خرم ملک
کچھ مہینے پہلے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام دہشت گرد وہاں کی دو مسجدوں میں اندھا دھند فائرنگ کر کے کم سے کم ۵۰ افراد کا قتل کر دیا تھا، لیکن کئی اخبارات نے اس سنکی شخص کو دہشت گرد نہیں کہا، اسے سنکی، شوٹر،گن مین کے الگ الگ نام دیے گئے، لیکن کیا تب بھی تصویر ایسی ہی ہوتی جب اس عیسائی کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا، شاید نہیں،آخر پوری دنیا میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ کر کیوں دیکھا جاتا ہے؟
اب ایک دوسری تصویر کی طرف رخ کیجئے تو دو دن قبل ہمارے ملک ہندوستان میں کچھ منوادی نظریات کے لوگوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ الفاظوں کا استعمال کرتے ہوئے ٹویٹر پر ٹرینڈ کروانے لگے، لیکن تب بھی مسلمانوں نے ہندو مذہب کے دیوی، دیوتاؤں کے لیے ایک لفظ بھی غلط استعمال نہیں کیا، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے اپنی بات بڑے ہی مہذب انداز میں رکھ دی، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے ذہنی مریضوں کے ذہن میں ایسی ہی بات کیوں آتی ہے کے اُنہیں اسلام اور اس کے پیغمبر کے لیے دل میں نفرت اور بغض کے جذبات اُبھر آتے ہیں؟
کیا سچ میں اسلام اس طرح کے جرم کی اجازت دیتا ہے؟ آج میں اسی پر بات کروں گا، اسلام ابتدا سے ہی محبت، امن و آشتی، رحم، بھائی چارے کا پیغام دیتا آیا ہے، کیوں کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق تب تک کوئی انسان مومن نہیں ہو سکتا جب اس کے ہاتھ اور زبان سے اس کا پڑوسی محفوظ نا ہو، تو اگر کوئی مسلمان کسی انسان کو گالی دیتا ہے، مارتا ہے، پریشان کرتا ہی تو اس میں اسلامی تعلیمات غلط نہیں ہیں بلکہ وہ انسان قصور وار ہے۔
آج جو ماحول پوری دنیا میں اسلام کے خلاف بنایا جا رہا ہے وہ تصویر کا ایک رخ ہے جس پر نا تو پرنٹ میڈیا اور نا ہی الیکٹرانک میڈیا روشنی ڈالتی ہے، دنیا کے کسی خطّے میں اگر دھماکا ہوتا ہے تو یہی میڈیا بغیر جانچ پڑتال کئے ہی اسے اسلام سے جوڑ دیتی ہے اور اپنا فیصلہ سنا دیتی اور بریکنگ نیوز کے طور پر وہ کچھ اس طرح سے پیش کرتی ہے کے دیکھیے یہ ہے وہ چہرہ جسے اُوپر سے تو اسلامی لباس میں لپیٹا گیا ہے لیکن اندر سے یہ اس قدر مکروہ ہے کے دیکھتے ہی انسان کی موت واقع ہو جائے، جب کے معاملہ اس کے اُلٹ ہے، اسلام دنیا میں انسانوں کے بھلائی کے لیے ہی آیا، اس دنیا میں نا صرف انسان بلکہ جانور بھی رہتے ہیں اور اسلام تو جانوروں سے بھی محبت کا پیغام دیتا ہے، اسے آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کے ایک مشہور واقعہ ہے کے ایک عورت جو طوائف تھی اور دن رات برے کام کیا کرتی تھی، ایک مرتبہ وہ کہیں جا رہی تھی اور راستے میں اسے ایک کتا دکھائی دیا جو پیاس سے تڑپ رہا تھا، کتے کی یہ حالت دیکھ کر اسے رحم آیا اور اس نے پانی کی تلاش کی، پاس ہی کنواں تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پانی نکالے کیسے، تب اس نے اپنی جرابیں نکالیں اور اپنی اوڑھنی کو ڈول بنا کر پانی نکالا اور کتے کو پلایا اور اُس عورت کی یہی ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کے اللہ نے اس کے سبھی گناہوں کو بخش دیا جب کے اسے کے دن رات غلط کاموں میں گزارتے تھے، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مذہبِ اسلام میں صلہ رحمی کی ایک خاص جگہ ہے۔
قرآن میں صاف لکھا ہے کے جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے ساری انسانیت کو بچایا۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا اور اسی لیے آپ کو اللہ نے رحمت للعالمین کہا، مطلب دونوں جہانوں کے لیے رحمت کی ذات ہیں آپ، آپ نے ہمیشہ امن و آشتی، محبت کا پیغام دیا، یہی وجہ تھی کہ جب پوری دنیا میں کفر کا بول بالا تھا، جہالت اپنے عروج پرتھی،انسان اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے، حقوق نسواں پامال ہو رہے تھے، تب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں بھیجا کہ آپ جائیں اور لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں، لوگوں میں یہ پیغام دیں کے اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، اسلام آپس میں محبت سے رہنے کی تلقین کرتا ہے، باہمی مدد کی تعلیم دیتا ہے، اور اسلام سختی سے قتل و غارتگری، لوٹ پاٹ، آپسی رنجش سے منع کرتا ہے۔
اصل میں اسلام مخالف لوگوں کی ایک سوچ ایسی بن گئی ہے کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا ہے، پیغمبرِ اسلام کی صلہ رحمی کا اندازہ آپ اس ایک بہت مشہور واقعے سے لگا سکتے ہیں کے عرب میں ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تب کوڑا پھینکا کرتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، چوں کہ راستے میں اس بوڑھی عورت کا گھر پڑتا تھا تو آپ اسی راستے سے گزرتے تھے اور وہ بوڑھی عورت آپ پر چھت سے ہر روز کوڑا پھینک دیا کرتی تھی، یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا، ایک روز جب آپ نماز کے لیے جا رہے تھے تو آپ پر کوڑا نہیں پھینکا گیا، تو آپ کو حیرت ہوئی کے آخر کیا بات ہے، آج مجھ پر کوڑا کیوں نہیں پھینکا گیا، پھر آپ کو اس عورت کی فکر ہونے لگی کے کہیں وہ بیمار تو نہیں ہے، یا کوئی اور بات تو نہیں ہی، یہ سوچ کر آپ اس عورت کے گھر تشریف لے گئے، اور اس عورت سے پوچھا کے امّا آپ ٹھیک تو ہیں نا، کیا بات ہے آج آپ نے کوڑا نہیں پھینکا مجھ پر، اتنا سننا تھا کے وہ بوڑھی عورت زار و قطار رونے لگی اور بولی کہ میں نے سنا تھا کے محمد نام کا ایک شخص ہے جو جادو کرتا ہے، آج میں نے دیکھ لیا، یہ کوئی جادو نہیں ہے، یہ تو سراسر رحم دل انسان ہے، جس پر میں نے اتنے ظلم کیے اور بجائے اس کے کہ یہ مجھ سے غصہ ہوتا ، بدلہ لیتا، یہ تو میری خیریت پوچھنے چلا آیا، اور اس نے اس بات کا اقرار کیا کے ہاں تم ہی محمّد صلی اللہ علیہ وسلم ہو، تم ہی سچے ہو، امین ہو، صدیق ہو، میں تم پر ایمان لاتی ہوں اور اُس بوڑھی عورت نے اسلام قبول کر لیا، اور مشرّف بہ اسلام ہو گئی۔
میرے عزیزو! اس سے یہی بات نکل کر سامنے آتی ہے کے اسلام نے ابتداء سے ہی رحم اور محبت کا پیغام دیا ہی، اسلام نے پوری انسانیت کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے، کیوں کے ایک حدیثِ نبوی ہے کہ ” تم میں سب سے بہتر وہ انسان ہے جس کا اخلاق تم میں سب سے بہتر ہو “
اسلام نے تو وضوء کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے سے منع کیا ہے، تو پھر اسلام خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟
بات اگر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی کریں تو پوری کائنات میں وہ ایک ایسی ہستی ہیں جن کے بارے میں دنیا کے کچھ عظیم شخصیتوں نے اپنے نظریات رکھے ہیں، اُن میں سب سے پہلے ہندوستان کے بابائے قوم کہے جانے والے مہاتما گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” مجھے پہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہو گیا ہے کے میں نے جیسا اسلام کے بارے میں سمجھا یا سوچا تھا یہ اصل میں ویسا بالکل نہیں تھا، یہ اصل میں پوری طرح سادگی ، وعدوں کے بارے میں متبرک احترام ، اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ اس کی شدید عقیدت اور اس کا احترام ، خدا پر اور اس کے اپنے مشن میں اس کا مکمل اعتماد تھا،۔ یہ ہی وہ اثاثہ تھا جس نے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا دیا نہ کہ تلوار کے دم پر یہ پھیلا اور ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔
وہ آگے کہتے ہیں کے:
“میں آج کی لاکھوں انسانوں کے دلوں پر غیر متنازعہ اثر اٹھانے والی شخصیت کی زندگی کو جاننا چاہتا تھا … مجھے پہلے سے کہیں زیادہ یقین ہو گیا کہ وہ تلوار نہیں تھی جس نے اُن دنوں دنیا میں اسلام کو ایک الگ مقام دیا تھا۔ زندگی کا نیا فلسفہ دیا تھا، یہ ایک سخت سادگی تھی ، پیغمبر کی خودمختاری ، وعدوں کے بارے میں سخت احترام ، اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ان کی شدید عقیدت ، بے خوف وبیعت ، خدا پر اور اس کی اپنی یادوں پر مکمل اعتماد تھا جس نے اسلام کو پھیلنے میں مدد کی، اس کے ساتھ ہی روس کے مشہور مصنف لیو ٹالسٹائی نے بھی پیغمبرِ اسلام پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” پیغمبر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عیسائی مذہب سے اونچے رہے، وہ اللہ کو ایک انسان نہیں مانتے ہیں اور کبھی بھی خود کو اللہ کے برابر نہیں بناتے ہیں، مسلمان ایک اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے آخری نبی ہیں، اس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ان عظیم غیر مسلم شخصیتوں کے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر کیے گئے خیالات کا اظہار کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کے آپ دونوں جہان کے لیے رحمت للعالمین تھے، ان کی پیدائش ہی دنیا میں امن و سلامتی، اور بھائی چارے کو قائم کرنے کے لیے ہوئی تھی، وہ کیسے رحمت للعالمین تھے اسے ایک واقعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا شروع کیا تو کفارِ مکہ نے صحابہ کرام پر ظلم کرنا شروع کر دیا، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کو صبر کرنے کی تلقین کی، لیکن کفارِ مکہ نے اس صبر کو غلط طریقے سے لیا اور ظلم کی انتہاء کر دی تب اللہ نے اپنے رسولِ پاک کو اُن کفارِ مکہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا اور آپ نے سبھی صحابہ کرام کو اکٹھا کیا اور جنگ کا فرمان جاری کیا، اور تب ایک جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کی فتح ہوئی اور مشرکین کی شکستِ فاش ہوئی اور اس جنگ میں کفارِ مکہ کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، جنگ ختم ہونے کے بعد مالِ غنیمت رسولِ خدا کے سامنے پیش کیا گیا،جس میں عورتیں، بچے، بوڑھے لوگ تھے، سبھی لوگ تھر تھر کانپ رہے تھے کے پتہ نہیں اب کیا ہوگا؟ اب تو ہمیں موت ملے گی، اب محمّد ہم سے بدلہ لیں گے، لیکن تب ایک معجزہ ہوا اور پھر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انوکھا فیصلہ سنایا، آپ نے کہا کہ کسی کو سزا نہیں دی جائے گی، بچے، بوڑھے، عورتیں سب آزاد ہیں، سب کو معافی دی جاتی ہے، یہ سن کر مشرکینِ مکہ حیرت میں پڑ گئے، اور رو رو کر کہنے لگے کے یہ سچ میں محمّد ہے،جو رحم دل ہے، انصاف پسند ہے، صادق اور امین ہے، اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ سامنے دشمن ہے اور طاقت ہوتے ہوئے بھی بدلہ نہیں لیا بلکہ سبھی کو معاف کر دیا، یہ واقعہ تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتا، اس واقعے کو تاریخ کے صفحات میں قلمبند کیا گیا اور رہتی دنیا کو یہ سبق دیا کے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ احسان، پیار و محبت ، شفقت کی علامت ہے، وہ یتیموں کے والی اور غریبوں کے ملجا ہیں، نا کہ نفرت، ظلم، خوف و ہراس کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کے اگر موجودہ دور میں کوئی بھی انسان جو اسلام سے نفرت کرتا ہے یا جس کے دل میں پیغمبرِ اسلام کے لیے بغض ہے اُسے چاہیے کے وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو پڑے، مجھے پوری اُمید ہے کے اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اُن کا نظریہ تبدیل ہو جائے گا، اور وہ بھی لوگوں سے پیار محبت سے ملنے لگے گا۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین پیغمرِ اسلام: حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم! امن و آشتی،...






