سپریم کورٹ کا حکم۔ 31جولائی تک شائع کی جائے این آر سی لسٹ

جن کے خلاف آبجیکشن فائل ہوا ہے مگر آبجیکشن کرنے والا حاضر نہیں ہو رہا ہے ان کے ساتھ انصاف سے کام لیا جائے
مولاناسید محمود مدنی اور مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ایسے آبجیکشن کو فورا خارج کر دینا چاہئے
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس روہنٹن فالی نریمن پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے آج آسام میں نیشنل رجسٹر برائے شہریت (این آر سی) کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے آسام سرکار، مرکزی سرکار نیز این آر سی کے کو آر ڈینیٹر کو ہدایت دی ہے کی این آر سی کی فائنل لسٹ ۱۳، جولائی ۹۱۰۲ تک کسی بھی حال میں شائع ہو جانی چاہئے اور یہ کہ اب اس معاملہ میں کسی بھی قسم کی کوئی تاخیر قابل قبول نہیں ہوگی اس لئے تمام ہی متعلقہ ڈیپارٹمنٹ اور افسران این آر سی کی تیاری کے کام کو سنجیدگی سے انجام دیں اور وقت مقررہ پر اس کے شائع ہونے کو یقینی بنائے۔ آج این آر سی کے کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا نے عدالت کو بتایا کہ جن لوگوں کا نام پہلے شائع شدہ این آر سی کی لسٹ میں آ چکا ہے ان میں سے تقریبا دو لاکھ ، ساٹھ ہزار لوگوں کے خلاف آبجیکشن فائل ہوا ہے مگر جب ان آبجیکشن کے لئے سماعت شروع ہوئی ہے تو آبجیکشن کرنے والے حاضر نہیں ہو رہے ہیں، ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بلاخوف ایسے معاملے میں قانون کے مطابق عمل کیجئے اور انصاف کے ساتھ معاملہ کو حل کیجئے، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونی چاہئے۔آج کی سماعت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ جس آبجیکشن کو ثابت کرنے کے لئے آبجیکشن کرنے والا حاضر نہیں ہو رہا ہے اس آبجیکشن کو خارج کر دینا چاہئے اور آبجیکشن کرنے والے کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ اگر متعلقہ افسران نے عدالت کی ہدایت کے مطابق انصاف سے کام نہیں لیا تو ہم ان کے خلاف بھی عدالت جائیں گے کیوںکہ ایک آدمی بہت سے مراحل سے گزرنے کے بعد اپنا نام این آر سی میں شامل کرانے میں کامیاب ہوا اور پھر ایک دوسرا آدمی آکر اس کے خلاف بلا وجہ آبجیکشن فائل کرکے اسے پریشان کرنے کی کوشش کررہا ہے تو بلاشبہ یہ نا انصافی ہے ۔ مولانا نے کہا کہ یہ خدشہ ہمیں پہلے سے تھا کہ کچھ شرارتی قسم کے لوگ گمنام لوگوں کی جانب سے آبجیکشن فائل کرکے لوگوں کو پریشان کر نے میں لگے ہیںاور اب این آر سی کو آرڈینیٹر نے خود عدالت میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ آبجیکشن فائل کرنے والے تفتیشی سینٹر پر حاضر نہیں ہو رہے ہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ آبجیکشن فرضی لوگوں کی جانب سے ہے اسلئے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے آبجیکشن کو بلا چوںو چرا خارج کر دیا جائے اور اس کے خلاف کاروائی ہو۔ مولانا نے کہا کہ این آر سی کی پہلی لسٹ ۱۳، دسمبر ۷۱۰۲ کو شائع ہوئی تھی جبکہ دوسری لسٹ ۰۳ جولائی ۸۱۰۲ کو شائع ہوئی تھی، جس کے بعد تقریبا چالیس لاکھ لوگوں کا نام شامل نہیں ہو سکا تھا مگر جمعیة علماءصوبہ آسام اور دیگر تنظیموں کی اپیل پر عدالت نے باقی ماندہ لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کادوبارہ موقع دیاتھا،اسی طرح اگر کسی کا نام این آرسی میں شامل ہوا اور اس پر کسی کو اعتراض ہے تو اس کے خلاف آبجیکشن فائل کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔بہر حال ۰۴ لاکھ میں سے تقریبا ۳۳، لاکھ لوگوں نے اپنی شہریت کا دعوی پیش کر دیا ہے جس کی تفتیش جاری ہے جبکہ تقریبا ڈھائی لاکھ لوگوں کا نام ہولڈ پر رکھا گیا ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ۰۳ ،دسمبر ۸۱۰۲ تک صرف ۰۰۶ لوگوں کے خلاف آبجیکشن فائل ہوا تھا مگر آبجیکشن فائل کرنے کی آخری تاریخ یعنی ۱۳، دسمبر ۸۱۰۲ کو یہ تعداد بڑھکر تقریبا دولاکھ ساٹھ ہزار ہو گئی، جمعیة علماءصوبہ آسام نے اسی وقت شبہ ظاہر کیا تھاکہ یہ محض پریشان کرنے کی چال ہے اور اب وہ شبہ یقین میں بدلتا نظر آ رہاہے کیونکہ آبجیکشن کرنے والے اپنے آبجیکشن کو ثابت کرنے کے لئے تفتیشی سینٹر پر نہیں آ رہے ہیں۔ آج کی سماعت کے بعد اس مقدمہ میں سب سے قدیم فریق جمعیة علماءہند صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم جمعیة علماءہند کے صدر قاری سید عثمان منصور پوری اور جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی کی زیر نگرانی آسام کے شہریوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اورہمیں سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی پوری امید ہے۔آج جمعیة علماءصوبہ آسام کی جانب سے سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے،سینئر اڈووکیٹ سنجے ہیگڑے ،اڈووکیٹ ابولقاسم تعلقدار اور اڈووکیٹ اے ایس تپادر وغیرہ حاضر تھے جبکہ جمعیة علماءصوبہ آسام کے سکریٹری ڈاکٹر حافظ رفیق الاسلام اور مولانا منظر بلال قاسمی وغیرہ بھی موجود تھے۔