یورپ سے آئے مہاجرین نے سنائی اپنی دردناک داستان ،جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیاان کے ساتھ

برلن،6؍مئی
ملت ٹائمز
افغانستان میں تعینات جرمن سفیر مارکُوس پوٹسیل نے ڈوئچے ویلے کو دیے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے کئی افغان مہاجرین وہاں گزارے وقت سے مطمئن نہیں ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں افغانستان میں قائم جرمن سفارت خانے نے ایک مہم شروع کی تھی، جس کے مقصد جرمنی میں پناہ کے حوالے سے افواہوں کو ختم کرنا تھا تاکہ لوگ انسانوں کے اسمگلروں کے چکر میں آ کر غیر قانونی ہجرت نہ کریں۔ کیا یہ مہم کامیاب رہی ہے؟
مارکوس پوٹسیل نے بتایاکہ 2015ء میں مجموعی طور پر 154,000 افغان مہاجرین نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ وفاقی جرمن ادارہ برائے ہجرت و مہاجرین کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں ایسی درخواستیں دینے والے افغان تارکین وطن کی تعداد لگ بھگ بتیس ہزار ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر پورے سال کی پیشن گوئی کی جائے، تو یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی ڈیل پر عمل درآمد سے قبل ہی یہ کمی نمایاں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کم ہو گی۔
مارکوس پوٹسیل کا کہناہے کہ ہم یہاں افغانستان کے اندر لوگوں میں آگہی پھیلانے کی کوششوں میں ہیں کہ جرمنی میں انہیں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی مقصد سے ہم نے اپنی مہم بھی شروع کی تھی۔ جرمنی سے واپس افغانستان آنے والے کئی افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں گزارے وقت سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔ ان کے بقول انہیں انسانوں کے اسمگلروں نے جھوٹی اور بے بنیاد کہانیاں سنا کر غلط امیدیں دی تھیں۔
افغان حکومت کی جانب سے بھی اپنے شہریوں سے یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ملک میں ہی قیام کریں۔ افغان سول سوسائٹی کی طرف سے بھی متعدد مہمات شروع کی جا چکی ہیں جن میں میں اپنے حصے کا کام کروں اور افغانستان کو آپ کی ضرورت ہے جیسے پیغامات پھیلائے گئے ہیں۔ ایسی مہمات افغانستان میں سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہیں اور ان کے ذریعے نوجوان نسل کے لوگوں تک یہ پیغامات پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ در اصل یہ کوششیں جرمن سفارت خانے کی مہم کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔
افغان باشندوں کی یورپ غیر قانونی ہجرت کی روک تھام کے معاملے میں جرمن سفارت خانے اور کابل حکومت میں کافی زیادہ باہمی تعاون پایا جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں سے برلن حکومت کابل کو سالانہ تقریباً 430 ملین یورو کی مالی امداد دے رہی ہے۔ ہم افغانستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری جاری رکھیں گے تاکہ افغانستان کو غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر بھروسہ نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ تربیتی پروگراموں پر کام بھی جاری رہے گا تاکہ نوجوان شہریوں کے لیے مواقع بڑھیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہم کوشش میں ہیں کہ صورتحال تبدیل کی جا سکے۔ ایل کے آغاز میں ہم نے مالی امداد بڑھانے کے سلسلے میں کابل حکومت کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی تھی تاہم امداد میں اضافے کے لیے شرائط پوری کرنا بھی لازمی ہے۔ کابل حکومت کو سیاسی اصلاحات اور بد عنوانی کے خاتمے کے عوامل میں بہتری اور اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔بہرحال پچھلے چودہ برس سے مختلف حکومتیں جو کرنے میں ناکام رہی ہیں، وہ سب کچھ موجودہ حکومت صرف ڈیڑھ سال میں نہیں کر سکتی۔
رواں سال اکتوبر میں بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ایک اہم ڈونرز کانفرنس ہونے والی ہے، جس میں بین الاقوامی برادری اس بات کا جائزہ لے گی کہ آئندہ تین سے چار سالوں کے لیے افغانستان کی مدد کیسے کی جائے۔ علاوہ ازیں جرمنی افغانستان میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ہم افغان پولیس اور فوج کی تربیت کا کام جاری رکھیں گے۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)