تعلیم و تربیت کے باب میں نبوت کا اصل کارنامہ 

مولانا کبیر الدین فاران مظاہری

ایک طویل رخصت غیر محسنہ کے بعد طلبہ علوم اسلامیہ مدارس کی طرف داخلہ کےلئے رجوع کر ر ہے ہیں ۔ایک کامیاب درسگاہ کےلئے گذارشات پیش کئے جارہے ہیں امید ہے کہ اسے اپنا کر ملت کے نو نہالوں کی تابناکی کی راہ ہموار کرنے کی سعی کی جائے گی ۔(مرتب)

اللہ نے علماء کو نیابتِ رسولﷺ کے اہم منصب سے سرفراز فرمایا ہے اس لئے تعلیم و تعلم تزکیہ نفوس ،متعلقہ افراد کی ذہن سازی وراثت نبوی ﷺ کی حقیقی ترجمانی اور کار نبوت کے کارناموں کی رہبری ہمارا فرضِ منصبی ہے ۔

مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھاکہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغام اور اپنی دعوت کے ذریعے سے جس فرد کو تیار کر کے کارگہہ حیات میں اتاراتھا ،وہ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والا ،نیک خوئی پسند کرنے والا، اللہ کے خوف سے ڈرنے والا اور لرز نے والا ،امانت کا پاس رکھنے والا ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والا، مادہ کو حقیر سمجھنے والا ،اور روحانیت سے مادیت پر غالب آنے والا تھا وہ اس بات پر دل سے یقین رکھتا تھاکہ دنیا تو میرے لیے بنائی گئی ہے، لیکن میں آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہوں ،پس یہ فردا گر تجارت کے میدان مین اتر تا تو نہایت سچا اور ایماندار ثابت ہوتا ، اگر مزدوری کا پیشہ اختیار کرتا تو نہایت محنتی اور بہی خواہ مزدور ثابت ہوتا ، اگر مالدار ہوجاتا تو ایک رحم دل فیاض دولت مند ثابت ہوتا ، اگر غریب ہوتا تو شرافت کو قائم رکھتے ہوئے مصیبتوں کو جھیلتا ،اگر کرسیِ عدالت پر بیٹھادیا جاتا تو نہایت سمجھدار اور منصف جج ثابت ہوتا اگر آقا ہوتا تورحم دل اور منکسر المزاج ہوتا اگر نوکر ہوتا تو نہایت چست اور فرماں بردار نوکر ہوتا اگر قوم کا مال ودولت اس کی تحویل میں آجاتا تو حیرت انگیز بیداری اور باخبر ی سے اس کی نگرانی کرتا“

دراصل اساتذہ ہی کی وہ جماعت ہے جس کے پاس فہم و احساس بھی ہے ، دوربینی و حقیقت شناسی بھی ہے اور وسائل و ذرائع بھی ےہ وہ جماعت ہے جسکی ذہانت اور جذبۂ خدمت نے کبھی کسی منزل پر قیام اور کسی لکیر کا فقیر بننا گوارہ نہیں کیا ان کی نگاہ زندگی کے بدلتے تیوروں سے کبھی نہیں ہٹی انہوں نے اسلام کی خدمت کے لیے جس زمانہ میں ، جس چیز جس طرز اور جس اسلوب کی ضرورت سمجھی بلا تکلف اختیار کرلیا ۔آج زمانے اور درس گاہ کو ایسے رجال کار اور مخلص اساتذہ کا شدت سے انتظار ہے !

حضرات گرامی ! امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے شمائل میں نقل کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد مکرم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ حضرت نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم نشینوں کے ساتھ کیا رویہ تھا ؟ تو فرمایا آپ صلی اللہ علےہ وسلم ہمیشہ ہشاش بشاش اور تر و تازہ رہتے اچھے اخلاق سے پیش آتے مزاج میں نرمی تھی سخت طبع نہ تھے اور نہ سخت اکھڑ با تیں کہتے ، نہ بلند آواز میں باتیں کہتے ،نہ بری باتیں کہتے ، نہ کسی کی عیب جوئی کرتے ،نہ کسی کی بے جامدح کرتے، جو چیزیں پسند نہ ہوتیں انہیں نظر انداز کرتے ۔ آپ صلی اللہ علےہ وسلم سے امید لگانے والے مایو س نہیں ہوتے اور نہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مایوس ہونے دیتے تھے ،اسلئے ایک استاذ کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاگر دوں پر شفیق و مہربان ہو، ان سے ہمدردی رکھتاہواور ان کی بے اعتدالیوں کو درگذر کرنا جانتاہو۔

محترم اساتذۂ کرام! جب آپ درسگاہ مےں داخل ہوں تو سلام وتحےہ کے بعد ہر بچہ کے چہرہ پر نظر ڈالےے کہ اس وقت اس کی ذہنےت کےا ہے اور وہ کس موڈ مےں ہے؟ استاذ بچوں کی دقَّتوں اور الجھنوں کو از خود سمجھنے کی کوشش کرے کہ بسااوقات والدےن کی جدائی ،حالات کی ابتری، کبھی ذہنی کمزوری بسا اوقات سبق یاد نہ ہونے کے سبب بچہ پرےشان اور خائف ہوتاہے۔ اےسے موقع پر استاذ کو چاہئے کہ درسگاہ کے ماحول کو پر سکون بنائے دلجوئی، حوصلہ افزائی اورمسکراہٹ سے بچوں کی ہمت بڑھائے ۔

اسی طرح درسگاہ پر استاذ کا مکمل کنٹرول ہو خاموشی اور مکمل توجہ کی تصویر ہو ،دماغ ےکجا ہومنتشر نہ ہو۔تعلیم کی اہمےت اور فضیلت اس طرح بتائی جائے کہ یہ شاگرد کے ذہن میں گھل اور رچ بس جائے۔

جو مضمون استاذ پڑھارہے ہوں ضروری نہےں کہ ہر بچہ سمجھ جائے اس لئے پہلے سمجھدار بچہ سے دئے سبق کو دوہرائے اس سے کم فہم بچہ کی توجہ اپنے سبق کی طرف خو دبخود مائل ہوگی۔اسی طرح استاذ اپنے شاگر د کو سبق ےاد کرنے کا سہل طریقہ مطالعہ کے لئے کتابوں اور مراجع کا انتخاب آئندہ سبق کی تےاری کی رہنمائی کرے ، یاد داشت میں اضافہ کا حکماء، اطباءاور صلحاء سے کمزوری کے اسباب اور قوت یاد داشت میں اضافہ کا حکیمی نسخہ بھی حسن تدبیر سے بتائے۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓنے فرماےا کہ” میرا خیال یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے عالم کے ذہن سے علمی باتوں کو بھلادیا جاتاہے“ یعنی گناہ علم کے بھول جانے کا سبب بنتاہے ۔اورتجربہ سے ےہ بات بالکل مشاہد ہے ۔

امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ؒ سے پوچھا گیا کہ قوت حافظہ تیز ہونے کےلئے کیا تدبیر اپنائی جائے ؟تو آپ نے جواب دیا کہ کتابوں کا مطالعہ مسلسل جاری رکھاجائے اس سے حافظہ مضبوط ہوگا ۔ 

حضرات علماءکرام! ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو علم دینے کی بجائے ان میں علم حاصل کرنے کی جستجو اور ذوق پید ا کیا جائے ۔ ماہر نفسیات خلیل جبران کے مطابق اچھا استاذوہ نہیں جو اپنی ذہانت کو طلبہ میں تقسیم کرتا پھر ے بلکہ ہر طالب علم کو خود اس کے اپنے ہی ذہن کی دہلیز پر لاکھڑا کرے تاکہ وہ جان سکے کہ اس کے اپنے ذہن میں کیا ہے ۔ 

مربیان محترم! بچوں کو مارنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے کہ بعض بچے اسقدر حساس ہوتے ہیں کہ پٹائی کی وجہ سے ذہنی امراض اوردماغی خلجان میں مبتلاہوکر ترک تعلیم اور کبھی تاب نہ لاکر لاپتہ ہوجانے کی راہ اختیار کرلےتے ہیں اس لئے کامیاب استاذ کی پہچان ےہ ہے کہ وہ مار نہیں .. پیار کا کامیاب ترین نسخہ استعمال کرتا ہے ۔

غصہ اور طیش میں آکر کبھی بچوں کو سزا نہ دے کیو نکہ کوئی غصہ میں بھرا ہوا حکیم مریض کے مرض کو ختم نہیں کرسکتا، غصہ میں دل قابو میں نہیں رہتا، جب استاذکا دل ہی قابو میں نہیں تو وہ شاگرد کو کیسے اپنے قابو میں لاسکتاہے اس میں تو اور خرابی کا اندایشہ ہے  

یاد رکھئے! چھوٹے بچوں کے دل میں رعب اور خوف کا سمانا ایسا ہی براہے کہ جیسا نر م و نازک پودے پر باد صرصر کا تند جھونکا یا پھولوں پر لو کا چلنا ۔ 

طالب علم کے ساتھ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کی وجہ سے اگر چہ عارضی طور پر فائدہ ہوجائے گالیکن مستقلا ًیہ باعث فتنہ ہے او ر اس سے فائدہ کے بجائے الٹانقصان کا اندیشہ ہے جو استاذ اخلاقی برائیوں کو حسن خلق کے ذریعے رفع کرنے کی قا بلیت نہیں رکھتا وہ کامل استاذ کہلانے کا مستحق نہیں۔

بزرگوں کا ارشاد ہے ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں اولاد کو عرش سے فرش پر لانے کا اور اساتذہ تربیت کرکے ان بچوں کو( باعتبار روحانی ترقی کے) فرش سے عرش تک پہنچانے کا اہم وسیلہ ،مستقبل کا معماراوررہنمابنانے نیز ان کے اخلاق و اطوار کے سنوارنے کے ضامن ہوتے ہیں ۔

اساتذۂ کرام! استاذ ہونا ایک خےر اورفضل عام کی علامت ہے استا ذ کا معلم خیر ہونا ان کے لیے باعث خیر ہے۔ اساتذہ کرام شریعت حقہ اور سنت نبوی علیہ الصلوٰة والتسلیم کے پابند ہونگے تو انکے زیر اثر ایک بڑی امت،طالبان علوم نبوت اور داعی بن کر ابھرےنگے۔ اسلئے عام طور پر عصری درسگاہوں اوربڑے بڑے کاروباری اداروںمیںخدمت انجام دینے والا خواہ کتنا ہی پڑھالکھاہواسے کا م کی تربیت اور ٹرینگ لیناضروری ہو تاہے جبکہ دینی اداروں اور درسگاہوں مےں اس کی کہیں اور زیادہ ضرورت ہے نہ جانے اب تک یہ شعبہ کیوں ہماری نظروں سے اوجھل اور بے توجہی کا شکار ہے۔

درست ہےکہ علم پر مہارت اور دسترس ہوناالگ بات ہے اور اس علم کو دوسروں تک پہنچانے کا ہنر علےحدہ فن ہے جو کسی ماہر تعلیم اور تجربہ کار کی رہبری کے بغیر ممکن نہیں۔ تربیت تعلیم کا وہ بنیاد ی عنصر ہے جس کے بغیر تعلیم و تعلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسلئے استاذ کے لیے لازم ہے کہ وہ مدرس بننے سے قبل تدریس کے تقاضے، طلبہ کی نفسیات کا ہنر اور طریقۂ تعلیم کی ٹرےنےنگ حاصل کرلے تاکہ تعلیم و تربیت کے بہتر نتائج حاصل ہوں۔

حضرت مولانا عباد اللہ ندوی صاحب نے لکھاہے کہ” جس مضمون کی تدریس اس کے حوالہ کی جارہی ہے ،وہ واقعی اس مضمون میں عبور رکھتاہو اور اپنے اخلاق وعادات کے اعتبار سے بھی انگشت نمائی سے محفوظ ہوپھرےہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون پر مناسب محنت کرتاہو اور اس کے مطالعہ وتحقیق میں ارتقاءاور تسلسل ہو کہ اس کے بغےر وہ اپنے طلبہ کو کماحقہ فےض ےاب نہیں کرسکتا“

استاذ محترم !طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں حضرات سلف صالحین ؒ کے واقعات اور ان کے زمانہ طالب علمی کے حالات سنانابے حد مفید ہے تجربہ سے ثابت ہے کہ طلبہ کی ہر قسم کی حالت درست کرنے میں یہ طر یقہ بہت مؤثر ہے۔

کتاب المدرس میں لکھا ہے کہ دوران سبق خواہ کسی بھی فن کی کتاب ہو طالب علم کیلئے اصلا ح کی بات ضرور کیا کریں۔ 

حضرت امام ابن طاہر رحمۃ اللہ علیہ جب فن حدیث کی تحصیل کیلئے اپنے استاذ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھاکہ شیخ خود ہی اپنا سب کام کرتے ہیں بازار سے سامان لادکرلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ دیکھاکہ ایک دکان سے سامان لیااور دامن میں سب چیزیں لے کر آئے اور میرے اصرار پر بھی نہ دیا اس وقت ان کی عمر ۹۷بر س تھی ۔ 

ابو الاسود رحمۃ اللہ علیہ (واضع فن نحو ) کے حالات میں ہے کہ آخر عمر میں ان پر فالج گرا اور اس کے اثر سے ان کے ہاتھ پاﺅں ماﺅف ہوگئے تھے اس معذوری کی حالت میں بھی پاﺅ ں سے گھسٹتے ہوئے بازار جاتے اور اپنا کام کرلاتے حالانکہ ان کے ہزاروں شاگر د تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ جب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ میں درس دیتے تھے اور اس وقت آپ کا درس نہایت مقبول تھا اسی دور میں درس سے فارغ ہوکر خود اپنے ہاتھوں سے والد محترم اور بھائےوں کےساتھ اپنے گھر کی تعمیر کا کام بھی انجام دےتے تھے حالانکہ اگر آپ ذراسا اشارہ بھی کردیتے تو آپ کے سب شاگرد سعادت سمجھ کر اس خدمت کو انجام دیتے مگر آپ نے اس کو گوارہ نہ فرمایا اور خود اپنی ضرورت پوری فرمائی ۔

استاذ کو چاہئے کہ شاگردوں کو عاداتِ بد سے جہاں تک ہوسکے کنایہ اور پیار کی راہ سے منع کرے تصریح اور توبیخ کے ساتھ نہ جھڑکے اس لئے کہ تصریح ہیبت کا حجاب دور کردیتی ہے اورخلاف کرنے پرجرأت کا باعث اور اصرار حریص ہونے کا موجب ہوتاہے ۔

چنانچہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو استاذوں کے استاذ ہیں ارشاد فرماتے ہیں اگر آدمیوں کو مینگنیاں جمع کرنے سے منع کردیا جائے تو ضرورجمع کریں گے اور خیال کریں کہ ہم کوجو اس سے منع کیا گیا ہے توضرور اس میں کوئی بات ہے یہ انسانی فطرت ہے جیسا کہ حضرت آدم و حوا علیہماالسلام کا قصہ اس پر شاہد ہے ۔تعلیم سے زیادہ تادیب کا خیال رکھے کہ خام بنیاد پر عمارت کبھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔  

حضرت عبد الرحمان بن قاسمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے بیس سال تک حضرت امام مالک ؒ کی خدمت کی ان میں اٹھارہ سال آداب واخلاق کی تعلیم میں خرچ ہوئے اور صرف دوسال علم کی تحصیل میں ۔

  اساتذۂ کرام ! شاگرد کی سعادت تو اسی میں ہے کہ اپنے استاذ کی خدمت میں کوتاہی نہ برتے لیکن خود استاذ کو اس سلسلہ میں بہت احتیاط کرنی چاہئے بغیر کسی مجبوری کے اپنا ذاتی کام اس سے نہ لے اور اگربصد مجبوری کبھی کوئی خدمت لے تو کسی طرح اس کی مکا فات کردے خدمت کے باب مےں بدنی خدمت سے بالکلیہ اجتناب کرے کہ ےہ روح وجسم کو لاغر و ناتواں کرنے کا نہایت مکروہ طریقہ ہے جو جسمانی اور روحانی امراض کو متعد ی کرنے کا ذرےعہ بھی ہے نیز اس کا لحاظ رکھے کہ اس قسم کا کا م اس سے نہ لے جس کی وہ سہارنہ کرسکے یا اس میں اسکے سبق یا تکرار وغیر ہ کانقصان ہوتاہو اس لئے کہ جس مقصد کے لئے اس نے وطن چھوڑاہے جب اس میں حرج واقع ہوگاتو بد دلی پیدا ہوگی اور اخلا ص کے ساتھ وہ ہر گز کام نہ کرے گا ۔

تاریخ ِانسانی کے عظیم اور اول استاذ حضرت محمد ﷺ نے خود کو معلم فرمایا آپ ﷺ نے تعلیم و تربیت کو اس قدر اہمیت دی کہ اس سلسلے کی ادنیٰ کوتاہی کوبھی قابل مواخذہ قرار دیا ۔

حضرات اساتذہ ! استاذکے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ استاذ اچھے اخلا ق پیش کرے کیونکہ استاذ جس قدر حسن اخلا ق کے ساتھ شاگرد کے ساتھ پیش آئے گا شاگرد پر اس کی باتوں کا اسی قدر اثر ہوگا ۔ 

واقعہ ہے کہ چراغ جس طر ح جلائے بغےر روشنی نہےں دےتا علم بھی بغےر عمل کے فائدہ نہےں پہنچاتاحکیم الامت حضرت مولاناشاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علےہ کے خلیفۂ اجل حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور عارف باللہ حضرت مولاناوقاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ یہ ہمارے اکابر کے معتمد اور اسلاف کے نمونہ رہے ہیں ان کے چند ملفوظات اور کار آمدفقرے نقل کئے جارہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کوان پر عمل کرنے کی اور دوسروں تک ےہ پےغام پہونچانے کی سعادت بخشے (آمین)

حضرت شاہ مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی ؒ کافرمان ہے کہ وہ باتیں جن سے عامۃ المسلمین دینی خدام (عالم ، مدرس ، مبلغ ، واعظ ،مصلح ) سے جلد بیزار ہوجاتے ہیں (۱) نمازکی پابند ی نہ کرنا (۲) نماز کے رکوع و سجود کو اطمینا ن سے ادا نہ کرنا (۳) بلاعذر شرعی غیر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنا (۴) تراویح میں اجرت لینا (۵) شرعی داڑھی نہ رکھنا (۶) ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی رکھنا (۷) غیبت اور بے جا غصہ کرنا (۸) طمع ولالچ کا اظہار کرنا (۹) اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا (۰۱) حق بات کو نہ ماننا (۱۱) مشورہ نہ ماننے پر ناراض ہوجانا (۲۱) حسد کرنا۔(۳۱ ) طلبہ کو خلوت میں آنے سے سختی سے روکنا اور ان سے خدمت لینے میں سخت احتیاط لازم ہے ، (۴۱) طلبہ کی تادیب ضربی سے حتی الوسع احتیاط کرنا (۵۱) صفائی وستھرائی کا معائنہ بلااطلاع کرنا ۔

نمونۂ اسلاف حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ کا ارشاد ہے کہ 

”(۱)اسا تذہ کےلئے باپ جیسا شفیق ، حلیم الطبع ، بردبا ر اور مہرو محبت کا مجسمہ ہو نا لابدی اور بنیادی چیز ہے۔(۲) رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم کی مکمل پیروی کرنا اساتذہ کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے ، تاکہ شاگردان کے رنگ میں رنگ جائیں اور امت ان کی اقتدا کرے (۳) اساتذہ کےلئے شاگرد کی خیر خواہی بھی ضروری ہے تعلیم و تر بیت کے ساتھ ان کا ہر قسم کا تعاون اور ان کی ضروریا ت کا خیا ل کرنا بھی ضروری ہے ۔(۴)شاگرد کے اوقات کا لحاظ بھی ضروری ہے ان کے اوقات آپ کے پاس امانت ہیں ، اس کا خیا ل رہے کہ انکا کوئی وقت لایعنی کاموںمیں ضائع نہ ہو ۔ (۵) شاگردوں سے اپنی ذاتی خدمت نہ لی جائے ، خصوصاً بدنی خدمت لینے سے احتراز کیاجائے ، اپنا کام خود کریں ، ورنہ یہ احسان جتلانے میں داخل ہوسکتاہے ، اس کی مما نعت لاتبطلوا صدقاتکم میں منصوص ہے ، (۶) شاگردوں کیلئے علم و عمل کی دعائیں کرتے رہنا بھی خیرخواہی میں داخل ہے“۔

حضرات علماءو مربیان کرام ! تعلیم وتر بیت کے کلےدی ابواب پیش خدمت ہےں امیدکہ ان کو اپنا کر درسگاہوں میں عمدہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔

بچہ کی مرکزیت : پوری تعلیم میں پیش نظر بچہ رہے اگر استاذ اپنی قابلیت کے اظہار میں بچے کی سطح سے اونچی بات کرے گا تو بچے کے ذہن میں کچھ بھی نہ آسکے گا ۔ ایک حکیم کا مقولہ ہے بچہ کی آنکھ کھولنے کی کوشش کرو اس کی کو شش مت کرو کہ بچہ حیر ت سے منھ کھولے ۔ مدرس اگر بچہ کی علمی سطح کی رعایت کے بغیر سبق میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتا رہیگا تو بچہ بس منھ کھولے مدرس کو تکتا رہیگا ۔اوراس کو کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ لہٰذ ا استاذ کی گفتگو بچے کی رعایت سے ہونی چاہئے تاکہ بچہ اسے سمجھ کر فائدہ اٹھائے اور استاذ درسگاہ کی تھکان اور تعب دورکرنے کےلئے بچوں کو خوشدلی اور مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کرے۔

امداد باہمی : ہمارا مقصد بچے کی صلاحیتوں کو اجا گر کر نا ہے اور یہ جب ہی حاصل ہو گا جب ہمارے اسباق کا مضمون بچہ پوری طرح جذب کررہا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب درس میں ان تین چیزوں کاباہمی خیال ہو یعنی بچہ کی صلاحیت کی سطح، اس کے لحاظ سے سبق کا انتخاب اور اسی کے لحاظ سے مدرسین کے پڑھانے کا طریقہ ۔ یہ استاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح پڑھا ئے کہ درس میں تینوں چیزیں مد نظر ہوں۔

تد ریجی ترقی : تدریس میں تدریجی ترقی کا لحاظ ضروری ہے اگر آپ بچہ پر یکبار گی اتنا بو جھ ڈال دیں گے جسکا وہ متحمل نہ ہوتو آپ کی محنت رائیگاں ہو جائیگی ،بچہ اکتا جائیگا جس سے اس کی ذہن کی ترقی رک جائیگی اور یہ قوم و ملت کا بڑ ا نقصان ہو گا ۔

  ہمدردانہ رویہ : پڑھاتے وقت طلبہ کے حق میں استاذ کا ہمدردانہ رویہ ہونا چاہئے استاذ کی زبان یا اس کا برتاؤ ایسا نہ ہو کہ کوئی طالب علم سمجھے کہ استاذ مجھ سے شفقت و محبت نہیں رکھتے ۔ 

رہنمائی اور مشورہ : استاذ کو چاہئے کہ طالب علم کو سبق کے سلسلے میں کسی کام کا براہ راست حکم نہ دے بلکہ جوکا م لیناچاہے وہ تدبیروں سے اس کی اہمیت بتاکر اس کی طلب پید ا کرے ،پھر خود مشورہ دے اور رہنمائی کرے اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوگی ۔

ترغیب : ڈرا دینے سے زیا دہ شوق دلانا ہمیشہ زیا دہ مفید رہاہے طلبہ سے جو کام لینا ہو اس کی ترغیب دیجئے اور شوق پیدا کرائیے ۔ علم کے سمندر میں تیرنے والے بچوں کو کشتی مت بنائیے کہ وہ آپ کے دھکیلنے سے ہی چلے بلکہ انہیں اپنی ہی ذاتی طاقت سے تےرنا سکھائیے ۔کیونکہ مدرس کا کام ذہن کو ترقی دینا ، نیک عادات کو پیدا کرنا ہے نہ کہ بےجا دباؤ کے شکنجے میں جکڑ کر قدرتی ترقی کو روکنا ،فطری نشوو نما کی راہ مسدود اور بند کرنا ۔

دراصل استاذ وہی کامیاب ہے جو شاگرد کے دل ودماغ میں حکمت ودانائی سے شوق ولگن اور تعلیمی طلب وجستجو پیدا کردے ۔ 

آپسی تعلق : منتظمین ،مدرسین اور ملازمین سب ہی اپنا ایک وقار رکھتے ہیں ہرایک کو ایک دوسرے کا احترام لازم ہے آپس میں ایک دوسرے کی بے ادبی سے تعلقات بھی خراب ہوتے ہیں، اپنا ذاتی وقار بھی مجروح ہوتاہے اورجس کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کیا گیا اس کا وقار بھی خراب کیا اس لئے آپس میں پیار و محبت سے رہیں ہر ایک کی عزت کواپنی عزت سمجھیں، کسی کےساتھ بے ادبی کا معاملہ نہ کریں ،بھائی بھائی اور ایک کشتی کے سوار بن کر رہے ہیں، ایک دوسرے کی عمر، رتبہ ،عہدہ اور فرق مراتب کا خوب خیال رکھیں سامنے اور غائبانہ میں صرف اور صرف اظہار خوبی کیا کریں ۔

شعبۂ تدریس و انتظام میں فرق : استاذ کے ذمہ تعلیمی کام سپرد ہے جو اپنے اندر بےحد وسعت رکھتاہے اور بےشمار اس کے تقاضے ہیں وہ اگر اپنے شعبہ کو چھوڑ کر شعبۂ انتظام میں دخل دے گا تویہ چیز اس کیلئے مناسب نہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہو نا چاہئے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے شرعاً اخلاقاً،اور قانوناً اس پر یہی ذمہ داری ہے ۔اہل تدریس خود کو اپنے کارہائے مفوضہ کا پابند بناویں انتظام کو اہل انتظام پر چھوڑ دیں تنقیدو اعتراض وانشقاق سے زیادہ انقیاد واطاعت کا جذبہ ہو جب تک حرام صریح کا حکم واشارہ نہ ملے اطاعت ہی ضروری ہے واقعہ ہے کہ آج انتظام مےں بےجا مداخلت نے اکثر جگہوں کو فتنہ وفساد میں مبتلا کردےا اورخود بربادی کی نذر ہوکر ادارے ،علمی،تربیتی اور تعمیری افراد پیدا کرنے سے محروم ہوگئے۔

