صفدر امام قادری
ڈھاکہ یونی ورسٹی کے بین الاقوامی اردو سیمینار کے پہلے دن کی کامیابی کے بعد دوسرے دن بھی بالکل وقتِ مقررہ سے سے می نار کا آغاز ہوا۔ سابق صدر شعبۂ اردو، ڈھاکہ یونی ورسٹی پروفیسر محمد غلام ربانی کی صدارت میں چار مقالے پیش کیے گئے۔ اس اجلاس میں بنگلہ دیش ، ہندستان اور اردو کے دوسرے مشہور مراکز کے احوال زیرِ بحث رہے۔ محمد غلام مولا استاد، شعبۂ اردو، ڈھاکہ یونی ورسٹی نے ممتاز شاعر جناب احمد الیاس کے شعری امتیازات کو روشن کیا۔ احمد الیاس فی زمانہ ڈھاکہ میں مقیم اردو کے سب سے بڑے فن کاروں میں شامل ہیں۔ ہندستان سے تشریف فرما ڈاکٹر نعیم انیس نے ”عہدِ حاضر میں مغربی بنگال میں اردو ڈراما“ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ مغربی بنگال اور مشرقی بنگال اب دو ملکوں میں منقسم ہیں اور آج پڑوسی ملکوں کی حیثیت سے سرگرمِ کار ہیں۔ سے می نار میں پڑوسی ملک کے ادب کا جائزہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا گیا۔ اس جلسے میں شعبۂ اردو کے استاد حسین البنّٰی نے نہایت کارآمد مقالہ ”عہدِ حاضر میں اردو کے فروغ میں بنگلہ دیش اور بیرونی ملک کے مدارس کا رول“پیش کیا۔ انھوں نے دنیا بھر کے مدارس کے نصاب اور وہاں کے فارغین کی کتابوں اور متفرق مضامین کی تفصیل پیش کی اور اس بات کی وضاحت میں وہ کامیاب ہوئے کہ اردو نے اپنا عالمی گھر قائم کررکھا ہے اور اس کے دروازے کھڑکیاں ہر جانب کھلی ہوئی ہیں۔ انھوںنے اسلامی علوم کے فروغ کے سلسلے سے اردو زبان کے کردار کو سراہا۔ سیمینار کا ایک بیش قیمت مقالہ شعبۂ اردو کے سب سے بزرگ استاد ڈاکٹر ظفر احمد بھوئیاں کا تھا۔ ان کے مقالے کا عنوان ”بنگلہ دیش کے تعلیمی اداروں میں اردو نصاب“ تھا۔ اس مضمون میں انھوںنے خاص طور پر ڈھاکہ یونی ورسٹی اور راج شاہی یونی ورسٹی کے نصاب تعلیم کا تعارف، تجزیہ اور تقابل پیش کیاجس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ بنگلہ دیش میں اردو کے کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ تازہ تر ادب کی تدریس کا بھی معقول انتظام ہے مگر اس نصاب میں معیار اور توازن کے بعض مسائل چھپے ہوئے ہیں۔ یہ بات اچھی لگی کہ نصابِ تعلیم میں تقریباً تمام اہم مصنفین کو وہاں دورانِ تدریس آزمایا جارہا ہے۔
بین الاقوامی سے می نار کا افتتاحی اجلاس نہایت مختصر تھا جو ایک گھنٹے سے کم وقفے میں اختتام پذیر ہوا۔ ہندستان کی یونی ورسٹیوں میں سیاست دانوں اور دیگر عہدے داروں کی بھیڑ جمع کرکے افتتاحی اجلاس کو تماشے کی شکل میں تبدیل کرنے کا کم از کم شمالی ہندستان میں رواج قائم ہوتا چلا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے رنگ میں یہاں پروفیسران بھی افتتاحی جلسے میں لایعنی گفتگو کرنے میں اپنے رہنماﺅں پر سبقت لے جانے کی ہوڑ میں شامل ہیں۔ آدھے وائس چانسلر بھی علمی معاملات کو کم اور سماجی ، سیاسی امور پر زیادہ روشنی ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اس سے می نار میں افتتاحی جلسہ ان بدعتوں سے پاک نظر آیا۔ صدر شعبۂ اردو پروفیسر محمد اسرافیل نے مختصر لفظوں میں جلسے کے مہمانوں کا استقبال کیا ۔ پھر کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے لیے پروفیسر محمد محمود الاسلام تشریف لائے اور چند جملوں میں کانفرنس کے موضوع اور انعقاد کے اسباب و علل کی انھوںنے وضاحت کردی۔ فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر شاہ جہاں میاں نے بھی مختصر رسمی گفتگو کرکے اپنی باتوں کو انجام تک پہنچایا اور سے می نار کے علمی وقار اور اردو کے ماحول کو قائم رکھا۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد اخترالزماں ڈائس پر تشریف لائے اور شعبۂ اردو کو ایسے انعقاد کے لیے انھوںنے مبارک باد دی۔ ابتدا میں ہی انھوںنے اردو زبان میں رواں گفتگو نہیں کرپانے کی معذرت کرلی تھی۔ مگر ایک عالم اور ماہرِ تدریس کے طور پر انھوںنے اپنے بین الاقوامی مہمانوں کا بنگلہ دیش کی دھرتی پر استقبال کرتے ہوئے یونی ورسٹی ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کی اس تاریخ کو بھی روشن کیا جس کی تعمیر و تشکیل میں وہاں کے عوام کا خون بہا تھا۔ ہندستان کو بہترین اور بااعتماد پڑوسی کے طور پر جب انھوںنے پیش کیا تو پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ بے حد نپی تلی زبان میں انھوںنے گفتگو کی اور اپنے ملک کے حالات، دنیا کے حالات، تعلیم کے نئے تقاضے اور ان کے درمیان اردو زبان کی ترقی اور بقا کے اور کون سے منصوبے وضع کیے جاسکتے ہیں؛ ان سب پر چند جملوں میں روشنی ڈالی۔ شعبہ ¿ اردو کے سب سے سینئر استاد پروفیسر ظفر احمد بھوئیاں نے صدارتی خطبے میں پورے اجلاس کے مباحث کا نچوڑ پیش کیا اور سے می نار سے نئے علمی میدانوں تک پہنچنے کی انھوںنے توقعات کا اظہار کیا۔افتتاحی جلسے کی نظامت اردو زبان میں محترمہ حفصہ اختر اور انگریزی زبان میں محمد غلام مولا نے کی۔ دونوں شعبہ ¿ اردو کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں نظامت اور خاص طور سے مقررین کی باتوں کا دونوں زبانوں میں خلاصہ پیش کردینے سے غیر اردو سامعین کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئیں۔
سے می نار کا اختتامی اجلاس اس اعتبار سے کامیاب تسلیم کیا جائے گا کیوں کہ مہمانانِ خصوصی کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے تشریف فرما مہمانوں کے تاثرات بھی خاص طور پر پروگرام کا حصہ بنے۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ ¿ اردو کے دو اساتذہ محترمہ حفصہ اختر اور جناب غلام مولا نے سے می نار کے تمام اجلاس کی مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے اسے یادگار تسلیم کیا۔ انھوںنے اپنی یونی ورسٹی کی تاریخ میں اس سے می نار کو سنگِ میل تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ شعبۂ اردو اب نئی طاقت اور توانائی کے ساتھ عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کرے گا۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر مقصود کمال مہمانِ اعزازی کے طور پر شریکِ بزم تھے۔ انھوں نے شعبۂ اردو کو مبارک باد دی اور اس بات کے لیے خوشی کا اظہار کیا کہ تعلیمی، تدریسی اور تحقیقی نقطہ ¿ نظر سے ایسے انعقادات طلبا اور اساتذہ سب کے لیے افادہ بخش ثابت ہوںگے۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر ڈھاکہ یونی ورسٹی کی پرووائس چانسلر پروفیسر نسرین احمد نے اپنی پُراثر تقریر میں شرکاے بزم اور شعبۂ اردو کو مبارک باد دی۔ بیرونِ ملک سے شامل ماہرین نے ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سے می نار کے علمی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے تہذیبی اشتراک کی مثال کے طور پر اس سے می نار کو یاد کیا۔ خاکسار نے سے می نار کے سلسلے سے اپنے تاثرات میں واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا کہ سے می نار سے علمی اعتبار سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے قریب کے تہذیبی اور ثقافتی سرمایے کو اپنے دل و جان میں محفوظ کرکے رخصت ہونے کی باری آگئی ہے۔ اب یہ تہذیبی تبادلے کا سلسلہ قائم رہے۔ سیمینار میں بڑی تعداد میں نئی نسل کی شرکت کو خوش آئند بتاتے ہوئے میںنے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اردو کے سلسلے سے جو دور آپ کے ملک پہ گزرچکا، اب اس سے روشن اور بارونق زمانہ آپ کے دم قدم سے آگے بڑھے گا۔ شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر محمد اسرائیل نے سیمینار کے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور ہندستانی مہمانوں سے وعدہ کیا کہ اردو کی مجلسوں میں ہمارے اساتذہ اور طلبا آپ کے اور آپ کے طالب علموں کو ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے سے سیکھیں اور سکھائیں، تبھی ہم ایک نئی علمی اور ادبی دنیا بسا پائیںگے۔
اس سے می نار کی یہ خاص بات رہی کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ ، طلبا، ریسرچ اسکالرس اور تھیٹر آرٹسٹ سب شریکِ بزم تھے۔ کوئی کسی بڑے ڈپارٹمنٹ کا صدر ہے لیکن خاموشی سے ہال میں آکر عام لوگوں کی طرح دن بھر سے می نار کا حصّہ بنا ہوا ہے۔ ہندستانی جلسوں کی طرح انھیں اس کا شوقِ بے جا نہیں کہ ان کے منصب کے مطابق انھیں اسٹیج پر جگہ دی جائے یا انھیں اپنے تاثرات پیش کرنے کے لیے پروگرام میں تبدیلی کرکے مرکزیت بخشی جائے۔ چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے اور وقت ختم ہوا، رخصت ہوگئے۔ اس سے می نار میں ایسے افراد بھی شریکِ بزم ہوئے جن کی مادری زبان بنگلہ ہے اور جو اردو بول تو نہیں سکتے لیکن جن کے کان اردو کے لفظوں سے تھوڑے بہت مانوس ہیں۔ شعبۂ اردو کے اس سیمینار، اردو زبان کی شیرینی اور لہجے کے بانکپن ہی کا یہ کمال ہوگا کہ یہ بنگلہ آبادی دم بخود ہوکر سے می نار میں ہماری اردو زبان میں چل رہی باتوں کو سنتی رہی۔ مہمانوں سے تبادلۂ خیالات اور جو اطلاعات انھیں حاصل ہوئی تھیں، ان کے بارے میں شکر گزاری کے ایسے جذبات وقفوں کے درمیان موصول ہوئے جن سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ تہذیبی تبادلے کا جو مقصد اس سے می نار نے متعین کیا تھا، اس میں صد فی صد کامیابی ملی۔ (جاری)
(مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اور سائنس،پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)
safdarimamquadri@gmail.com