محمد عرفان ندیم
مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے درمیان جو گہری رفاقت تھی وہ پچاس کی دہائی میں جماعت کی پالیسیوں اور چند دیگر مسائل کی وجہ سے کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر مولانا امین احسن اصلاحی نے 13 جنوری 1958 کو استعفاء لکھ کر مولانا مودودی کو روانہ کر دیا ۔ مولانا مودودی نے مولانا امین احسن اصلاحی کو اپنے پاس بلایا اور ان کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کی کوشش کی ۔ ملاقاتیں جاری رہیں اور اس کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا ، اس خط و کتابت کے دوران ایک دلچسپ مکالمہ پیش آیا ، مولاناا مین احسن اصلاحی نے اپنے ایک خط میں مولانا مودودی کے تصور امارت اور امیر کو حاصل اختیارات پر اعتراضات کیے ، اس خط کے جواب میں مولانا مودوی نے لکھا : ” کوٹ شیر سنگھ کے اجلاس شوریٰ میں میری افتتاحی تقریر کے متعلق آپ کا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی بلی تھی جو بہت دنوں سے تھیلے میں چھپی ہوئی تھی اور اس روز مناسب موقع دیکھ کر تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ اپنے پرانے دوست پر آپ کی یہ بڑی نوازش ہے کہ آپ اس کے متعلق اتنے بلند اور پاکیزہ خیالات رکھتے ہیں۔ ان خیالات سے واقف ہو جانے کے بعد میرے لیے یہ امید کرنا مشکل ہے کہ آپ کبھی میرے کسی قول کو اچھے مفہوم میں بھی لیں گے تاہم میرا اخلاقی فرض یہ ہے کہ میں اپنا ما فی الضمیر صحیح صحیح بیان کر دوں۔درحقیقت میرے پاس کبھی کوئی بلی نہ تھی جسے تھیلے میں چھپا کر رکھنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہو اور اگر کوئی بلی تھی تو اگست ۴۱ء میں جس روز پہلی مرتبہ جماعت بنی تھی اور کسی امیر کا انتخاب ہوا بھی نہ تھا اسی وقت میں نے اسے تھیلے سے نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا۔ آپ روداد اجتماع اول ملاحظہ فرما لیں ۔۔۔۔ الخ
مودودی صاحب نے مزید لکھا : ” میری اس رائے کو آپ چاہیں تو غلط کہہ سکتے ہیں اس کے خلاف دلائل دینے کی آپ کو پوری آزادی ہے ‘ حتیٰ کہ آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ اس کو جو بدتر سے بدتر معنی چاہیں پہنائیں، مگر آپ یہ الزام مجھ پر نہیں لگا سکتے کہ ایک بد نیتی کی بلی مدتوں سے مجرم ضمیر کے تھیلے میں چھپائے پھرتا رہا تھا اور پہلی مرتبہ اسے موقع تاک کر کوٹ شیر سنگھ میں باہر نکال لایا۔ میں اس رائے کو حق سمجھتا ہوں ‘ ہمیشہ اس کو ظاہر کیا ہے اور تشکیل جماعت کے بعد سے آج تک اس پر عملاً کام کرتا رہا ہوں۔ آپ کو پورا حق ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں، اس کی وجہ سے جماعت کو چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے، جماعت میں رہتے ہوئے آپ مجلس شوریٰ کے ذہن کو اس سے مختلف جس رائے کے حق میں بھی ہموار کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔”
مولانا امین احسن ا صلاحی کو یہ خط موصول ہوا تو انہوں مولانا مودودی کے نام جوابی خط میں لکھا: ” آپ نے اپنی ’’ بلی ‘‘ کی تاریخ پیدائش ناحق بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے میں اس بات سے ناواقف نہیں ہوں کہ یہ بلی آپ کے تھیلے میں روز اول سے موجود ہے لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ تقسیم سے پہلے آلٰہ آباد کی شوریٰ کے اجلاس میں‘ میں نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی، یاد نہ ہو تو مذکورہ شوریٰ کی رُوداد پڑھ لیجئے۔ اس وقت تو یہ مر نہ سکی لیکن میں اور جماعت کے دوسرے اہل نظر برابر اس کی فکر میں رہے اور شوریٰ میں اس کی موت و حیات کا مسئلہ بار بار چھڑتا رہا یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ہم نے جو دستور بنایا اس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جب اس کے قتل کا فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت شرع شریف ‘ مصلحت زمانہ اور اسلامی جمہوریت سب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہوا تھا، اس کی تائید میں علماء کے فیصلے بھی حاصل کیے گئے تھے اور اہل نظیر کی رائیں بھی جمع کی گئیں تھیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ آپ اپنے عمل سے وقتاً فوقتاً اس کو زندہ بھی کرتے رہے لیکن ہمارے دستور نے اس کی زندگی تسلیم نہیں کی، اس سلسلہ میں جب کبھی آپ نے دستور کی مخالفت کی تو عموماً اپنے اقدامات میں بے بصیرتی کا ثبوت دیا جس سے جماعت کے اہل الرائے اس بارہ میں یکسو ہو گئے کہ یہ ’’ بلی ‘‘ مردہ ہی رہے تو اچھا ہے۔ لیکن آپ پر اس کی موت بڑی شاق تھی،آپ اس کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لیے برابر بے چین رہے اسی کے عشق میں آپ نے استعفاء دیا، ماچھی گوٹھ میں آپ نے اس کے لیے رازداروں کو خلوت میں بلا کر سازش کی، پھر کوٹ شیر سنگھ میں اس پر مسیحائی کا آخری افسوں پڑھا اور یہ واقعی زندہ ہو گئی۔ اب آپ مجھے دعوت دیتے ہیں کہ میں پھر شوریٰ میں آؤں اور اس کے اندر رہ کر اس کو مارنے کی کوشش کروں تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں۔ ایک ’’ بلی ‘‘ برسوں کی محنت سے میں نے ماری ‘ آپ نے وہ پھر زندہ کر دی اور اب آپ کی مجلس عاملہ نے اس کی رضاعت و پرورش کی ذمہ داری بھی اٹھالی، اب میں پھر اس کے مارنے میں لگوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ساری زندگی اس ’’گربہ کُشی ‘‘ ہی کی نذر کر دوں‘ آخر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے۔”
کچھ دن قبل جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود اسعد مدنی کی تصویر سوشل میڈیا پر کیا وائرل ہوئی بہت سارے لوگوں کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی ۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ بلیاں سالوں سے ان کے ضمیر کے تھیلوں میں پرورش پا رہی تھیں اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھیں۔ جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا سب کی بلیاں تھیلے سے اچھل پڑیں ۔ ان میں کچھ بلیاں تو سیکولر تھیں لیکن بہت زیادہ تعداد مذہبی بلیوں کی تھی۔ اپنی بلیوں کو مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں چھپانے والے احباب ہمیشہ ایسے واقعات کی ٹوہ میں رہتے ہیں ، جیسے ہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے ان کی مرادیں بر آتی ہیں اور بلیاں اچھل کر تھیلے سے باہر ۔
مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں جو بلیاں پرورش پاتی ہیں یہ سیکولر بلیوں سے ذرا ذیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، سیکولر بلیاں خالی الذہن ہوکر ، تہذیب و شائستگی اور اصولی طریقے سے تھیلے سے باہرنکلتی ہیں لیکن جو بلیاں مذہبی ضمیر کے تھیلوں میں پرورش پاتی ہیں انہیں ایسے مواقع پر عموما تہذیب بھی یاد نہیں رہتی ، بس اچھل کود کرتی ، ہفوات بکتی اور منہ سے جھاگ اڑاتی ہر طرف ہڑبونگ مچادیتی ہیں۔ انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ اتنے عرصے بعد ، تھیلے سے باہر نکلنے کا کوئی موقعہ ہاتھ آیا ہے کیوں نہ جی بھر کر اچھل کو د کر لی جائے ۔
جہاں تک بات ہے مولانا اسعد محمود مدنی اور ان کے ٹیم ممبران کے پینٹ شرٹ زیب تن کرنے کی تو صورت واقعہ یہ ہے کہ یہ مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں واقع ایک ٹریننگ سنٹر تھا جس میں تقریباً 60 سے زائد علماء شریک تھے ۔ جمیعت علماء ہند نے ایک سال قبل جمعیت یو تھ کلب قائم کیا تھا جس کا ڈریس کوڈ پینٹ شرٹ اور ٹائی ہے ۔ اس کے تحت نوجوان طلبہ کو ڈیفنس کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ اس کلب کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اپنی صلاحیتوں کو ملک ، سوسائٹی اور معاشرہ کیلئے قابل استعمال بنایا جائے ۔
( واضح رہے کہ اس تصویر میں جس کو ٹائی کہا جا رہا ہے جمیعت کے ذمہ داران اسے ایک علامتی رومال بتارہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسکاؤٹ کی اصطلاح میں اس رومال کو اسکارف ” Scarf ” اور اسے روکنے کے لئے جو پلاسٹک لگائی جاتی ہے اسے ووبیل Wobble کہا جاتا ہے۔)
اب اس واقعے میں کون سی ایسی بات ہے جس کو بنیاد بنا کر علماء پر تنقید کی جائے یا پینٹ شرٹ زیب تن کرنے کے طعنے دیے جائیں ۔ اصولی بات ہے کہ یہ ایک قسم کی ڈیفنس ٹریننگ تھی جس کے لیے ایک ڈریس کوڈ منتخب کیا گیا تھا ،یہ ڈریس کوڈ کسی بھی طرح کا ہو سکتا تھا ۔ آج کل سماجی خدمت کا رواج عام ہے، مختلف ملکوں میں رضاکارانہ طور پر سماجی خدمات کے لیے جماعتیں اور ادرے قائم کیے جاتے ہیں ، اس سے مقصود عوام کی خدمت کے ساتھ سوسائٹی میں اپنا تشخص قائم کرنا بھی ہوتا ہے ، ان اداروں او ر جماعتوں کے جو رضا کار یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں ان کے لیے ایک خاص یونیفارم یا ڈریس کوڈ منتخب کیا جاتا ہے تاکہ پتا چل سکے یہ فلاں رفاہی ادرے کے رضاکار ہیں وغیرہ ۔ جمعیت یوتھ کلب نے بھی اپنے لیے ایک ڈریس کوڈ کا انتخاب کیا ، اب اس ڈریس کوڈ کے قلابے آپ آسمان سے ملائین یا زمین سے یہ تو آپ کی ذہنی حالت پر منحصر ہے ۔
رہی بات اس کو واقعے کو بنیاد بنا کر پینٹ شرٹ کے جواز کی اس بارے میں اصل اصول وہی ہے جو اسلام نے بتا یا ہے، لباس کے ساتر اور معقول ہونے کے ساتھ اپنے سماج کے عرف کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے، ڈریس پینٹ شرٹ اگرچہ ساتر لباس ہے اور عام مسلمانوں کے لیے اس کے جواز کی گنجائش بھی موجود ہے مگر ایک دین کا طالب علم یا مذہبی راہنما اسے پہنے گا تو بہر حال سوال تو ہو گا ۔ اس لیے ایسے نوجوان علماء دین اور وکلاء جو اس واقعے کی آڑ میں اپنی ذہنی پراگندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کا رویہ قابل فہم ہے اور ان حضرات کا بات کو غلط تناظر دے کر اپنے ضمیر کے تھیلوں میں بند بلیوں کو باہر نکال دینا بھی سمجھ میں آتا ہے ۔
اور آخری بات کہ مولانا اسعد محمود مدنی نے اگر بالفرض کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ ہمارے لیے حجت کہاں سے ہو گیا ، جب دین کی راہنمائی موجود ہے تو کسی فرد کے غلط عمل کو بنیاد بنا کر کوئی حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ یہی اصولی بات ہے ۔
جن احباب کی بلیاں تھیلے سے باہر آئی ہیں مجھے یقین ہے ایک دو دن مزید اچھل کود کے بعد یہ لوگ دوبارہ ان کو قید کر لیں گے اور پھر آئندہ کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد دوبارہ ان کی بلیاں باہر آ جائیں گی۔ ایک بات لازمی یاد ریکھئے گا کہ سیکولر بلیوں کے نسبت مذہبی اور جدیدیت پسند لوگوں کی بلیاں واقعی بڑی خطرناک ہیں ۔
(مضمون نگار پاکستان کے نوجوان صحافی اور کالم نگار ہیں)






