گنگا جمنی تہذیب کا مفہوم

عمرفاروق قاسمی
ہمارے مسلم سیاستداں اور ضرورت سے زیادہ روشن خیال دانشوران قوم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ گنگا جمنی تہذیب کا مطلب ہے کہ ہم برادران وطن سے اس قدر گھل مل جائیں کہ وہ ہمارے ساتھ محرم کا تعزیہ بنائیں اور اور ہم ان کے ساتھ دسہرہ منائیں، وہ ہماری نماز عید کی صفوں میں شامل ہوجائیں اور ہم ان کی رکچھا بندھن میں کلائیوں پر راکھی بندھوائیں، وہ ہمارے جنازے کی صفوں میں کھڑے ہو کر نمازِ جنازہ پڑھنے کا ڈھونگ کریں اور ہم ان کی ارتھی میں اپنے ہاتھوں سے آگ لگائیں، وہ ہماری طرح السلام علیکم کہیں اور ہم ان کی طرح پرنام اور نمستے کہیں ، وہ ہماری افطار پارٹی میں آکر سروں پر ٹوپیاں لگائیں اور ہم ان کی ہولیوں میں سرتاپا رنگین ہوکر مکمل ہندوانہ تہذیب کو اپنا لیں، وہ ہمارا رومال اور عمامہ پہن کر مسلم نظر آنے لگیں اور ہم بھگوا کرتی اور سفید دھوتی لگا کر ہندو بن جائیں، وہ نعرہ تکبیر کہیں اور ہم جے شری رام کی جے جے کار کریں، وہ شب برات اور عید میلاد النبی میں ہمارے ساتھ حلوہ نوشی اور پوری خوری کریں اور ہم ان کی دیوالی میں دیپ جلائیں اور چھٹ میں ان کا چڑھا یا ہوا کیلا کھائیں ، وہ اجمیر جاکر مزار پر ماتھا ٹیکیں اور ہم ہریدوار جاکر مندروں میں بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں، وہ اپنے جسم پر ہماری شروانی زیب تن کریں اور ہاتھ میں تسبیح کے دانے کھٹکھٹانے لگیں اور ہم اپنی کمر میں دھوتی اور گلے میں زنّارکے دھاگے ڈالنے لگیں غرض یہ کہ گنگا جمنی تہذیب کا مطلب ان کے یہاں یہ ہے کہ ہم اور وہ دونوں اپنے رنگ و بو کی شناخت اور انفرادی خوبی وخو کی دیوار توڑ کر اس قدر گم ہو جائیں کہ نہ اسے کوئی ہندو سمجھے اور نہ ہمیں کوئی مسلمان۔
ایسا کرنا ہماری شریعت میں روا ہے یا ناروا؟ یہ تو ارباب فتاوی ہی رائے دیں گے لیکن میرے خیال میں گنگا جمنی تہذیب کا یہ مطلب نکالنا خود مشبہ بہ سے میل نہیں کھاتا، کہاجاتا ہے (راقم کا مشاہدہ نہیں ہے) کہ الہ آباد میں ایک جگہ ہے جہاں دونوں ندّیاں ایک دوسرے سے گلے ملتی ہیں، دونوں دریاؤں کے پانی ایک دوسرے سے مل تو جاتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی شناخت نہیں کھوتے، دیکھنے والے صاف سمجھ جاتے ہیں کہ یہ گنگا کا پانی ہے اور یہ جمنا کا، پانی جیسی لطیف شی کی اس حسین ملاقات میں بھی دونوں کا اپنا رنگ باقی رہتا ہے اس ملاقات کے لئے نہ تو جمنا کو اپنی رنگت بدلنی پڑتی ہے اور نہ ہی گنگا کو اپنی پہچان، بلکہ دونوں کی رفتار بھی اپنے اعتبار سے جوں کی توں ہے گنگا کی رفتار میں تیز دھار ہے تو جمنا میں صبر و سکون، پھر بھی دونوں ایک ساتھ ہیں، غالباً گنگا جمنی تہذیب محاورہ کے واضعین نے یہی سوچ کر وضع کیا ہوگا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان بھی آپس میں اس طرح متحد رہیں گے کہ ہندوؤں کی بھگوا رنگ کی پگڑی بھی باقی رہے اور مسلمانوں کی ٹوپی اور سبز عمامہ بھی، کسی مسلمان سیاست داں کو ہندوؤں کے محلے میں جاکر جے شری رام کا نعرہ نہ لگانا پڑے اور کسی ہندو منتری کو مسلم اکثریتی علاقوں میں اللہ اکبر اور یا نبی یا نبی کا ورد نہ کہنا پڑے، مسلمان ہندوؤں کے درمیان قشقہ لگانے پر مجبور نہ ہوں، اور ہندو بھائی مسلم محلے میں تسبیح کھٹکھٹانے پر جبر کا شکار نہ ہوں ، پھر بھی جب ملک کی سالمیت اور ترقی کی بات آئے تو مسلمان اپنی تسبیح کے ساتھ اور ہندو اپنے زنّار کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر آکھڑے ہوں، جیسا کہ جنگ آزادی میں دونوں گروپوں نے یہ کر دکھایا۔ یہی گنگا جمنی تہزیب کا پیغام ہے اور یہی قومی یکجہتی کا مفہوم ہے۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بننے کی اجازت نہ تو جمنا کی طرف سے ہے اور نہ ہی گنگا کی طرف سے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں