مفتی محمد ساجد کھجناوری
استاذجامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
بعض شخصیتیں اپنے علم وکمالات اور فنی اختصاص کے سبب محبوبیت واحترام کا ایسا روپ دھارلیتی ہیں کہ ان کے نام اور کام کی خوشبو دیر او ردورتک مشامِ جاں کو معطر کئے رہتی ہے ، ایسے حضرات سے لوجہ اللہ عقیدت وعظمت کا رشتہ نبھایاجاتا ہے، درحقیقت یہ وہ قیمتی افراد ہواکرتے ہیں کہ سعادت وفیروزمندی شروع ہی سے ان کا نصیبہ قرار پاتی ہے،ان کا خمیر چاہے جس خطہ کا مرہون ہو لیکن وہ جہاں اپنا نشیمن بنائیں نیک نہادی وسرفرازی ہی ان کا سب سے بڑا تعار ف ہو،شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد اصغر علی صدرمدرس وناظم تعلیمات مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ ایسی ہی خوبیوں سے آراستہ ایک فردِ فرید تھے جو طویل علالت کے بعد گیارہ نومبر ٢٠١٩ء / تیرہ ربیع الاول ١٤٤١ھ بروز دوشنبہ شب کے تقریباً ایک بجے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
نماز جنازہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب نے پڑھائی جس میں عوام وخواص کی ایک بڑی جمعیت نے شرکت کرکے دین کے اس بے لوث خادم کو آخری آرام گاہ تک پہنچایا آپ کے اخلاف میں آٹھ بیٹیوں سمیت تین صاحبزادے ہیں جو سب کے سب ماشاء اللہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ حضرت مولانا کی مغفرت فرماکر انہیں اپنا جوار بخشے ۔
حضرت مولانا قاری محمد اصغر علی صاحب کو ہم لوگ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے زمانہ سے شکلاً بس اتنا جانتے تھے کہ یہ ہاپوڑ کے کسی بڑے مدرسہ کے سینئر استاذ ہیں دارالعلوم میں سبعہ عشرہ اور عربی کے طلبہ کا امتحان لینے کیلئے سالہا سال سے آتے ہیں، فنی قاری ہیں اور قرآن کریم کے بڑے عاشق اور تلاوت کے دیوانے ، میرا تعلیمی سلسلہ چونکہ دسیوں سال تک دارالعلوم سے جڑارہا او رتجوید وقرأت کی عملی مشق بھی دو سال متواتر رہی اس لئے حضرت مولانا اورقاری محمد غریب نواز رحمہم اللہ جیسے ممتحن قراء کو کیوں نہ یاد رکھ پاتا کہ طلبہ کی زبانوں پر ان حضرات کے چرچے رہتے تھے ۔
خیر بندہ کی تدریسی وابستگی جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ سے ہوئی اور اس کے بانی واولین مدیر حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب گنگوہی کی حیات وخدمات پر بتوفیق الٰہی کچھ قلمی کام کرنے کا داعیہ پیدا ہوا تو فضلاء اشرف العلوم کے ساتھ اس کے فیض یافتگان کا سرسری جائزہ نیز ان کی خدمات کا اجمالی تعارف نگاہوں سے گزرنے لگا ، حسنِ اتفاق کہ اُسی زمانہ میں جبکہ بعض مشاہیر اہل علم وقلم سے مضامین کی فراہمی کا سلسلہ جاری تھا تو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اورجامعہ فاروقیہ کراچی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب قدس سرہ کا ایک مضمون میرے ای میل ایڈرس پر از راہِ جواب موجود تھا جس میں انہوں نے تحریر فرمایاکہ ”احقر مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں مدرس تھا تو قاری صاحب اپنے تین شاگردوں کو مفتاح العلوم لائے ، مولوی محمدحنیف شارح کتب درسیہ، مولوی محمد اصغر ، مولوی محمد شاہ،یہ طلبہ حفظ وقرأت سے فارغ ہوچکے تھے ، مفتاح العلوم جلال آباد میں دوسال رہ کر احقر کے پاس پڑھتے رہے پھر احقر پاکستان آگیا اور یہ دارارلعلوم دیوبند چلے گئے اس حوالہ سے مولانا قاری شریف احمد صاحب کے ساتھ باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا” ( نقوش دوام ص:١٣٠)۔
حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی اس تحریر کے بعد بندہ نے تفصیلات جاننے کیلئے ناظم جامعہ حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب گنگوہی سے استفسار کیا تو آپ نے بتایاکہ شارح درسِ نظامی مولانا محمد حنیف گنگوہی کی طرح مولانا قاری اصغر صاحب بھی حضرت والد ماجد نوراللہ مرقدہ کے بالکل ابتدائی شاگردوں میں سے ہیں ، انہو ں نے ابتدائی تعلیم اور حفظ وغیرہ یہیں حضرت قاری صاحب کی خدمت میں رہ کر کیا ، جبکہ مزید تعلیم کیلئے والد صاحب نے اپنے محسن دوست اور رفیق حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے پاس بھیجا تھا ، جامعہ میں حضرت مولانا قاری محمد اصغر صاحب کا ذکر خیر سن سن کر ان کے تئیں محبت میں اور اضافہ ہوگیا ، دریں اثنا خاکسار کی ترتیب دادہ کتاب ”نقوش دوام” چھپ کر آئی اور ماہنامہ صدائے حق کے صفحات پر اس کا تعارف ہوا تو کسی روز قاری محمد اصغر صاحب کا فون آیاکہ میں محمد اصغر ہاپوڑ سے بات کررہا ہوں ، آپ مفتی محمدساجد کھجناوری ہیں؟ بندہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے درخواست گزاردی کہ آپ بھی اپنی مادرعلمی کے بارے میں کچھ قیمتی یادیں لکھ کر ارسال فرمادیں گے تاکہ دوسری اشاعت میں اسے بھی شامل کرلیا جائے، مولانا نے فرمایاکہ حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب تو میرے مشفق اورمربی استاذ تھے لکھنے کا میرا مزاج اگرچہ نہیں ہے تاہم میں کوشش ضرور کروں گا، مولانا سے فون پر یہ پہلی گفتگو تھی لیکن جس محبت اور عظمت کے ساتھ وہ اپنی مادرعلمی اور اس کے مدیرکا ذکرکر رہے تھے لگتا تھاکہ احسان شناسی ان کا وصفِ خاص ہے، اس کے بعد تو پھر حضرت مولانا ہر دوتین ماہ کے بعد ضرور فون کرتے ، بالخصوص ماہ نامہ صدائے حق کا شمارہ جب بھی انہیں ملتا یاکوئی تحریر بھلی لگتی تو وہ فون کرکے دادِ تحسین دیا کرتے تھے، اکثر وبیشتر اپنے استاذ زادے حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب اوریہاں کے اساتذہ وطلبہ کی خیرخیریت معلوم کرتے ۔
مولانا قاری محمد اصغر علی صاحب نے ١٩٣٣ء میں الحاج حافظ محمدسعید احمد صاحب کے یہاں محلہ بہاؤالدین گنگوہ میں آنکھیں کھولی، ابتدائی تعلیم حفظ وناظرہ پرائمری ، اجراء فارسی ، تجوید تاجماعتِ کافیہ باضابطہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں رہ کر حاصل کی ١٩٥٣ء میں آپ کو جلال آباد بھیج دیاگیا اور وہاں سے پھر آپ دارالعلوم دیوبندمنتقل ہوگئے جہاں کا تعلیمی زمانہ چھ سال پر مشتمل رہا ١٩٥٩ء میں دورۂ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی ١٩٦٠ء میں تکمیل ادب کا کورس کیا او راسی سال سبعہ عشرہ کی تکمیل فرمائی ١٩٦١ء اور ١٩٦٢ء میں ڈبل افتاء کیا ،نیز کتابت سیکھی ، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ہی آپ کا تقرر برائے عربی مدرسہ خادم العلوم ہاپوڑ میں کرلیاگیاجہاں کے مدیر شہیر حضرت مولانا ناظر حسین قاسمی کسی فاضل مدرس اورذی استعداد عالمِ دین کی تلاش میں تھے ، حضرت کے منجھلے صاحبزادے مولانا محمد اسعد قاسمی بتاتے ہیں کہ جس روز والد صاحب پہلی مرتبہ ہاپوڑ تشریف لائے تھے تو وہ جمعہ کا دن تھا ، چنانچہ اسی روز آپ نے مسجد میں پہلی مرتبہ جمعہ پڑھایا ، اُس دن سے آخری زندگی تک حضرت والد صاحب ہی اس مسجد کے امام وخطیب رہے، آپ نے اپنی پوری زندگی مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کے لئے وقف کردی جس کا دورانیہ تقریباً ساٹھ سال بیٹھتا ہے، شروع سے ہی آپ مدرسہ کے ناظم تعلیمات بھی بنادئے گئے تھے، پھر شیخ الحدیث اورصدر مدرسی کیلئے آپ کا ہی انتخاب عمل میں آیا۔
علاہ ازیں دہائیوں سے آپ وہاں کے شہر قاضی بھی تھے، دین ودانش سے مستحکم رشتہ نبھانے کے باوجود آپ ملی مسائل میں بھی اپنی مستقل رائے اورفکر رکھتے تھے، اخبارات اور دوسرے ذرائع سے ان کی سرگرمیاں مشاہدہ میں آتی رہتی ، خوش اخلاقی، معاملہ فہمی اور سنجیدگی وتواضع آپ کے جبلی اوصاف تھے، علم ومطالعہ اور درس وتدریس کا انہماک آپ کی متحرک زندگی کا سب سے روشن عنوان ہے، اپنے اساتذہ کرام اورروحانی شخصیات سے راہ ورسم کو معنوی ترقی کا راز گردانتے تھے، اسی لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق برقرار رکھا، حضرت شیخ کے وصال ہونے پر دوسرے مشائخ سے رجوع فرمایا اورمجاز ہوئے۔
آپ کا سانحۂ وفات یقینا مدرسی حلقوں اور ملی اداروں کیلئے غیر معمولی نقصان ہے ایسے باکمال اورذی استعداد افراد بڑی تیزی سے رخت سفر باندھ رہے ہیں
جو بادہ کش پرانے تھے سب اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
شیخ الحدیث مولانا قاری محمد اصغر علی کا وجود اساتذہ ٔ مدارس اورطالبان دین کیلئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا، آج جبکہ اداروں میں وسائل کی ریل پیل اور طلبہ کی بھرمار ہے، اہل تدریس کی خاموش مطالعاتی زندگی زمانہ کے مد وجزر اور مادی شور شرابے سے متأثر ہورہی ہے تو حضرت قاری صاحب جیسے یکسواہلِ علم کاخلا بڑی شدت سے محسوس ہوگا ، مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب نقشبندی مدظلہم نے آپ کی وفات پر اپنے گہرے صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے بجا فرمایاکہ ”علم ومطالعہ اورکامیاب تدریس کا ایک بافیض انسان ہمارے درمیان سے اٹھ گیا، ان کے کمالات اور فنی محاسن کو سدا یاد رکھا جائے گا ،مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کیلئے تو دوہرے صدمہ کی بات ہے وہاں کے اساتذہ وکارکنان اورطلبہ ٣ اگست ٢٠١٩ء کو اپنے بے مثال منتظم حضرت مولانا ریاض احمد قاسمی نوراللہ مرقدہ کے ظاہری فیض سے محروم ہوئے تھے جن کی وفات کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ حضرت قاری محمد اصغر صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے ، اللہ پاک غریق رحمت فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر وشکیبائی موفق فرمائے آمین”۔