے نوٹ لینے کا چلن خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹوں کو بکھرے بغیر اچھے نمائندوں کو منتخب کرنے کی عوام کو ترغیب دینے کی بجائے عوام کو صرف بیان بازی یا سوشیل میڈیا کے ذریعے گمراہ کرنا یہ دانش مندی نہیں ہے۔ ان تمام چیزوں کا جائزہ لیے بغیر جو نام نہاد لیڈر اور ریٹارڈ افسران نے اجلاس کرکے عوام کو جو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اس کوناکام کرنا ہی سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیاکی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