محمد طلحہ برنی
دہلی یونیورسٹی
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ اپنی زبان سے ایسی بات نکالتا جس میں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے تو اگرچہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے درجات کو بلند کردیتا ہے (یعنی بھلے ہی وہ اس بات کی قدر و قیمت نہیں جانتا اور اس کو وہ بات نہایت سہل اور معمولی لگتی ہے مگر خدا کے یہاں وہ بلند پایہ ہوتی ہے) اسی طرح کبھی بندہ اپنی زبان سے ایسی بات نکالتا ہے جو اللہ کی خفگی اور ناراضگی کا سبب ہوتی ہے وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتا لیکن (نتیجہ کے اعتبار سے وہ اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ ) وہ بندہ اس کے سبب دوزخ میں گر جاتا ہے دوسری روایت کے مطابق وہ جہنم میں اتنی دور سے گرتا ہے جو مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ سے بھی زیادہ ہے (متفق علیہ).
“اصل مذہب انسانیت ہے ” ، “انسانیت مذہب سے اوپر ہے”، “مذہب سے اوپر اٹھ کر سوچو”، ” سارے مذاہب ایک ہیں بس طریقے اور ٹریڈیشن الگ ہیں”، “سب نام خدا کے ہی ہیں بس عبادت کے انداز مختلف ہیں”، “تمام ادیان کی منزل ایک ہے بس راستے الگ الگ ہیں”، “سب کی تعلیمات ایک جیسی ہیں”، “ہر مذہب میں کچھ اچھا ہے کچھ برا ہے”، “مذہب صرف ایک پرسنل معاملہ ہے اس کا خارجی امور سے یا دوسروں سے کوئی تعلق نہیں”، ” تم بھی صحیح ہو ہم بھی صحیح ہیں”. صبح کے مسلم کو شام ہوتے ہوتے کافر، مشرک یا فاسق بنادینے والے ایسے بہت سے کلمات اور جملے کچھ مسلمانوں خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے بڑے فخر اور فکری توسع کے اظہار کے طور استعمال کئے جارہے ہیں. شعوری اور غیر شعوری طور پر متدین حضرات میں بھی ایسے جملے وکلمات اور ان کے پیچھے چل رہے نظریات فروغ پارہے ہیں.
آج کل کے کچھ مسلم لیڈران اور قائدین غیر اقوام کے ساتھ ہم آہنگی و انسجام ، موافقت و مناسبت ظاہر کرنے کرنے کےلیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال بڑے بڑے جلسوں اور اپنے و پراۓ پلیٹ فارم پر کر رہے ہیں. اس کے عامة المسلمین کے افکار پر مہلک اثرات مرتب ہورہے ہیں. جن کی عملی زندگی سے اسلام پہلے سے ہی ناپید ہے ان کے دل میں باقی ایمان کی ہلکی رمق اور کفر و ایمان کے درمیان باریک سے ڈور بھی ٹوٹ جارہی ہے. اب وہ غیروں میں شادی بیاہ کو کوئی عیب نہیں سمجھ رہے غیر مسلمین کے شرکیہ اور کفریہ اعمال اور مذہبی رسومات میں نا صرف شرکت کر رہے ہیں بلکہ ان کے تعاون میں مسابقہ کررہے ہیں .
جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر الحاد و دہریت یا لبرلزم کو پھیلانے والے ان جملوں اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے والے خطرناک نظریات پر قدغن لگانا اور لوگوں کو ایمان اچک لینے والے ان شیطانی جملوں سے باز رہنے کو کہنا ضروری ہے. اس بارے میں عوام کو متنبہ کرنا علماء کا فرض منصبی ہے.
غیر اقوام سے اتحاد اور ہم آہنگی کے نام پر اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب، سب سے زیادہ قیمتی، اپنے وجود و بقاء کی ضامن، اپنی شخصیت کی پہچان، اپنے فخر، اوراپنی دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی کنجی یعنی ایمان کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا. اور جو اس ون سائڈڈ یا non existent جمہوریت کے تحفظ کے لئے ایسا کرنے کی کوشش کرے اس کو عقل مند نہیں کہا جاسکتا وہ ان کی سرشت سے واقف نہیں جن کے لئے وہ ایسا کر رہا ہے
کسی کےمسلمان ہونے کے لئے جہاں یہ اعتقاد کامل رکھنا ضروری ہے کہ اسلام سچا اور آخری مذہب ہے دنیوی اور اخروی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے وہیں دیگر مذاہب سے براءت کا اظہار کرتے ہوۓ بلا کسی ادنی تردد و تذبذب کے یہ یقین محکم رکھنا بھی ضروری ہے اسلام کے علاوہ تمام ادیان باطل ہیں ، منسوخ ہیں اور دنیاوی اور اخروی خسران کا باعث ہیں.
اہل دانش جانتے ہیں یہ جملے یوں ہی نہیں چل پڑے ہیں یوں ہی ان کی تعلیم و ترویج نہیں ہورہی ہے بلکہ ان کے پیچھے بڑا مقصد اور بڑا مشن ہے. جب اسلام کے مقابلے سارے مذاہب چاروں خانے چت ہوچکے ہیں، ان میں کوئ کشش نہیں رہی ہے، ان میں اب کوئ حیویت ہی نہیں ہے ، ان کے نظریات کا بطلان بدیہی ہوگیا ہے، ان کی تحریف و ترمیم اورجھوٹ و ملمع سازیاں عیاں ہوچکی ہیں تو ان پر فریب جملوں کے ذریعہ اسلام کا اثر کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے. اسلام کے بڑھتے دائرے کو روکنے کے لئے کبھی تمام مذاہب اور ان کی تعلیمات میں یکسانیت ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ مذہب اسلام کے امتیاز اور انفرادیت پر لوگوں کی توجہ نا جاسکے. کبھی مذہب کو ثانوی درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی مذہب کو غیر ضرور قرار دینے کی سعی کی جاتی ہے
آج اسلام کا مقابلہ کسی مذہب سے نہیں ہے کہ دور جدید نے ان تمام مذاہب میں اتنی سکت ہی نہیں چھوڑی ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے اپنا سر اٹھا سکیں. اسلام کے مقابلے میں اس وقت الحاد و دہریت یا لبرلزم کا فتنہ ہے. اب ہمیں اس فتنے کا مقابلہ کرنا اس سے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو باذن اللہ محفوظ رکھنےکی تگ دو کرنا ہے
متعفن کھانا کتنی بھی منقش پلیٹ میں سجاکر پروسا جائے اس کو کھایا نہیں جاتا سیکولرزم کے نام پر یا لبرلزم کی شکل میں پیش کئے جارہے کفر و شرک کے متعفن کھانے کو کوئ مسلمان نہیں چکھے گا. نام نہاد دیش بھکتی کے اظہار کے لئے یا غیروں سے اظہار محبت و مودت کے لئے یا کسی بھی قومی و ملکی مصالح کے لئے کسی باطل نظریہ کو قبول کرنا یا اپنے دیں میں پس و پیش جائز نہیں ہوسکتا
ہمارا مذہب ہمارا وجود ہے ہماری پہچان ہے ہماری کامیابی ہے اس کے بغیر ہمارا کوئ تشخص نہیں نا کوئ زندگی ہے اور کامیابی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
یہ دو ٹوک بات ہے، واضح موقف ہے اس میں کسی طرح کا تردد ایمان کے لئے مہلک ہے، جہنم میں پہنچانے والا ہے.
یہ نا ریڈیکلزم ہے نا تعصب ہاں یہ تصلب ہے. اور یہ میرا فنڈا مینٹل رائٹ ہے کہ میں جس بات کو حق سمجھتا ہوں اس پر عمل کروں اس پر جم جاؤں اس کی دعوت دوں. اگر کسی کو یہ بات ناگوار لگے تو لگے پر میں کسی کے لئے یا کسی وجہ سے ایسی چیز کا سودا نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے خدا نے میرے لئے حیات جاودانی مقدر کی ہے.
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے






