مولانا آزاد : ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان پر مولانا آزاد اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار اختتام پذیر

نئی دہلی۔ 30مارچ(پریس ریلیزملت ٹائمز)
مولانا آزاد کی زندگی کا ہر پہلو روشن اور ہر گوشہ آفتاب و مہتاب تھا۔ وہ صحیح معنوں میں محی الدین ، ابوالکلام اور آزاد تھے۔ ساتھ ہی وہ اپنے زمانہ میں قرآن کریم سیرت طیبہ اور اسلامی تعلیمات کے سب سے بڑے امین تھے۔ اگر دینی مدارس مولانا آزاد کی زندگی کو جھانک کر کے بھی دیکھ لیں تو آج مدارس کا علمی و فکری انحطاط ختم ہو جائے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے کیا۔ موصوف آج آئی سی سی آر، آزاد بھون نئی دہلی میں مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ”مولانا آزاد ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ“کے آخری اجلاس میں صدارتی خطاب کر رہے تھے۔
مولانا نے مزید کہا مولانا آزاد کا تصور امن و انسانیت اسی قدر ہمہ گیر تھا جس قدر کہ اسلامی تعلیمات کی ہمہ گیر ی ۔وہ ایک صائب الرائے اور عبقری شخصیت کے مالک تھے۔مولانا آزاد اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی عطاءالرحمن قاسمی نے یہ سیمینار منعقد کر کے ملت کے سر سے مولانا آزاد کا قرض اتارنے کی مبارک کوشش کی ہے۔ اس کے لئے مولانا ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔
آج پہلی نشست کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر عزیزالدین حسین ہمدانی سابق ڈائرکٹر رامپور رضاءلائبریری نے کہا مولانا آزاد نے تاریخ کی اساس کو مآخذ اور سائنٹفک بنیاد پر استوار کیا اور کہا کہ اس میں جذباتیت نہیں ہونی چاہئے ۔مولانا آزاد نے عرب مفکرین کی آراءو معارف کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ مولانا عطاءالرحمن قاسمی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مولانا آزاد کو جاننے اور سمجھنے کا ہمیں موقع عنایت کیا ہے۔
دوسری نشست کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر کے سی یادو سابق ڈائریکٹر ہریانہ اکیڈمی آف ہسٹری اینڈ کلچر نے کہا مولانا مفتی عطا ءالرحمن قاسمی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ سب سے اہم اور ضروری عنوان پر سیمینار منعقد کیا ہے۔ مولانا آزاد کی شخصیت، ان کی فکر اورطریقہ کار کو تفصیل سے بتانے کی ضرورت ہے۔ وہ ہندوستان کے مستقبل تھے۔ ۰۲۹۱ئ میں انکی گاندھی جی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ملاقات کے بعد کسی نے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے تو گاندھی جی نے بتایا کہ وہ ہندوستان کے مستقبل ہیں۔
سابق ایم پی محمد ادیب نے کہا کہ علیگڑھ تحریک کو زندہ رکھنے اور سر سید کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مولانا آزاد نے نا قابل فراموش کردار ادا کیا۔ مولانا کا اپروچ سائنٹفک تھا۔ انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو بچایا اور پروان چڑھایا۔
مولانا مفتی عطا ءالرحمن قاسمی جنرل سکریٹری مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی نے کہا کہ اس ملک کی آزادی اور تعمیر و ترقی میں علماءنے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا ۔ انہوں نے تقسیم کی مخالفت کی اور گاندھی جی کا ساتھ دیا۔ مولانا آزاد ان میں سر فہرست تھے۔ ملک کے حالات تشویشناک ہیں۔ جس کی وجہ ہمارا روویہ ۔ ہمیں مولانا آزاد کے مشن اور نظریہ کو فراموش کر دیا ہے۔ آج بھی ملک کے اندر انسانیت زندہ ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا حکومتوں کی مخالفت گوارا تو کی جا سکتی ہے لیکن وطن کی نہیں۔ اس لئے کہ وطن سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔
سینئر صحافی ارشاد بلالی نے کہا کہ مولانا آزاد علم و عرفان کے سمندر تھے۔ ان کے لب و لہجہ میں جاہ و جلال تھا۔ وہ آخری وقت تک پاکستان کے مخالف تھے۔ اس سیمینار میں سینئر صحافی سہیل انجم نے مولانا ابو الکلام آزاد کا تذکرہ، ڈاکٹر عبید اقبال عاصم علیگڑھ نے مولانا ابو الکلام آزاد اردو ادب کے مایہ ناز قلم کار ، ڈاکٹر جسیم الدین دہلی یونیورسٹی نے مولانا ابو الکلام آزاداور مجلہ ثقافة الہند، ڈاکٹر سلطان احمد علیگڑھ نے مولانا ابو الکلام آزاد کی خطابت ،ڈاکٹر نعیم الحسن اثری دہلی یونیورسٹی نے مولانا ابو الکلام آزاد اور عربی زبان و ادب غبار خاطر کے تناظر میں ، معروف ناقد حقانی القاسمی نے مولانا ابو الکلام آزاد کے اسالیب نثر اور طنز و مزاح کے عناصر کے عنوان پر مقالات پیش کئے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد شیث ادریس تیمی نے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان چیر مین دہلی اقلیتی کمیشن کے مقالہ مولانا ابو الکلام آزاد ایک تعارف اور ڈاکٹر سید حیدر رضا ڈائریکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے مقالہ مولانا ابو الکلام آزاد کی ثقافتی فکر ، رضوان خان نے ڈاکٹر ابوبکر عباد کے مقالہ نابغہ علم و امل مولانا ابو الکلام آزاد اور ارشاد احمد نے ڈاکٹر علیم اشرف خان کے مقالہ مولانا ابو الکلام آزادبحیثیت ماہر تعلیم کی خواندگی کی۔ جب کہ پہلے اور دوسری نشست کی نظامت سہیل انجم نے کی اور تیسری نشست کی نظامت ڈاکٹر محمد شیث ادریس تیمی نے کی۔ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی عطاءالرحمن قاسمی کے کلمات تشکر پر سیمینار کا اختتام عمل میں آیا۔ اس موقع پر علماءو دانشواران کے ہاتھوں روزنامہ قومی دنیا کے خصوصی شمارہ مولانا ابو الکلام آزادنمبر کا اجراءعمل میں آیا۔