تصوف کی حقیقت

سالکؔ بلال احمد 

ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تا نہ چشی

اس سے پہلے کہ میں اس مسئلے کی توضیح کروں جو علمائے ظاہریہ اور سالکین تصوف کے درمیان صدیوں سے نزاعی رہا ہے میں علم تصوف کی مختصر تشریح کرنا طالبین حق کے لیے مفید خیال کرتا ہوں تاکہ مسئلہ کو منقح کرنے سے پہلے ہی طالبین حق یہ جان جائیں کہ قرون اول میں یہ کوئی غیر اسلامی چیز تصور نہیں کی جاتی تھا۔اگر تصوف کو بعد میں کچھ ناپسند کرنے لگے تو اس کی وجہ دراصل میرے نزدیک ایک ہی ہے کہ کچھ لوگ کچھ مجذوب صوفیوں کے ان الفاظ کو سمجھنے سے قاصر رہے جو انہوں نے غلبہ حال میں کہے۔یا بعض وہ لوگ جو جام تقرب سے یکسر نا آشنا تھے اور خود کو ان مجذوبین کے حمایتی جتلاتے تھے جو کہ مغلوب الاحوال ہو چکے تھے اور فنا فی اللٰہیت میں کچھ مبہم الفاظ کہہ چکے تھے بھی اس امر کے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے ان الفاظ کی تبلیغ اور رٹ لگانی شروع کی جس کی اجازت صرف مجذوبوں اور اصحاب حال کو حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ موٹی غذا جوان ہی تناول کرسکتا ہے اور اس کے لیے وہ مفید بھی ثابت ہو سکتی ہے جبکہ یہی غذا ایک بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے بچے کے لییے ماں کا دودھ ہی جو صاف اور شیرین ہوتا ہے مفید ہے۔جہاں تک تصوف کا تعلق ہے علمائے اسلام تحصیل صفت احسان کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں ۲؎ ۔درجہ احسان کی تحصیل شریعت مطہرہ کا ایک اہم مقصد ہے جیسا کہ ان تعبد اللہ کانک تراہ الخ دلالت کرتا ہے۔ابو الحسن نوری ؒ تصوف کی تعریف میں فرماتے ہیں تصوف huحظ نفس کا چھوڑنا ہے ۱؎۔ ابو علی قزوینی تصوف کو پسندیدہ اخلاق اقرار دیتے ہیں۔ابو سہل الصعلوکی تصوف کو ”الاعراض عن الاعتراض“ کہتے ہیں ابو محمد الجریری تصوف کو ہر نیک خصلت سے مزین ہونا اور تمام بری عادتوں سے قلب کو پاک کرنا بتاتے ہیں۔کتانی ؒ فرماتے ہیں کہ تصوف خلق ہی کا تونام ہے جو شخص تجھ سے اخلاق حسنہ میں بڑھ گیا وہ تجھ سے صفائی قلب میں بڑھ گیا۔ان تمام تعریفوں کو قرآن اور تصوف از ڈاکٹر ولی الدین کے صفحہ نمبر ۳؎۱پر ملاحضہ کیا جاسکتا ہے۔معلوم ہوا تصوف تزکیہ نفس اور تصفیہ اخلاق اور تحصیل صفت احسان کا نام ہے۔اس تمہیدی وضاحت سے ہمارے لیے صوفی کا سمجھنا آسان ہوا لیکن میں رسالہ ئ قشیریہ میں درج حضرت ذوالنون کی تعریف صوفیہ سے متعلق قارئین کے لیے پیش کرتا ہوں وہ فرماتے ہیں ”ھم قوم اثرو اللہ عز و جل علیٰ کل شیئً“ یعنی صوفیہ وہ ہیں جنہوں نے تمام چیزوں پر خدائے عز و جل کو ترجیح دی۔لہٰذا صوفی کا مقصود اللہ،مطلوب اللہ،محبوب اللہ،اس کا جینا اللہ،مرنا،اس کی فکر،اس کی عادت صرف اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے وہ ما سوائے حق سے ہر حال میں بیگانہ ہوتا ہے توجہ بغیر حق سے اس کے قلب کی تلخیص ہو جاتی ہے اس معنیٰ میں وہ متصل بہ حق ہو جاتا ہے اور غیر حق سے منقطع“ ۳ ؎۔ ایسے لوگوں کے خلاف دل میں رنجش رکھنا یا ایسے لوگوں کے خلاف فتویٰ بازی کا بازار گرم کرنا در اصل اسلامی تصوف اور صوفیہ کے ساتھ نا انصافی ہی نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔اسی حقیقت کے تناظر میں شاید علامہ رومی ؒ سے نہ رہ سکا اور وہ اپنی مثنوی میں کہہ گئے ؎

چونکہ حکم اندر کف رنداں بود 

لاجرم ذو النون ؒ در زنداں بود 

چوں قلم در دست غدارے بود 

لاجرم منصور بر دارے بود 

چوں سفیہاں راست ایں کار وکیا 

لازم آمد یقتلون الانبیاء 

انبیاء را گفتہ قوم راہ گم 

        از سفہہ انا تطیرنا بکم ۴؎

اب میں اس خاص مسئلے کو واضح کرنا چاہتا ہوں جو اہلیان تصوف اور علمائے ظاہریہ کے درمیان افتراق کا باعث بنا اور وہ مسئلہ ہے مسئلہ وحدت وجود۔

مسئلہ وحدت وجود 

یہ مسئلہ اس وقت نزاعی شکل اختیار کر گیا جب کچھ لوگوں نے شئی کی غیریت ذاتیہ کا انکارکر دیا جبکہ قرآن میں شئی کی غیریت کا ثبوت صریح طور پر ملتا ہے۔جو صوفی حضرات وحدت وجود کے قائل نظر آتے ہیں وہ اس معنےٰ کر کے اس کے قائل نہیں تھے کہ غیر حق،حق میں حلول کر کے اس کا جزوِ لاینفک (inseperable part) بن جاتا ہے۔مسلمان صوفیہ جب قربت کے اعلیٰ مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کا اتصال بالحق ”من تو شدم تو من شدی“ کا مصداق بن جاتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ معنٰی نہیں ہے کہ اب صوفی خدا ہوا ”اس خیال کی ابتداء عشق حقیقی کے استیلاء سے ہوئی یعنی ارباب عرفان پر جب نشہئ محبت کا غلبہ ہوتا تھا تو ان کو معشوق حقیقی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا ۴۱؎۔جس طرح جگنو کی روشنی کا وجود آفتاب کی روشنی کے مقابلہ میں ارباب حال یا صوفیوں کو تمام عالم کا وجود بشمول خود خدا کے وجود کے مقابلہ میں کالمعدوم نظر آتا ہے۔اس قسم کی وحدت یعنی وجود ذات خلق کو وجود ذات حق کے مقابلہ میں کالمعدوم تصور کرنا وحدت شہود کہلاتا ہے۵؎۔اسی وحدت کے قائل مسلمان صوفیہ رہے ہیں اس کے برعکس کا تصور یعنی وجود ذوات خلق اور وجود ذات حق کو ایک تصو ر کرنا در اصل غیر اسلامی خیال تھا جو بعد میں اسلامی تصوف میں داخل کردیا گیا۔اس طرح کا تصور فلسفیوں نے دیا جیسا کہ اسپنوزا کا خیال ہے کہ جوہر ایک ہے ”جس میں سے صرف روح اور مادہ ہم کو معلوم ہے روح کی اصل فکر ہے اور مادہ کی اصل امتدادِ کائنات (extension) جو ہم کو معلوم ہے۔انہیں دو کے تعینات (modes) سے عبارت ہے۔اس طرح خدا کائنات سے ماوراء نہیں بلکہ خودکائنات ہے گوئٹے نے اس کی تعبیر اس طر ح کی ہے کہ خدا کوئی بازی گر نہیں جو کائنات کو لٹو کی طرح اپنی انگلیوں پر متحرک کررہا ہو خدا کائنات میں اور کائنات خدا میں سموئے ہوئے ہیں“۶؎۔اس قسم کی وحدت دھری وحدت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔اس خیال کا ماحصل یہ ہے ”کہ در حقیقت خداکے سواکوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں یا یوں کہو کہ جو کچھ ہے،سب خدا ہی ہے“بقول شبلی نعمانی ”یہ بتانا مشکل ہے کہ اسلام میں یہ خیال کیونکر آیا۔آجکل کے ارباب تحقیق کی رائے ہے کہ یونان اور ہندوستان اس خیال کے ماخذ ہیں،کیونکہ ہندو اور یونانی دونوں ”ہمہ اوست“کے قائل تھے لیکن اس کا تاریخی ثبوت ملنا مشکل ہے“ ۷؎۔حضرات صوفیہ اس قسم کی وحدت کے قائل نہیں رہے ہیں۔لیکن اس قدر وہ قطعی سمجھتے ہیں کہ ”جو کچھ ہے ایک ہی ذات ہے،موجوداتِ خارجیہ سب اسی کے شؤنات ہیں“بس یہاں یہ مسئلہ اصحاب عقل کے لیے سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے لہٰذا وہ اس کی تعبیر کرنے سے قاصررہ جاتے ہیں۔

یہ بات کہ”جو کچھ ہے ایک ہی ذات ہے“صوفی مقام فنا پر پہنچنے کے بعد ہی کہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا رومیؒ نے اس مقام کو سمجھانے کی بے انتہا کوشش کی ہے۔مقام فنا کیا ہے؟ اس کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد ہر صاحب عقل ”سبحانی ما اعظم شانی اور انا الحق“جیسے بھاری الفاظ (جو صوفیوں کی زبان سے غلبہ ئ حا ل میں نکلتے ہیں)کو بولنا ان کی مجبوری پر محمول کر دے گا۔یہی مقام ہے جسکی بنا پر منصورنے دار کے ممبر پر انا الحق کا خطبہ پڑھا۔لیکن منکرین تصوف کہتے ہیں کہ انسان خدا کیونکر ہوسکتاہے اگر ایسا ہے تو پھر فرعون نے کیا جرم کیا تھا کہ انا الحق کے کہنے پر کافر اور مرتد ٹھہرا۔لیکن میرے خیال میں ان کا جواب یہ ہے کہ فرعون اس لیے کافر اور مرتدٹھہرا کہ وہ خدا کے وجود کے بارے میں ریب میں تھا اس کے برعکس ہمارے صوفیا ء کا مسلک یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہے وہی قادر مطلق و بر تر ہے۔جبکہ فرعون اپنے وجود کے مقابلے میں خدا کے وجود کا بھی منکر نظر آتا ہے جب اس سے خدا کا تعارف بحیثیت رب کرایا گیا تو اس نے انا ربکم الاعلیٰ کا جواب دیا جبکہ صوفیاء اپنے رب کے وجود کے مقابلہ میں اپنے وجود کے بھی منکر ہوجاتے ہیں۔اسی مقام کو مقام فنا کہتے ہیں۔ ع

گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی

اصحاب فنا توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ اپنی ہستی کو مٹا دیتے ہیں اور ذات الٰہی میں فنا ہوجاتے ہیں۔کسی صوفی سے کسی نے پوچھا کیسی گذرتی ہے،بولے کہ آسمان میری ہی مرضی پر حرکت کرتا ہے،ستارے میرے ہی کہنے کے موافق چلتے ہیں،زمین میرے ہی حکم سے دانے اگاتی ہے،بادل میرے ہی اشاروں پر برستے ہیں۔سائل نے تعجب سے پوچھا یہ کیونکر؟ فرمایا کہ میری کوئی خواہش نہیں۔بلکہ جو کچھ وقوع میں آتا ہے وہی میری خواہش ہے اس لیے جو کچھ ہوتا ہے میری ہی خواہش کے موافق ہوتا ہے۔محمود شبستری نے اس نکتے کو ایک نہایت عمدہ تشبیہ سے سمجھایا ہے وہ کہتے ہیں ؎

روا باشد انا الحق از درختے 

چرا نبود روا از نیک بختے 

اسکی تفصیل اس طرح ہے حضرت موسیٰ ؑنے درخت پر جو روشنی دیکھی تھی وہ خدا نہ تھی لیکن اس درخت سے آواز آئی کہ ”اَنا ربُّک“یعنی میں تیرا خدا ہوں۔شبستری کہتے ہیں کہ جب ایک درخت کو خدائی کا دعویٰ کرنا اس بنا پر جائز ہے کہ وہ نور خدا سے منور ہوگیا تو پھر ایک انسان وہ بھی صاحب ایمان و معرفت ایک خاص مقام پر (جس کو ہم مقام فناکہہ چکے ہیں) پہنچ کر یہ دعویٰ کیوں نہیں کر سکتا۔

مولانا رومی ؒاسی کو اسطرح سمجھاتے ہیں۔وہ مثنوی میں فرماتے ہیں کہ انسان پر جب کوئی جن مسلط ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے وہ اس جن کا قول و فعل ہوتاہے۔جب جن کے تسلط میں یہ حالت ہوتی ہے تو نور الٰہی جس شخص پر چھا جائے اس کی یہ حالت کیوں نہ ہوگی ۔اس سے زیادہ صاف مثال مولانا شراب کی بیان کرتے ہیں کہ انسان شراب کی حالت میں جب کوئی بد مستی کی بات کہتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اسوقت یہ شخص نہیں بولتا ہے بلکہ شراب بول رہی ہے۔مولانا نے ایک اور مثال سے اسکو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ ہے کہ لوہا جب آگ میں گرم کیا جاتا ہے اور انتہائی سرخ ہو کر آگ کا ہم رنگ ہوجاتا ہے لیکن اس میں آگ کی تمام خاصیتیں پائی جاتی ہیں یہاں تک کہ لوہا اعلان کرتا ہے کہ میں آگ ہوگیا جس طرح اسکا یہ اعلان خلاف عقل نہیں اسی طرح اگر مقام فنا پر پہنچ کر ایک صوفی انا الحق کہتا ہے تو روا ہے۔لیکن جیسا کہ میں نے ابتداء ہی میں کہا ہے کہ یہ ایک وجدانی اور ذوقی چیز ہے لہٰذا جس شخص پر یہ حالت طاری نہ ہو اسکو یہ الفاظ استعمال نہ کرنے چاہیں چنانچہ فرعون اور منصور کا اختلاف اسی پر مبنی ہے ؎

آں انا بے وقت گفتن لعنت است 

      و اں انا در وقت گفتن رحمت است (رومیؒ) 

کیاعلماء منصور کو کافر سمجھتے 

 

تھے؟

جہاں تک ظاہری اعتبار سے کلمہئ منصور کا تعلق ہے تو ایسا کلمہ کہنا غالب الاحوال لوگوں کے لیے جو نشہئ معرفت میں فنا کے مقام تک نہیں پہنچے ہیں گنا ہ ہی نہیں بلکہ کفر ہے۔اس کی مثال بالکل اس لوہے کے ٹکڑے کی سی ہے جو آگ کی بٹھی میں داخل ہونے کے بغیر ہی باہر”انا النار،انا النار“کا دعویٰ کرتا ہے۔اس کا دعویٰ اس لیے غلط ہے کیونکہ اس ٹکڑے میں ابھی نار کی کوئی خصوصیت موجود نہیں ہے۔جب یہ ٹکڑا نار میں داخل ہو جائے گا تو یہ گرم ہونے کے ساتھ سرخ بھی ہوتا چلا جائے گاپھر یہ ٹکڑا بھی انتہائی سرخی کی وجہ سے آگ کے اور ٹکڑوں جیسا لگے گا یہاں پہنچ کر اگر لوہے کا یہ ٹکڑ”ا نا النار“کا دعویٰ کرتاہے تو کوئی صاحب عقل اس پر اعتراض نہیں کرے گا۔اگر چہ اس کی اپنی ایک الگ حقیقت ہے۔اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ شیرازی ؒ نے کہا کہ”در رہ وحدت کلمہ منصور خطا است“یعنی توحید کے راستہ میں کلمہ ئ منصور خطا یعنی گنا ہ ہے۔لیکن فنا کا راستہ اس قید و بند سے مبرا ہے۔حضرات علماء امت ہمیشہ مجذوبوں کے ایسے کلموں کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ وہ انکو عاجز سمجھتے ہیں۔لیکن اعتراض یہاں پر یہ ہو سکتا ہے کہ کیا منصور کو علماء کے فتوے کے بنیاد پر ہی دار پر نہیں چڑھایا گیا۔اس بارے میں صاحب معرفت الٰہیہ کی تحقیق یہ ہے کہ ”اس وقت کے علماء نے حضرت منصور پر کفر کا فتویٰ نہیں صادر کیا تھا،یہ بالکل غلط مشہور ہے“پھر وہ لکھتے ہیں ”کہ ہمارے مرشد پاک نے یہ تحقیق مثنوی شریف کے ایک شعر سے اخذ فرمائی ہے مولانا فرماتے ہیں ؎

چوں قلم در دست غدارے بود 

لاجرم منصور بر دارے بود 

بات یہ ہے کہ وزیر کو حضرت منصور سے عداوت ہو گئی تھی،اس نے ایک فرضی استفتاء علماء کے پاس بھیجاچونکہ علماء کے ذمہ تحقیق حال نہیں ہے جو کچھ اس استفتاء پر عداوت میں مضمون لکھ دیا تھا اس کے مطابق علماء نے فتویٰ دے دیا۔علماء کو کیا معلوم کہ کس لیے یہ استفتاء طلب کیا گیا تھا۸؎۔“ معلوم ہوا کہ علماء نے کبھی ایسے مغلوب علی الاحوال حضر ات کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا ہے۔اگر کبھی دیا بھی ہے تو وہ بھی عام نوعیت کے اعتبار سے دیا ہے۔لہٰذا احوط طریقہ میرے خیال میں یہی ہے کہ ان لوگوں سے متعلق سکوت ہی اختیار کیا جائے،من سکت سلم۔

 

حوالے:

۱؎ شریعت و طریقت کا تلازم از مولانا محمد زکریا ؒ صفحہ نمبر ۲۹

۲؎قران ااور تصوف از ڈاکٹر میر الی الدین صاحب صفحہ نمبر۳۱

۳؎؎ ایضاً ص ۶۱ 

۴؎مثنوی جلد دوم صفحہ نمبر ۱۴۱

۵؎ شعر العجم جلد پنجم صفحہ نمبر ۶۲۱

۶؎ایضاً

۷؎اردو انسائکلوپیڈیا جلد سوم صفحہ نمبر ۹۶(از قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

۸؎ شعر العجم جلد پنجم صفحہ نمبر ۶۲۱

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں