عبیدالکبیر
آخر کار مرکز ی حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں موقع غنیمت پاکر ٹرپل طلاق کا بل پاس کروالیا اور بعد ازاں اس پر صدر جمہوریہ نے بھی اپنے دستخط ثبت کرکے باضابطہ قانونی شکل دےدی۔جس پر اگلے مہینے سے ملک کی عدالتوں میں عمل درآمدبھی شروع ہوجائےگا۔ملک کے مختلف طبقہ خیال کے لوگ شروع ہی سے اس بِل کو لے کر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ سماج کے جس طبقے کے مسائل کی چارہ سازی کے لیے یہ بل لایا گیا تھا وہ خود بھی اسے اپنے لیے ایک سنگین ‘مسئلہ’ سمجھ رہاہے۔22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے یکبارگی تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے کر حکومت سے اس معاملے میں قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔مرکزی حکومت کے نمائندگان بہ شمول وزیر اعظم اس مسئلے کو انتخابات میں ایک ترجیحی مقصد کے طور پر نمایاں کرتے رہے ہیں ۔بھاجپا کی حریف جماعتوں کے ذریعےاس طرح سے ٹرپل طلاق کو بہانہ بناکراسےیونیفارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کے لیے پیش خیمہ بنائےجانے کااندیشہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اندیشے اپنے اندر کتنی صداقت رکھتے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا تاہم گزشتہ لوک سبھا انتخابات اور اس کے علاوہ ریاستوں کے انتخابات میں ملک کے مرکزی ڈھانچے خصوصاً کارپرداز اداروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ بھارت کے عوام وخواص کے لیے تشویش واضطراب کا باعث ہے۔الیکشن کمیشن کا لچک دار رویہ ، آرٹی آئی سمیت کئی ایک قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اتنا تو واضح ہے کہ بھارت کی جمہوریت ایک نئے دور میں داخل ہوا چاہتی ہے۔مرکزی حکومت جس خوداعتمادی کے ساتھ یکے بعد دیگرے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی جارہی ہے اس کے نتیجے میں عوام وخواص میں بے اعتمادی عام ہوئی جاتی ہے۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے دوسرے دور میں داخل ہوتے ہوئے اپنے پرانے سلوگن میں “سب کا وشواس” کا ٹکڑا جوڑا تھا اور اقلیتوں پر خصوصی توجہ دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔تاہم ان کی سرکار کے اقدامات ان وعدوں اور ارادوں کو رندے کی طرح چھیلتے چلے جارہے ہیں۔ملک کا سنجیدہ طبقہ آئے دن نیت پر شک کرنے کے بجائے بدنیتی پر یقین کے مراحل میں داخل ہورہا ہے۔ٹرپل طلاق کے مسئلے کو جس طرح سے میڈیا میں ملک کا مرکزی موضوع بناکریک طرفہ طور پر اچھالا گیا اور اس کے ردعمل میں بھارت کی دوسری بڑی اکثریتی مسلم کمیونٹی بالخصوص خواتین کی طرف سے ملک کے طول وعرض میں وسیع پیمانے پر منعقد احتجاجات کو یکسر نظرانداز کیا گیا ۔بلکہ ان کی مخالفت کے علی الرغم ان کے مطلوبہ شرعی قانون میں دراندازی کی گئی ان کو بجا طور پر پیش بندی کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ان تمام سرگرمیوں میں عدل کے بجائے تحکم اور جمہوریت کے بجائے آمریت کی روح نمایاں رہی ہے۔ٹرپل طلاق کا معاملہ جن جن مراحل سے گزرا ہے اس میں غور کرنے کی کئی باتیں ہیں۔اس باب میں ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ بھارت ایک سیکولر اسٹیٹ ہے جس میں بسنے والے تمام لوگ اپنے مذہبی معاملات پر عمل آوری کے لیے دستور کی رو سے آزاد ہیں۔کوئی بھی حکومت یا ادارہ قدرتاً اس کا پابند ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے ان حقوق کی فراہمی کا ضامن بنے جو دستور میں تسلیم کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ نکاح ، طلاق اور وراثت کے معاملات کا تصفیہ مسلم کمیونٹی میں مذہب کے مطابق کیا جاتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ طلاق کا مذکورہ کیس جس کی بنیاد پر حالیہ قانون بنا ہے اس کے فریق معترض اور وہ تمام حضرات جو اس فریق کی حمایت ووکالت کرتے آئے ہیں خود بھی طلاق کے مسئلے کو قران کی روشنی میں حل کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔مسلم پرنسل لا کے ساتھ مذکورہ فریق کا مبینہ اعتراض قرانی حکم کی تعبیر کا اختلاف ہے نہ کہ قران کے بجائے کسی اور چیز کو اس معاملے میں ماخذ قانون بنائے جانے کا۔اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں تک کسی مسلم فرد یا جماعت کا تعلق ہے وہ قران کے کسی حکم کی تعبیر میں مختلف ہوسکتی ہے۔مگر اسٹیٹ کو یا اس کے حکام کو اصولاً مذہب کی تشریح کا حق یا مذہبی حکم کی بنیاد پر قانون سازی کا حق ہے یا نہیں اس پر غور کیا جانا چاہئے ۔ مذہب کے پیروکاروں کا داخلی اختلاف ایک الگ چیز ہے اور ملک کی ہیئت حاکمہ،مقنّنہ یا عدلیہ کا اس کی آڑ میں مذہب کی من مانی تشریح کرنا ایک دوسری چیز ہے اور دونوں میں جوہری فرق موجود ہے۔اگرچہ ٹرپل طلاق کے شور شرابے کے دوران حکومتی اہلکاراپنے اقدام کو مذہب میں مداخلت کے بجائے اسے انسانی حقوق کے تحت جواز فراہم کرتے رہے ہیں مگر یہ جواب ناکافی ہے۔نیز اس کی زد دوسرے حقوق پر بھی پڑتی ہے ۔ایسے میں یہ سوال لازماً ہمارے سامنے ہے کہ مذہب پر عمل آوری کی آزادی کا حق کیا بنیادی انسانی حقوق سے خارج قرار پائے گا۔یہ صرف اس منظر نامے کے منطقی اور نظریاتی پہلو ہیں ورنہ جہاں تک زمینی حقائق ،نتائج اور تقاضوں کی بات ہے ان کی پیچیدگیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔اس بِل کی حمایت کرنے والےحضرات جن واقعات کی بناپراسے حق بجانب باور کراتے ہیں ان واقعات کے مقابلے میں مسلم خواتین کی ملک گیر تحریک سے نظر چرانے کا راز آخر کیا ہے؟کیا لاکھوں خواتین کے مطالبات اور کڑوروں کی تعداد میں ان کے دستخط کے ساتھ ان کا عندیہ سرے سے کسی توجہ کے لائق ہی نہ تھا؟اس صورت حال کو دیکھ کر تو یہ گمان ہوتا ہے کہ جو کام ایک طبقے کی اکثریت کو کنوِنس کرکے نہیں کیا جاسکتا تھا اسے محض کنفیوژ کرکے کرڈالا گیا ہے۔غالباًقانون سازی کی یہ عجیب وغریب معرکہ آرائی سلطانی جمہور کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھ سکی ہے یا پھر اس نے دانستہ ان کو پامال کیاہے۔جہان تک مذکورہ بِل کے مندرجات کا تعلق ہے اس کو لے کر بھی ارباب دانش فکرمند ہیں ۔بِل کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کسی کو فائدہ ہوتو ہو مگر خود متاثرہ خاتون کے لیے وہ بہت سے مسائل کا باعث ہوگا۔بِل میں طلاق دینے والے فریق کو جو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ طلاق یافتہ فریق کو سبق سیکھنے کے حالات لازماً پیدا ہوں گے۔ فوری طلاق کے نتیجے میں عورت کے بے سہارا ہونے میں کم ازکم یہ گنجائش تو موجود تھی کہ سازگار حالات میں عورت کی رضامندی کی شرط پر اگر کوئی دوسرا اسے سہارا دینا چاہتا تو دے سکتا تھا ۔مگر مذکورہ قانون نے اس جائز امکان اور بنیادی حق کو بھی ختم کردیاجو یقیناً عورت کے حق میں ظلم ہے۔نیز اس کے چلتے نکاح کے ایک ممکنہ فریق کی حق تلفی بھی ہورہی ہے۔اس طرح گویا یہ بِل بیک وقت تین فریقوں کو ان کے حقوق سے محروم کررہاہے ۔مزید براں ایک سوِل معاملے کو فوجداری معاملہ بناکر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا پہلو بھی اس میں موجود ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے مذکورہ بِل اپنے اجمالی اور تفصیلی دونوں حیثیتوں سے شریعت کے مسلمہ اور متفق علیہ قواعد سے متصادم ہے۔غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم خواتین کے ‘ہمدرد’ حضرات کا سارا زور تو تین طلاقوں کو قابل رجوع بنائے رکھنا تھا اور اسی کو وہ ہائی لائٹ بھی کرتے رہے ہیں۔مگر جو قانون لایا گیا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔اس قانون کی رو سے تو سرے سے طلاق کو ہی کالعدم قرار دےدیا گیا ہے جس کابِل کی مخالفت کرنے والوں میں نہ تو کوئی متمنی ہے نہ ہی اس کی تائید کرنے والوں میں کوئی مدعی۔اس لحاظ سے یہ بل ٹرپل طلاق کے حامی(بلحاظ تاثیر) و مخالف کسی کی بھی منشا کے موافق نہیں ہے ۔ممکن ہے یہ خود قانون سازوں ہی کی منشا کے موافق ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر مسلم ویمن پروٹیکشن کا تکلف بےجاہے اور اس کے نام پر کی جانے والی ساری تگ ودو ایک منظم فریب اور صریح دھاندلی ،بلکہ یہ مذہبی حقوق پر دست درازی کی سازش یا کم ازکم کوشش ضرور کہلائے گی۔ غور کیا جائے تو یہ دراصل کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بجائے خود بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ہمارے لائق ممبران نے گویا ایک نسبتاً چھوٹے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس سے زیادہ بڑے کئی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔قطع نظر اس کے کہ اس کَرتب کے اخلاقی اور سماجی نتائج کیا ہوں گے ،باہمی اعتماد اور محبت کا مقدس رشتہ کس طرح کے جذبات اور نفسیات کا باعث بنے گا ،زوجین سمیت بچوں اور خاندان میں کیا گل کھلیں گے،اگر صرف اس کے منطقی نتائج ہی پر غور کیا جائے تو بل کی معقولیت کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔






