ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
پچھلے ایک دو ماہ سے این پی آر،این سی آ ر اور ووٹر ویری فکیشن کے نام رپر جس طرح سے افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہےکہ فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں اور اسکے چیلے چپاٹے اس مہم میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں مسلمانوں کو جتنا ڈراوگے ہندوؤں کا ووٹ اتنا ہی مستحکم ہوگا۔ کیوں کہ ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے کا یہ سب سے کارگر طریقہ ہے جس پر بی جےپی کی زیادہ توجہ ہے۔یہی وجہ ہےکہ وزراء سے لے پارٹی کے ہر سطح کے لیڈران اپنے اس فارمولے پر سختی سے عمل پیراں ہیں۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود یہ لیڈران وقتا فوقتا کوئی نہ کوئی ایسا سوشہ چھوڑدیتے ہیں جس سے ان کا ووٹ بینک بیٹھے بیٹھائے اچانک بڑھ جاتا ہے۔پچھلے لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج پر غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہےکہ اچھے اچھے لیڈران جن کی شخصیت اور کام دونوں جگ ظاہر ہونے کے باوجود لوگوں نے انہیں نظر انداز کردیا اور چور اچکے ، انتہا پسند، جن پر دہشت گردی اور بم دھماکوں کے الزمات لگے ہیں وہ سب کے سب اونچھے فرق کے ساتھ پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔غیرسنجیدہ ہندو طبقہ بالخصوص ناخواندہ نوجوان دیوانہ واد فرقہ پرست پارٹی کی طرف دوڑتے نظرآئے۔ چونکہ ان کے ذہن و دماغ میں آر ایس ایس نے ایسی ایسی گندگی بھر دی ہے کہ وہ بی جے پی کے لیڈروں کے ہر اعلان و بیان کو ملک کا آئین اور قانون سمجھنے لگے ہیں۔یہی وجہ ہےکہ ایسے لوگ بڑاسے بڑا جرم کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اور سرعام وہ باتیں کررہےہیں جوسماج کو بانٹنے اور نفرت پیدا کرنے والی ہیں۔
مثال کے طور پر گزشتہ روز وجے دشمی کے موقع پر اترپردیش کےضلع میرٹھ میں’اکھل بھارت ہندو مہاسبھا ‘کے اراکین نے کہا کہ اگر ہندو۲۰۰؍ روپے کماتا ہےتو۵۰؍روپے کا ہتھیار خریدے،ان کا موقف ہےکہ بغیراسلحہ کے امن وامان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ آچاریہ چانکیہ نے بھی کہا تھا کہ اسلحہ کے بغیرامن وامان ممکن نہیں ہے۔ اس قسم کی فکر تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ سوال یہ ہےکہ ان حالات کے لیے ذمہ دار کون ہیں؟۔
ادھر مسلمانوں میں ناخواندگی اور تعلیم سے دوری اور سماجی بیداری کے فقدان کا فائدہ اٹھاکر ہر’ایرے غیرے نتھو خیرے‘ اپنی سیاسی روٹی سینک لیتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتےہیں کہ فلاں حضرت نے صرف بیان داغ کر اپنا الو سیدھا کرلیا۔اب ان کی کوئی ذمہ داری نہیں، انہوں نے اپیل جاری کردی یہی بڑی بات ہے۔سیدھے سادھے لوگ انکے بیان کو حرف آخر سمجھ وہاٹس ایپ پر فارورڈ کرتے رہتےہیں۔جبکہ قرآن و حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا گیاہےکہ بغیر تحقیق کے ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردیں۔حدیث پاک میں ہے کہ’آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے بیان کر دے‘۔
غلط معلومات آج کل کا ایک اہم مسئلہ ہے،چونکہ غلط معلومات ہر طرح کی قید و بندھ سے آزاد ہوتی ہیں، اس لیے ایسی باتیں ہمارے جذبات سے کھیلتی ہیں اور حقیقی خبروں کیبہ نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ یہ قوم مسلم کا المیہ ہےکہ مسائل سے عدم واقفیت کے وجودکسی جانکار سے سمجھنے کی کوشش نہیںکرتے بس اپنے کا ن کو دیکھے بغیرکوئےکے تعاقب میں سرپٹ دوڑنے لگتے ہیں ۔
آج کل ووٹر ویری فکیشن کا مسئلہ بھی اسی میں سے ایک ہے۔ جسے’’ایک ہوّا‘‘ بنادیاگیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کا یہ فرمان ملک بھر کے باشندوں کے لئے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لئے۔مگر ہم دیکھ رہےہیں کہ پریشان صرف مسلمان ووٹر ہیں۔ وہ اپنے کاغذات کو لے کر ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کررہےہیں۔ حالانکہ کام آن لائن اور آف لائن دونوں طریقے سے ہو رہاہے‘ جن کے پاس موبائل پر نیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ آف لائن یعنی اپنے علاقے کےبی ایل او یا دیگر اہلکار جن کے ذمہ الیکشن کمیشن نے یہ کام سونپاہے ان سے تصدیق کر اسکتےہیں۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہےکہ جن لوگوں کے ووٹر آئی ڈی میں غلطیاں ہیں وہ پورےسال ان کی تصحیح کراسکتے ہیں۔ اس کےلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،فی الحال ۱۵؍اکتوبر۲۰۱۹ء تک ووٹر آئی ڈی کی تصدیق کرالیں۔دستاویزات کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہےجب اپنے آئی ڈی میں موجود کسی غلطی کی تصحیح کریں گے۔اس کے لئے آدھار کارڈ ہی نہیں کسی بھی سرکاری دستاویز سے یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آدھار،پین کارڈ،پاسپورٹ، بینک پاس بک،ڈارائیونگ لائسنس، روم اگری مینٹ، بجلی بل، پانی بل، اسکول و کالج کی سرٹیفکیٹ ،ڈاکٹ سے آیا خط،زمین کی رسید وغیرہ۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کا کہناہےکہ ایک ووٹر کا نام کئی مقامات پر ہے اس لئے اسے آدھارنمبر سے جوڑنا ضرور ہے مگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے اس مطالبے کو ۲۰۱۵ء میں ہی مسترد کر چکا ہے۔
قابل غور ہےکہ ووٹر ویری فکیشن کا این آر سی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔وہ آسام کا ایک الگ مسئلہ ہے جس کی سماعت سپریم کورٹ میں بھی جاری ہے۔کسی بھی شہری کو ملک بدر کرنا آسان نہیں ہے۔ خود حکومت کےلئے یہ بڑا چیلنج ہےکہ جن لوگوں کو این آر سی سے باہر بتایا گیاہے ان کی تعداد ۱۹؍لاکھ سے متجاوز ہیں،اتنی آبادی کئی چھوٹے ملکوں کی نہیں ہے۔ اب وہ ہندو مسلم کارڈ کھلیں گے اور اپنی سیاست چمکائیں گے مگر اتنے لوگوں کو کہاں بھیجیں گے،؟یہ بڑا سوال ہے؟ وزیر داخلہ امت شاہ نےکلکتہ میں جو بیان دیاہے وہ بھی وہاں ہونے والے اسمبلی انتخابات کےلئے ووٹروں کو اپنے حق میں کرنےکی ایک چال ہے،اس لئے انہوں نے کہاکہ جو ہندو ہے اسے کوئی بھگائے گا نہیں اور جوان کی نگاہ میں درانداز ہیں اسے چھوڑیں گے نہیں۔ یہ سب انتخاب جیتنےکی حکمت عملی ہے۔
چند روز قبل جب بنگلہ دیش کی وزیراعلیٰ شیخ حسینہ ہندوستا ن کے دورے پر تھیں تو کسی نے یہ بات مضبوطی سے نہیں اٹھائی کہ آسام میں موجود مبینہ بنگلہ دیشی کو لے کر جائیں۔ تاہم شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ این آر سی کا بنگلہ دیش پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور مودی کی اس یقین دہانی سے وہ مطمئن ہیں۔ مگر اس پر جیل میں بند کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبر نے ٹوئٹ کیا تھاکہ اگر بنگلہ دیش کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ این آر سی کے عمل سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو حکومت بتائے کہ ۱۹؍ لاکھ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، انہوں نے کہا کہ یہ سنگین مسئلہ ہے اور حکومت کو واضح کرنا چاہئے کہ شہریت کے سلسلے میں ثبوت پیش نہیں کرپانے کی وجہ سے این آر سی سے باہر ہوئے ۱۹؍لاکھ لوگ کب تک غیر یقینی کی حالت میں رہیں گے اور ان کے شہری حقوق سے انہیں کب تک محروم رکھا جائے گا۔ابھی وقت ہے ملی تنظیموں اور سماجی کارکنوں بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ووٹر ویری فکیشن کی مہم میں لوگوں کی مدد کرنی چاہئے، محلے محلے میں کیمپ لگاکر پریشان حال لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے صرف وہاٹس ایپ اور سوشل سائٹوں پر میسیج فارورڈ کرنے سے کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا،عملی کوشش کرنی چاہئے۔مسلمانوں کو پریشان حال دیکھ کر برادران ہنود خوش ہوتےہیں جوآرایس ایس اور بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔
mssaqibqasmi@yahoo.co.in
(مضمون نگا رروزنامہ انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)






