جامعہ ملیہ اسلامیہ: سیکولرزم اور اسلامی تہذیب کا حسین امتزاج

مرشد کمال

ملک کی تمام جامعات میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو کئی معنوں میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اور یہی انفرادیت جامعہ کو ملک کے دیگر تعلیمی اداروں سے ممتاز بھی بناتی ہے۔ جامعہ کی ایک سب سے اہم انفرادیت تو یہ ہے کہ جامعہ کا قیام ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح منصوبہ بند طریقے سے کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے مہم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے قیام کے سیاسی اور اصولی محرکات تھے جو علی گڑھ کالج کے سیاسی اور نظریاتی موقف سے اختلاف کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ غالباً ملک کی پہلی یونیورسٹی ہے جو تعلیمی تحریک نہیں بلکہ سیاسی اختلافات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ اور جو چیز جامعہ کو دیگر اداروں سی ممتاز بناتی ہے وہ اس کا یہ پیغام ہے کہ اختلاف رائے اور روایت شکنی سے نئی مثبت راہیں نکالی جاسکتی ہیں اور اس کے خوشگوار نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔

آج سے تقریباََ ایک صدی قبل جب علی گڑھ کی جامع مسجد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی علامتی سنگ بنیاد رکھی جارہی تھی تو شاید یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ آگے چل کر اپنے محسنوں کی تخیلات کا یہ ا دارہ قوم کی اُمیدوں اور اُمنگوں کا محور بن جائے گا۔ جامعہ کے قیام کی تحریک جتنی دلچسپ ہے اُتنی ہی حیرت انگیز بھی۔ دو یکسر مختلف الخیال اور متضاد نظریات کی حامل فکر گاندھی جی کی ایما ء پر جامعہ کے قیام کے لیے متحد ہوگئی تھیں۔ ایک طرف سامراج مخالف اسلامی قوتیں تھیں جو خلافت تحریک کی قیادت کررہی تھیں تو دوسری جانب مغربی تعلیم یافتہ سیکولر دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو تحریک عدم تعاون کی نمائندگی کرتا تھا۔ ایک نے مسجداور مدرسوں کی چٹائیوں پر ذانوئے تلمذ تہہ کیا تھا تو دوسرے نے مغرب کے جدیدآعلیٰ تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل کی تھی۔ اسلامی فکر اور سیکولر نظریات کا اتناحسین امتزاج تاریخ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔

سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین جو جامعہ کے بانیان میں سے تھے، جامعہ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ” جامعہ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ” یہ ہندستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس کا مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے ”۔ آج بھی جامعہ اپنے بانیا ن کے اُنھیں نظریات پر قائم ہے۔ اگر کسی کو ترقی پسندی اور سیکولرزم میں اسلامی فکر کی آمیزش دیکھنی ہو تو وہ جامعہ جاکر دیکھے۔ جامعہ کا قیام جن حالات میں ہوا وہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ایک صدی پر محیط جامعہ کی تاریخ ایثار و قربانی، بلند حوصلوں، اخلاص اور نیک نیتی کی ایک طویل داستان ہے۔

جن مقدس ہستیوں نے جامعہ کی تاسیس میں اہم کردار ادا کیا اُن میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین اور عبدالمجید خواجہ کا نام سرفہرست ہے، جنھوں نے تحریک ِ عدم تعاون کے کال پر لبیک کہتے ہوئے علی گڑھ سے اپنا ناتہ توڑ لیا اور ایک نئے آشیانے کی تلاش میں نکل پڑے۔ چنانچہ 1920 میں اکتوبر کی 29 تاریخ کو علی گڑھ کی جامع مسجد میں مولانا محمود حسنؒ کے ہاتھوں جامعہ کی علامتی سنگِ بنیاد رکھی گئی۔ اور تقریباََ پانچ سالوں تک کرائے کی کوٹھیوں اورعارضی خیموں میں انتہائی تنگ دستی اور بے سروسامانی میں اپنے شروعاتی دور کے چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے چند مالی اور انتظامی اسباب کی بنا پر 1925میں دہلی منتقل کردی گئی۔

اپنے قیام کے روز اول سے ہی جامعہ کو کئی محاذ پر مخالفتوں کا سامنا رہا۔ ایک تو عدم تعاون کے نتیجے میں قائم کسی ادارے کا وجود برطانوی سامراج کو گوارہ نہ تھا تو دوسری طر ف مسلمانوں کا ایک بڑا دقیانوسی طبقہ اسے علی گڑھ کی مخالفت میں قائم کیا گیا ایک ادارہ تصور کرتا تھا، اور پھر 1924 میں خلافت کے خاتمے نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ جو تھوڑی بہت مالی امداد جامعہ کو خلافت سے فراہم ہوتی تھی اُس کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ لیکن ابھی قدرت کو اور بھی امتحاں مقصود تھا۔ ابھی جامعہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد میں لگی تھی کہ 1927 میں امیرِ جامعہ مسیح المُلک حکیم اجمل خاں کا انتقال ہوگیا۔ حکیم صاحب کی وفات جامعہ کے لیے اتنا بڑا سانحہ تھا جس سے اُبھر پانا انتہائی مشکل تھا۔ اب تک جامعہ کے مصارف کا ایک بڑا حصہ حکیم صاحب کے ذاتی جیب سے آتا تھا اور جب جب جامعہ مالی دُشواریوں سے دوچار ہوتی حکیم صاحب ایک بیل آوٹ پیکج کے ساتھ سامنے آجاتے۔

اب جامعہ پر اب تک کا سب سے سخت ترین وقت آن پڑا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بس اب جامعہ کی سانسیں اُکھڑنے والی ہے۔ جامعہ سے منسلک نسبتاََ کم حوصلہ افرا د جا معہ کو بند کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے تحریک خلافت اور عدم تعاون تحریک کے خاتمے پر جامعہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ اُن کے خیال میں اب جامعہ کے قیام کا کوئی جواز باقی نہ رہ گیا تھا۔

اب ذمہ داری ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب صاحب کے کاندھوں پر آپڑی تھی۔ انھیں ارباب ثلاثہ کو جدید جامعہ کا معمار بھی کہا جا سکتا ہے۔ اِن کی تحریروں اور تقریروں نے جامعہ میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا اور جامعہ کے جسمِ بے جان میں زندگی کی نئی علامتیں ظاہر ہونے لگی تھیں۔ چنانچہ جامعہ کو ایک نئی زندگی عطا کرنے کی غرض سے انجمن تعلیم ملی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا اور اُ س سے وابستہ افراد نے یہ عہد لیا کہ وہ کم ازکم بیس سالوں تک جامعہ نہیں چھوڑیں گے اور 150 روپئے ماہانہ سے زیادہ تنخواہ نہیں لینگے۔ خود ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے 100 روپیے ماہانہ پر اپنی زندگی کی بیش قیمت دو دہائیاں صرف کیں۔

ٓآج یومِ تاسیس کے اس خاص موقع پر جامعہ کے اُن اساتذہ، انتظامی عملے کے کارکنان اور بہی خواہان کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے جنھوں نے تنگدستی اور بے سروسامانی کے عالم میں تا عمر جامعہ کی خدمت کی اور ناذک ترین حالات میں بھی جامعہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بوسیدہ شیروانی اور پیوند لگی ٹوپیوں میں ملبوس، ہر لمحے نئی نسل کے مستقبل کی فکر کرنے والی یہ سعید روحیں اب ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ جن کے بارے میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے تھے کہ ” جامعہ میں اگر کوئی تعریف کا مستحق ہے تو وہ میں بالکل نہیں ہوں، میرے وہ ساتھی ہیں جو اپنا نام کسی کو نہیں بتاتے اور دن رات اس ادارے کی خدمت میں اپنی جانیں کھپاتے ہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ ان جیسے کارکُن مشکل سے کسی ادارے کو نصیب ہوں گے۔ یہ قوم کے بچوں کے لیے اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور خود ان کے بچے اچھی غذا اور اچھے لباس کے لیے ترستے ہیں ۔۔۔ انھیں مہینوں ان کے حقیر معاوضے نہیں ملتے اور پھر کہیں سے روپیہ آجاتا ہے تو یہ پہلے جامعہ کے لیے زمین خریدواتے ہیں اور اپنے مطالبات کو مؤخر کردیتے ہیں”۔

تاریخ کے پُرآشوب اور صبر آزما دور سے گزرتی ہوئی جامعہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہی۔ اپنے معماران اور بہی خواہان کے استقلال، حکمت اور نیک نیتی کے دم پر جامعہ کا شمار ایک عظیم قومی دانش گاہ کے طور پر ہونے لگا تھا۔ چنانچہ آزادی کے بعد حکومت ہند نے اسے ‘ قومی اہمیت کا حامل ادارہ ‘تسلیم کرلیا اور 1962 میں اسے ‘ڈیمڈ یونیورسٹی’ کا درجہ حاصل ہوگیا۔ 1988 میں پارلیامنٹ میں جامعہ بل پیش کیا گیا جس کی رو سے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ لیکن جامعہ کی تاریخ میں سب سے اہم اور خوش آئند موڑ اُس وقت آیا جب ۲۲ فروری ۲۰۱۱؁ کے NCMEI کے ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں جامعہ کا اقلیتی کردار جو جامعہ ایکٹ کی زد میں آکر معطل ہوگیا تھا، بحال کردیا گیا اوراس طرح جامعہ کو ملک کی پہلی مرکزی اقلیتی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔

ا س میں کوئی شک نہیں کہ جامعہ کی ترقی تیز رفتا ر رہی ہے۔ آج جامعہ میں تعلیم کے تمام اہم شعبے موجود ہیں۔ بعض شعبے اپنی کارکردگی کی وجہ سے پورے ملک میں سرفہرست ہیں۔ کیمپس میں درس و تدریس کا ما حول بھی غیر تشفی بخش نہیں کہا جاسکتا گو کہ بہتری کی بہت گُنجائش موجود ہے۔لیکن سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جامعہ اسکول اور جامعہ کے زیر انتظام چل رہے اسکولوں میں وہ معیار آج تک قائم نہیں ہوسکا کہ اس کا موازنہ دہلی کے کسی معیاری اسکول سے کیاجا سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچے آگے چل کر ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہو پاتے اور مجبوراََ اُنھیں جامعہ کے بی اے پاس اور ڈپلومہ کورسز میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ سے ہماری خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ دوسرا مسئلہ طلباءو طالبات میں ہندی زبان کے بڑھتے اثرات اور اُردو اور انگریزی زبان پر کمزور پڑتی اُنکی گرفت ہے۔ آج جامعہ کے طلباءکی اکثریت اُردو اور انگریزی زبان سے نابلد ہے۔ ہندی زبان کو تدریس کا اہم ذریعہ بنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے طلباء تمام تر علمی لیاقتوں اور اپنے شعبوں میں امتیاز حاصل کرنے کے باوجود عملی زندگی میں اپنے اُن حریفوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی دسترس حاصل ہوتی ہے۔ جامعہ کا ایک اہم مسئلہ ایک طویل عرصے سے طلباء یونین کی معطلی بھی ہے۔ یہ طلباء کا جمہوری حق ہے۔ اسے کسی بھی حالت میں دبایا نہیں جاسکتا۔ ذاکر صاحب کے زمانے میں طلباء یونین کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور طلباءکی ذہنی نشونما اور جمہوری تربیت طلباء یونین کے زیر سایہ ہو ا کرتی تھی۔ جامعہ کی طلباء یونین کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے انتقال کے بعد علامہ اقبال پر پہلا خصوصی مجلہ شائع کرنے کا شرف حاصل ہے۔

ٓآج جامعہ پر فرقہ پرست اور متعصب عناصر کی میلی نظر ہے۔ جامعہ کی اقلیتی حیثیت اُنھیں قابل قبول نہیں۔ اُن کی یہ دلیل آ ئین کی بنیادی روح سے متصادم ہے کہ پارلیامنٹ کے ایکٹ کے تحت قائم مرکزی یونیورسٹی جس کی مالی معاونت حکومت ہند کرتی ہے وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ جب کہ آئین میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور اُن کا انتظام چلانے کی نہ صرف آزادی ہے بلکہ آئین ہی کی رُو سے حکومت کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے کہ وہ اقلیتی تعلیمی اداروں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کو حکومت کی جانب سے گرانٹ کوئی امداد نہیں بلکہ یہ اُن کا حق ہے جسے ملک کے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کیا جاتا ہے اور ملک کی اقلیتوں کا بھی ملک کے وسائل پر اُتنا ہی حق ہے جتنا ملک کے اکثریتی طبقے کا۔ جامعہ اور علی گڑھ ہندستانی مسلمانوں کی شہہ رگ ہیں اور مسلمانوں کے عزم و استقلال سے تعمیر اور خونِ جگر سے سینچی گئی ان دانش گاہوں کے تحفظ کے لیے قوم کو ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

(مضمون نگار انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی کی مشرق وسطیٰ شاخ کے کنوینر اور جامعہ طلباء یونین کے سابق نائب صدر ہیں)