  افادہ اور استفادہ : طلبہ کو مانوس کیجئے تاکہ افادہ اور استفادہ بیش از بیش ہوسکے ان پر اتنا دباﺅ نہ ڈالیں جو ضرورت سے زیادہ ہو ۔ 

  حکمت عملی اور ذہن سازی : پڑھانے میں حکمت عملی کا طریقہ اختیار کیاجائے اور تعلیم میں بچے کی ذہن سازی کی جائے یعنی جس مضمون کو کتاب میں پڑھانا ہے پہلے بلاکتاب کے اس کو بچے کے ذہن میں مستحضر کردیا جائے تاکہ بچہ کتاب کے مضمون کو سمجھنے میں آسانی محسوس کرے۔

یاد رکھئے ! ہر ایک بچہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی صلاحےت رکھتاہے اور اگر بچے کو اس کے فطری رجحان کے مطابق اسی کام میں داخل نہیں کیا جاتا تو یہ اس کی مخصوص ذہنیت پر ظلم عظیم ہوگا ۔جب تک انسان اپنی اصل جگہ تلاش نہیں کر لےتا وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

  ماحول کا اثر: ےہ ناقابل انکار حقےقت ہے کہ انسان کی شخصیت میں اس کے ماحول ،سماج ،معاشرے اور سوسائٹی کا بڑا دخل ہوتاہے ۔ وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے ارد گرد کی نےکی اور بدی کی فضا سے متائثر ہوتاہے اس لئے درسگاہ اور احاطہ کا ماحول نہایت پاکیزہ اور باادب ہونا ضروری ہے۔اس لئے قیام گاہوں کا عمر کے لحاظ سے عمدہ اور پرکشش نظم تو ےہ ہوگا کہ ہر بچہ کےلئے تخت کا انتظام ہو ۔ 

  اساتذہ کرام کے لےے لازم ہے کہ شاگردوں کودنیامیں نئی سوچ نئے خیالات ،نئے تصورات ،نئے رجحانات کا تعارف کرائے اور تقابلی مطا لعہ کی روشنی میں حقائق کو واضح کرے اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ حقیقت پسندی اور حکمت عملی کے ساتھ ،جمعیت و جماعت، دینی و دعوتی تنظیم سے وابستگی ، عملی جدوجہد،نئے پروگراموں کے آغاز سے بہتر پرانے کاموں کی باہمی مشورہ ویکجہتی سے تقویت وتکمیل، ناموافق حالات سے سےنہ سپر ہونے کی صلاحیت حوصلہ مندی و کفایت شعاری ، جمودوتعطل کے شکار ہونے سے بچانے کی تدابیر ،علمی اور روحانی قوتوں کو جلا دیکر اصل کام فراد سازی ہو نہ کہ عمارت سازی ، نصائح ونگرانی،ابنائے قدیم کی کارکردگیوں پر تربیتی واصلاحی نظر ،رفیق کار بنکر خدمات انجام دینے کی ترغیب ، والدین ،اساتذہ ،معاشرہ، مادر علمی سے جذبۂ ہمدردی، مخلصانہ تعاون اور وفاداری کا سبق سکھانا بھی ضروری ہے۔

محبت تجھکو آداب محبت خود سکھادے گی ٭ ذرا آہستہ آہستہ ادھر رجحان پیدا کر 

(مضمون نگار معروف عالم دین اور مدرسہ قادریہ مسروالا (ہماچل پردیش) کے مہتمم ہیں )

Email: faran78699@gmail.com