مولانا نبیل اختر نوازی، گیا، بہار
ملک کی دو ریاستوں ( مہاراشٹر – ہریانہ ) اور ضمنی الیکشن کے نتائج نے چھوٹی اور بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو مستقبل میں بہتری کی امید جگا دی ہے، مہاراشٹر میں کانگریس نے پورے من سے الیکشن نہیں لڑا، ان کے بڑے لیڈروں نے الیکشن مہم سے اپنے آپ کو دور رکھا، اس مہم میں سونیا اور راہل کے نہ کے برابر حصہ کے باجود عوام نے اپوزیشن کا کردار نبھاتے ہوئے بی جے پی اتحاد کو امید افزا نتائج سے دور رکھا, یہی صورت حال ہریانہ کا ہوا وہاں سابق وزیر اعلی ہڈا (Hudda) کو بہت تاخیر سے الیکشن مہم کا کمان سونپا گیا اور 31 سیٹوں پر کام یابی ملی اگرچہ حکومت سازی سے کانگریس دور رہی مگر مضبوط حزب اختلاف کا کردار نبھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
یہ باتیں ہم نے ضمنا کہی ہیں تاکہ آپ کو پورے الیکشن مہم کی معلومات حاصل ہو جائے تاکہ آنے والے پیرایوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اب بات کرتے ہیں بہار ضمنی الیکشن کے نتائج اور اس کے ممکنہ اثرات کی:
اس ضمنی الیکشن کے نتیجوں نے بر سر اقتدار جماعت کے ماتھے پر بل لا دیا ہے پانچ سیٹوں کے مقابلہ میں بمشکل ایک سیٹ ” ناتھ نگر ” میں کامیابی ملی وہیں حزب اختلاف راشٹریہ جنتا دل (RJD) کو دو سیٹوں پر کامیابی ملی جس سے 2020 میں ہونےواالے بہار اسمبلی الیکشن میں بہتر امید کی کرن نظر آرہی ہے, مگراس ضمنی الیکشن میں ” ایم آئی ایم ” نے کشن گنج کی سیٹ جیت کر سیکولر پارٹیوں کو خصوصاً راشٹریہ جنتا دل کو بہت بڑا جھٹکا دیا ہے جو مسلم ووٹوں پر اجارہ داری اپنا حق سمجھتی ہے اور یہ حقیت بھی ہے کہ مسلم یادو سمیکرن میں یادوؤں نے پچھلے دو اسمبلی اور تین پارلیمانی الیکشن میں راشٹریہ جنتادل کا ساتھ چھوڑ دیا مگر مسلمان مضبوطی سے اس پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، جس کا اعتراف میڈیا سے لے کر ہر پارٹی کے لیڈر کرتے رہے ہیں۔
اب مجلس اتحاد المسلمین کی دستک نے بہار میں پارٹی سپریمو لالوپرشاد یادو اور ان کے کنبے کو فکر مندی میں ڈال دیا ہے۔
بہار میں ستر ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمان میں اکثریت میں ہیں یا ہار اور جیت میں بہت ہی مضبوط کردار نبھاتے ہیں اگر ان ستر سیٹوں میں ” مجلس اتحاد المسلمین ” ابھی سے محنت کرتی ہے اور ان پر اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان راشِٹریہ جنتا دل کو اٹھانا پڑ سکتا ہے اور ایسی صورت میں اس عمر میں لالو پرشاد یادو کی سب سے بڑی خواہش کہ ان کے چھوٹے بیٹے تیجسوی یادو بہار کا اگلا وزیر اعلی بنیں، یہ خواہش ادھوری رہ جائے گی،
اب اگر لالو پرشاد یادو اپنا ووٹ بینک بچانا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے تین صورتیں ہیں۔
پہلی صورت:
مجلس اتحاد المسلمین کو مہاگٹھ بندھن میں جگہ دیں اور کم ازکم بیس یا پچیس سیٹیں ان کو دیں تاکہ پورے بہار میں توازن برقرار رہے۔
دوسری صورت:
اپنی پارٹی میں از سر نو ابھی سے مسلم لیڈر شپ کو ابھاریں اور پورے بہار میں تنظیمی دھانچہ میں انہیں جگہ دیں۔
تیسری صورت:
اپنی پارٹی کے منشور میں مسلم نائب وزیر اعلی کا اعلان کریں اور وزرات داخلہ کا کمان بھی انہیں سونپیں!
ایسی صورت میں بہار کے مسلمانوں کا ووٹ راشٹریہ جنتادل سے وابستہ رہ سکتا ہے۔
جب ہم بہار کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تویہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہاں کے مسلمان بلا شرط پچھلے تیس سالوں سے لالو پرشاد یادو کو اپنی حمایت کرتے آرہے ہیں، لالوپرشاد یادو کو کئی بار ایسا موقع ملا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کی قدر کرتے مگر وہ ہر بار موقع پرستی کا ثبوت دیتے رہے جس کی وجہ سے اندرون خانہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں کچھ ناراضگی بھی رہی۔
پہلا سنہری موقع تب تھا جب لالو یادو جیل جا رہے تھے اور وزرات اعلی کی کرسی کسی مسلمان کو نہ دے کر اپنی بیوی رابڑی دیوی کو دے دیا جس کی اہل وہ بالکل نہیں تھیں۔
دوسرا موقع لالو یادو اس وقت گنوا دیے جب لوک جن شکتی پارٹی کو 2005 کے اسمبلی الیکشن میں 27 سیٹیں ملی تھیں اور اس نئی نویلی پارٹی کے سربراہ رام ولاس پاسوان لالو یادو کو اس شرط کے ساتھ حمایت دے رہے تھے کہ کوئی مسلم وزیر اعلی بنایا جائے مگر لالو پرشاد یادو کو یہ شرط اور مانگ پسند نہیں آئی، جس کے نتیجے میں اسمبلی کو معلق کرنا پڑا اور صوبہ کو ریاستی گورنر کے زیر اقتدار رہنا پڑا، جس کا خمیازہ لالو پرشاد ابھی تک بھگت رہے ہیں کہ جب دوبارہ الیکشن ہوا تو نتائج نے سب کو چونکا دیا، بازی پلٹ چکی تھی، اور نتیش کمار بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلی بننے میں کامیاب ہوگئے۔
تیسرا موقع لالو یادو نے اس وقت گنوادیا جب اپنے سیاسی کیرئیر کے سب سے بڑے حریف نتیش کمار کے ساتھ مل کر بی جے پی کےخلاف 2015 کا اسمبلی الیکشن مل کر لڑے اور سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے، حکومت سازی میں بڑا کردار نبھانے والے سیکولرازم کے سب سے بڑے کھلاڑی لالو پرشاد یادو اس بار بھی بہت بڑی غلطی کر بیٹھے اور نتیش کابینہ میں نمبر دو پر کسی مسلم لیڈر کو براجمان کرنا تھا انہوں نے اپنے ناتجربہ کار بیٹوں کو اہمیت دی جس سے مسلمانوں میں کوئی اچھا پیغام نہیں گیا، انہی نادان بیٹوں کی وجہ سے نتیش کمار نے راشٹریہ جنتادل سے علاحدگی اختیار کرنے ہی میں عافیت محسوس کی اور وہ ایک بار پھر فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے، اور اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔
اب آنے والے الیکشن میں سب سے زیادہ چیلنجز راشٹریہ جنتادل کو ہے کہ جس کمیونیٹی کی حمایت سے وہ پچھلے تیس سالوں سے سیاست کرتے آرہے ہیں اب وہ کمیونیٹی بیدار ہو رہی ہے اور اس کی نئ نسل سیاست میں حصہ داری چاہتی ہے اگر اب بھی لالو یادو کا کنبہ اپنے پرانے طرز پر ہی سیاست کرنا چاہتا ہے تو ان کے لیے آنے والا کل بہت مشکل بھرا ثابت ہو سکتا ہے اور اگر اپنی پالیسی میں تبدیل لاکر مسلم آبادی کے تناسب کے حساب سے حکومت میں حصہ داری دیتی ہے تو یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا اور بہار کے مسلمانوں میں ایک مثبت پیغام بھی جائےگا۔






