دِل بدَست آور کہ حج اکبر است

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

بہار میں سیلاب کا آنا کوئی چونکانے والی بات نہیں ہے۔ یہاں جون ،جولائی اور اگست کے مہینے میں بھاری بارش اور سیلاب سے جو تباہی و بربادی ہوتی ہے وہ نظارہ ہم بچپن سے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔ بہار کے ضلع مظفر پور کے اورائی بلاک کے تحت واقع جس بستی سے میرا تعلق ہے اس کا نام ’بیشی‘  ہے۔ نیا گاؤں پنچایت میں الگ الگ ناموں سے متعارف سات چھوٹی اور بڑی آبادی پر مشتمل یہ گاؤں ریاست کی دو خطرناک ندیاں، باگھ متی اور لکھندئی کے درمیاں واقع ہے۔ دو ندیوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے ان بستیوں کی سیلاب کے موقع پر جو حالت ہوتی تھی اس کا تصور بھی شہروں میں رہنے والے لوگ نہیں کرسکتے۔ رہنے سہنے، کھانے پینے، آمدو رفت اور بول براز تک کیلئے جن مصائب و مشکلات سے یہاں کےلوگوں جوجھنا پڑتا تھا اس کا معمولی ساانداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ یہ بڑی آبادی سیلاب کی وجہ سے ایک جزیرے میں تبدیل ہوجاتی تھی اور یہ حالت تقریباً چار، پانچ اور کبھی کبھی پانچ ، چھ ماہ تک رہتی تھی۔ آمد و رفت کیلئے کشتی ہی واحد سہارا  ہوتی،کشتی پر زندگی کو دیکھنے کیلئے دوردراز کے لوگ بھی تماشہ بین بن کر آتے تھے۔ جب سیلاب کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتا تو جیسے کہرام مچ جاتا، مٹی کے بنے ’ کوٹھیوں‘ میں رکھے اناج اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء یک لخت ضائع ہونا عام بات تھی کیوں کہ یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا تھا کہ لوگ ایک سامان کو سنبھالے کیلئے بھاگتے تھے کہ دوسرا پانی کی نذر ہو جاتا تھا۔ اس آبادی کو کئی بار بھاری جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔کشتیوں کےغرق آب ہونے  سے نہ جانے کتنی جانیں تلف ہوئیں اس کا کسی کے پاس کوئی حساب نہیں۔ ایسے ہی ایک دردناک حادثہ کا ذکر یہاں پر ناگزیر ہے جو ۱۹۹۸؁ء کے بھیانک سیلاب کے موقع پر پیش آیا تھا۔ جسے گاؤں والے آج تک نہیں بھلاسکے ہیں۔اگست ۱۹۹۸؁ ء کی ۱۸؍تاریخ کو بازار جارہی ایک کشتی سخت طغیانی اور پانی کے جان لیوا لہروں کا مقابلہ نہیں کر سکی اور ڈوب گئی۔ جس میں تقریباً ایک درجن سے زائد مرد، خواتین اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یہ وہ حاثہ ہے جس کا ذکر آج بھی اس گاؤں کے باشندوں کی آنکھوں کو تر کر دیتا ہے۔ کئی ایام تک گھروں میں چولہا نہیں جلا، پورے گاؤں میں مہینوں مہیب سناٹا چھایا رہا۔ چند سال قبل جب ندیوں کو گھیرنے کا کام شروع ہوا تو اس منصوبہ کے تحت باگھ متی کو بھی گھیرا گیا جس سے وقتی طور پر کچھ راحت تو ملی مگر جب کبھی بھاری بارش ہوتی ہے اور نیپال کی طرف سے پانی چھوڑا جاتاہے تو باگھ متی کی سطح آب میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے آس پاس کے گاؤں میں خوف و ہراس کا ماحول قائم ہو جاتا ہے اور لوگ رب کریم سے گاؤں کے تحفظ کی فریاد کرنے لگتےہیں۔ تاہم گاؤں کی دوسری ندی لکھندئی کے پانی سے ابھی تک نجات نہیں ملی ہے، اس کی وجہ سے یہ بستی ایک بارپھر سیلاب کی زد ہے۔
 جس طرح سے۱۹۸۷؁ء ،۲۰۰۰؁ء ۱۹۹۸؁ ء، ۲۰۰۴؁ء ۲۰۰۸؁ء ،۲۰۱۱؁ء ۲۰۱۳؁ء اور ۲۰۱۷؁ء میں بہار میں سیلاب کا قہر برپا ہوا تھا اور تباہی و بربادی کے ریکارڈ بنے تھے۔ایک بار پھر سے پورا شمالی بہار اسی عذاب کی مار جھیل رہا ہے۔ تقریبانصف ماہ سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود شمالی بہار کے مظفر پور، سیتامرھی، چمپارن، سمستی پور ، دربھنگہ، مدھوبنی، سہرسہ ، سپول، ارریہ  اور کشن گنج سمیت دیگر اضلاع کی حالت پانی کے کم ہونے کے باوجوددگر گوں بنی ہوئی ہے۔ یہاں لوگ دوہرے عتاب کا شکار ہیں،ان کے سروں سے چھت چھن چکاہے، مکانات زمین بوس ہوچکے ہیں، بہت سے مکانات دریا میں تبدیل ہوچکے ہیں، اس لئے کھلے آسمان کے نیچے شدت کی دھوپ ہو یا بارش دونوں حالت باعث عذاب ہیں۔ ان کی بازآباد کاری کے نام پر صرف ۶۰۰؍روپے کا جھنجھنا بہار سرکار کی طرف سے فی الحا تھما دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ریاست کے ۴۰؍اراکین پارلیمنٹ کی زبان بند ہے۔ غور کرنےکی بات ہےکہ سیلاب نے سیکڑوں زندگیاں چھین لی، گاؤں کے گاؤں کے زیر آب ہیں، بستیاں ویران ہوچکی ہیں، ہر طرف پانی یا اس کے باقیات تباہی کے مناظر کو بیاں کر رہے ہیں، کسانوں نے محنت و مشقت جس دھان کی فصل لگائی تھی وہ بہہ گئیں ہیں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ خون پسینے سے بنایا گیا ان کا آشیانہ دریا برد ہو گیا ہے۔بے بس انسان اپنے گھروں میں سانپ ، بچھو اور دیگر موزی حشرات الارض جو اپنا بسیرا بناچکے ہیں کو دیکھ کر خوف و دہشت میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کس طرح سے اس ٹوٹے ہوئے آشیانے کو کھڑا کریں گے اور ان کے بچے کیسے ان زہریلے کیڑے مکوڑوں کی موجودگی میں رہ سکیں گے۔ کوئی سیلاب زدگان کا پر سان حال نہیں ہے، کہیں گاؤں کے گاؤں سڑکوں یا اونچی جگہوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بعض علاقوں میں مدرسے ، اسکولوں میں لوگ بڑی تعداد میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار فضائی سروے کرکے اعلیٰ حکام کو کئی ہدایات دے چکے ہیں مگر اس قدرتی آفات کا مقابلہ صرف پلاننگ بنا کر نہیں کیا جاسکتا۔ حکام نے فوری طور پر کچھ علاقوں میں سیلاب متاثرین کے کھاتوں میں چھ ہزار روپے ڈلوادیے ہیں لیکن سوال یہ ہےکہ جن لوگوں کا سب کچھ سیلاب بہا لے گیا اس کے لئے  یہ رقم اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں ، دوسرے یہ کہ انہیں یہ رقم کس طرح مل پائے گی۔ نہ تو ان کے پاس بینک کی کاپی محفوظ رہ سکی ہے اور نہ اے ٹی ایم ایسے میں وہ کیا کریں؟۔ ان کے لئے نقد روپے ، پلاسٹک تڑپال اور کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام کرنا از حد ضروری ہے۔ جن علاقوں سے پانی کھسک رہا ہے وہاں کی حالت اور خراب ہے۔ خاص طورپر ارریہ ، دربھنگہ ، مدھوبنی اور کشن گنج کے سیلابی علاقوںکی جو تصویریں سوشل میڈیا کے توسط سے آرہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ سیلاب زدگان تک پہنچ پانا ہی آسان نہیں اس کے باوجود مصیبت اور تکلیف کے ان اوقات میں انسانیت کی کئی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں جو ہندوستان ہی نہیں دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ مدارس،سماجی اور ملی تنظیمیں اپنے حسب استطاعت راحتی اشیاء تقسیم کر رہی ہیں۔ وہ لوگ ملوں پانی اور کیچڑ میں چل کر وہاں تک پہنچ رہے ہیں جہاں لوگ گھر بار چھوڑ کر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہا ں انسانیت اور بہاریت دونوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سیمانچل کی بات کریں تو سیلاب زدہ علاقوں میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول اور اس کی نگرانی میں الامام قاسم اسلامک ایجو کیشنل ویلفیئر ٹرسٹ انڈیا، سیمانچل ڈیولپمنٹ فرنٹ اور خدمت خلق ٹرسٹ انڈیا کے رضاکار جواں مردی سے مصیبت میں پھنسے انسانوں کی بلا تفریق مذہب داد رسی کر رہے ہیں۔ جامعۃ القاسم کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی ہدایت پر اساتذہ کرام، کارکنان کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر راحتی سامان اپنے کاندھے پر اٹھا ئے ہوئے سیلاب متاثرین تک پہنچ رہے ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت انسانیت ستائش کے قابل ہے۔ ان کا یہ عمل دنیا کے لئے بھی نظیر بن رہا ہےکہ جہاں حکومت کے کارندوں کی رسائی نہیں وہاں یہ رضاکار بلا خوف  و خطر پہنچ کر جو کچھ ان کے پاس ہے اس سے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرہے ہیں۔ لیکن یہ سب اس سنگین مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ان کی بازآباد کاری کیلئے مرکز اور صوبائی حکومت کی طرف سے بڑے راحتی پیکج کے اعلان کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دونوں حکومتوں کو سیلاب کے دائمی حل کیلئے ایسی حکمت عملی بنانا زیادہ ضروری ہے جس سے کہ بہار کے لوگوں کو نیپال کی آبی جارحیت سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکے۔     
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئرسب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yhoo.co.in

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں