’’ مرکز المعارف ممبئی ‘‘ اپنی خدمات کے آئینے میں

 عبدالمنان قاسمی

استاد مدرسہ فیض العلوم نیرل

مدارسِ اسلامیہ کے تعلیم یافتگان اور فضلا کے تئیں عوام وخواص میں یہ کسک _-اِس اعتراف کے ساتھ کہ دینی علوم وفنون میں مہارت کے ہوتے ہوئے بھی زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں، وقت اور حالات کے ساتھ مطابقت نہیں ہے-_ موجود تھی؛کیوں کہ فضلائے مدارس نے اُن چیزوں کو پس پشت ڈال رکھا تھا، جن چیزوں کی روشنی میں آج کا ماڈرن اور مادہ پرست زمانہ ترقی کی راہیں طے کررہا تھا اور ان ہی چیزوں کو معیارِ ترقی گردانا جاتا رہا ہے۔ اور ان کا یہ نظریہ درست تھا یا نہیں؟ قطع نظر اس سے یہ بات مسلّم ہے کہ زمانہ سے ہم آہنگی کی کمی کا احساس علمائے کرام اور اکابرین عظام کو بھی تھا؛ اسی لیے مختلف مواقع پر مدارس اسلامیہ کے نصابِ تعلیم میں انگریزی اور کمپیوٹر کو شامل کیا جاتا رہا ہے اور آج تو اس کا رواج عام ہوگیا ہے۔

لیکن آج سے پچیس سال پہلے کے حالات اور علمائے کرام کے نظریے کا اگر تجزیہ کیا جائے، تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اس وقت فضلائے مدارس کا انگریزی اور کمپیوٹر کی طرف رجحان تو دور کی بات، خود بہت سے اساتذہ کے ذریعہ بھی اس کی قباحت بیان کرکرکے دلو ں میں اتنی نفرت بھردی جاتی تھی کہ پھر خواب وخیال میں وہ چیزیں نہیں آتی تھیں۔ ایسے وقت اور حالات میں کچھ قوم کے بہی خواہ وخیرخواہ اربابِ علم ودانش اور اصحابِ فکر وفن نے فضلائے مدارس کو زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ لیا اور میدانِ عمل میں کود پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی یہ کوشش تحریکی شکل اختیار کرتی چلی گئی اور ملک بھر میں ایک نئی بیداری پیدا کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے چلے گئے۔ ملک وملت کے ہمدرد حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی مدظلہ کی قیادت وسرپرستی میں ’’1994ء میں مرکز المعارف‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم کو مطمح نظر رکھا گیا۔

1994ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ آج دنیا بھر میں شناخت قائم کرچکا ہے۔ مرکز المعارف کے فضلا دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی زبان دانی کا لوہا منواچکے ہیںاور ہمہ جہت خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ مرکز المعارف کے اس نئے کورس کی شروعات نے مدارس اسلامیہ پر انگریزی سے نابلد ہونے کے الزام کو بھی دور کر دیا۔ آج درسِ نظامی پڑھ رہے ہزاروں طلبۂ مدارس کا یہ خواب ہے کہ وہ فراغت کے بعد اس ادارے سے وابستہ ہوں۔

سالِ رواں اس کے قیام کے ۲۵؍سال کا دورانیہ پورا ہورہا ہے، اور اس طویل عرصے میں جو خدمات اور کارنامے انجام پائے، ان تمام پر اجتماعی بحث وتمحیص اور نوعیت سے واقفیت کے لیے، نیز اس کام مزید بہتر سے بہتر انداز پر انجام دیے جانے کے لیے ’’سلورجبلی‘‘ پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ انتہائی مناسب، موزوں اور مفید ہے۔

اس ادارے کے بانیان کی دل وجان سے خلوص وللہیت کے ساتھ میدان عمل میں لگے رہنا، اساتذۂ عظام کی بے لوث محنت اور طلبۂ کرام کا بے انتہا شوق ورغبت، انتھک لگن کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مرکز المعارف محتاج تعارف نہیں اور نہ ہی اس کی خدمات کو سراہنے کے لیے کسی بے جا زبانی جمع خرچ کی ضرورت؛ کیوںکہ ادارہ اور اس کی خدمات؛ آج چڑھتے سورج کی مانند عیاں اور اس کی روشنی سے ہرسو اجالا ہے۔ اور ارباب بصیرت جانتے ہیں کہ چڑھتے سورج کا تعارف کرانا، گلاب کی خوش بو اور مشک کی امتیازی شان پر گفتگو کرنا، اس کی قدر وقیمت کو گھٹانا ہے۔ یہ کام تو کوئی نادان ہی کرسکتا ہے۔

لیکن ہاں! اس کا ذکر وتذکرہ اس معنی کر کہ اس میں مزید عمدگی اور بہتری کی شکلیں آشکارا ہوسکیں، اس کے دائرۂ کار میں و سعت کے بارے غور وخوـض کیا جاسکے، اس کے حدود اربعہ کی تعیین کے ساتھ اس میدان میں خوب اپنی شناخت کو غیر معمولی بنانے کی سعی وفکر کی جاسکے، اور اس سے بڑھ کر اربابِ حل وعقد کا اجتماع ویسے بھی محمود اور امت کے مفید اور باعث خیر وبرکت ہی ہے، تو پھر کیوں نہ یہ کہا جائے کہ مرکز المعارف کے ارباب بسط وکشاد کا یہ فیصلہ نہایت ہی اہم اور قابل تحسین ولائق تبریک ہے۔

راقم السطور کی دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی مرکز المعارف کو خوب خوب ترقیات سے ہمکنار فرمائے، اس کی خدمات کے دائرۂ کار کو مزید وسیع کرنے اور اس کے لیے اسباب ووسائل کی فراہمی کی راہ ہموار فرمائے، وہاں کے فعال ومتحرک اور ملک وملت کے بہی خواہ ذمہ داران اور اساتذۂ عظام کو بہت بہت مبارک باد اور سب کو اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

abdulmannan8755@gmail.com