زین شمسی
بادی النظر میں یقیناً مسلمان خوفزدہ ہیں۔
مگر حد نظر میں دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے
ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں عالمی طاقتوں نے ضرور انہیں اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک کی باضابطہ نگرانی ہو رہی ہے اور کئی ممالک میں غیر ملکی فوج کے بوٹوں کی بے ہنگم چیخیں معصوم و بے بس مسلمانوں کو اعصابی شکست سے دوچار کر رہی ہیں۔ ہندوستان میں لنچنگ کا خوفناک کھیل اور کشمیر کی پراسرار یرغمالی نے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو خاٸف کر رکھا ہے۔ حتی کہ مسلمانوں کے اکابرین، قائدین ، رہنما اور دانشوران بھی ایسے حالات سے خود کو نکالنے کے بجائے دشمنوں کی چوکھٹ پر قطار بند ہیں اور مظلوموں کی مرثیہ خوانی کے بجائے ظالموں کے قصیدہ خواں ہوتے جا رہے ہیں۔
لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ دنیا کی تمام غیر اسلامی اور غیر اللہ قومیں مسلمانوں سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ جب آپ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہود و نصاری کو آج بھی خالد بن ولید کی تلوار خوفزدہ کرتی ہے۔ انہیں آج بھی عمر و علی کا انصاف لرزہ براندام کرتا ہے۔ دنیا آج بھی محمدﷺ کے فلسفہ زندگی سے نہ صرف متاثر ہو رہی ہے بلکہ انہیں اس بات کا ڈر ستا رہا ہے کہ اگر ان کے پیروکاروں کو امن و شانتی کے ساتھ رہنے دیا جائے تو دنیا میں انصاف کا دبدبہ قائم ہو جائے گا۔
غور کیجئے
پاکستان کو چھوڑ دیں تو تمام مسلم ممالک بغیر ایٹم بم کے ہیں
30سے زائد مسلم ممالک بغیر ماڈرن انڈسٹری کے ہیں۔
تمام مسلم ممالک میں جدید تعلیم سائنس و ٹکنالوجی کا فقدان ہے۔
بیشتر مسلم ممالک بنیادی سہولتوں کے لئے ترقی یافتہ یا پھر ترقی پذیر ممالک پر منحصر ہے۔
گویا وہ اپنے پیروں پر بھی کھڑے نہیں ہو سکے ہیں تب بھی دنیا انہیں ترچھی نظر سے دیکھتی ہے۔
عراق پر بمباری کے باوجود عراقیوں سے ڈرتی ہے۔
اسرائیل کو تمام تر جدید اسلحوں سے لیس کرنےکے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے سے ڈرتی ہے۔
ایران پر سالہا سال کی پابندیوں کے باوجود ایرانیوں کے ہنر و تعلیم سے لرزتی ہے۔
نیویارک لندن پیرس ماسکو پیچنگ کی شاندار عمارتوں اور سڑکوں کا موازنہ کرتے ہوئے دبئی کی طرف دیکھتی ہے تو خواہ مخواہ ہی جلتی ہے۔
کویا یوروپ امریکہ کا خلیج سے کوئی موازنہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو طاقت تعلیم صحت روزگار سیکورٹی اور سہولت کے تمام وسائل و ذرائع سے لیس غیر مسلم ممالک کے مقابلے مسلم دنیا بالکل بونی اور کمزور ہے۔ وہ ٹھیک طرح سے ایک دن کی لڑاٸی کے قابل نہیں ہے۔
تو پھر مسلم دنیا سے ترقی یافتہ دنیا کا اتنا بغض کیوں؟ اتنی نفرت کیوں؟
کچھ تو ہوگا مسلمانوں کے پاس جس کے خوف سے نکلنے کے لئے مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں۔ کچھ تو نظر آیا ہوگا یہود و نصاری بدھ و ہنود کو مسلمانوں میں کہ ان کی کمر توڑنے کی ہر ممکنہ کوشش جا ری ہے۔ کیا چیز ہے جو وہ لوگ دیکھ رہے ہیں مگر مسلمان نہیں دیکھ پارہے ہیں۔
کہیں وہ اذان تو نہیں جو روزانہ پانچ وقت فلاح و ترقی کی طرف بلا تی ہے۔ جسے سن کر اصنام اوندھے منہہ گرتے تھے مگر اب مسلمانوں کے کان ہی بہرے ہو گئے ہوں۔ دوسری قومیں اذان کا مطلب سمجھتی ہیں اس لئے وہ مسلمانوں سے ڈرتی ہیں کہ کہیں مسلمان بھی اذان کا مطلب نہ سمجھنے لگ جائے ۔
کہیں وہ روزہ تو نہیں کہ بھوکے رہ کر بھوکوں کے بھوک کا احساس کرنا اور صبر و برداشت کے سہارے تکلیف دہ حالات سے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے گزر جانا۔ کیا یہ پریکٹس غیر قوموں کو ڈراتی نہ ہوگی۔
کہیں یہ زکوة تو نہیں کہ جس کے منظم ہوتے ہی غریبی کا خاتمہ یقینی ہے۔ کیا غیر قومیں اس سسٹم سے خوفزدہ نہیں۔
مسلم دشمن طاقتوں کو بس ایک ہی خوف ستا رہا کہ کہیں مسلمان اسلام کو سمجھنے نہ لگیں۔
اسی لئے ان کی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ مسلمانوں کو کئی خانوں میں بانٹ دیا جائے اور اس کے لئے مسلمانوں کے ہی اکابرین و علما کا سہارا لیا جاٸے۔ کسی کو نواز دیا جائے کسی کو انعام دیا جائے کسی کو عہدہ دیا جائے ۔
مسلم مخالف طاقتوں نے بڑی آسانی کے ساتھ مسلمانوں کو ہی مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کو پٹتے دیکھ کر دوسرا خوش ہو رہا ۔ بغیر یہ سمجھے کہ بس ان کی باری آنے والی ہے۔۔
یہ سارے مظالم جبر و تشدد صرف اس لئے کئے جا رہے ہیں کہ مسلمان اتنے الجھ جائیں کہ انہیں اسلام یاد ہی نہ آئے ۔






