دبئی میں ہندوستانی باشندوں کا احتجاج، او آئی سی کا بیان اور مسلم دنیا کی داخلی سیاست

شاہین نظر 

گزشتہ دنوں دبئی سے ایک غیر معمولی خبر آئی کہ وہاں مقیم ہندوستانی باشندوں نے سیٹزنشپ ترمیمی قانون اور متوقعہ این آر سی کی مخالفت میں ایک مظاہرہ کیا،گو کہ اندنوں مظاہروں کا بازار گرم ہے اور ہندوستان سمیت دنیا بھر میں یہ سلسلہ جاری ہے، اس کے باوجود کسی خلیجی ریاست میں اس کا تصور محال ہے، خاص کر کسی سیاسی مسلے پر، مگر یہ پہلا نہیں بلکہ دوسرا موقعہ ہے جب دبئی میں ایک سیاسی احتجاج ہوا. اس سے پہلے انیس سو بانوے میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک جلوس نکلا تھا جو شہر کے تجارتی مرکز سے ہوتا ہوا ہندوستانی قونصل خانے تک گیا تھا. اس وقت دبئی کے پولیس چیف وہاں پہنچ گئے تھے اور اپنی نگرانی میں ہندوستان کے قونصل جنرل کو مظاہرین کے ہاتھوں سے میمورنڈم پیش کروایا تھا اور پھر مظاہرین سے منتشر ہونے کی اپیل کی تھی، شاید اُس وقت متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اپنے یہاں رہ رہے ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ پائی جانے والی بیچینی کا لحاظ کرتے ہوۓ یہ رعایت دی تھی۔

مگر اس بار معاملہ کچھ اور لگتا ہے. اس بار مسلم دنیا کی داخلی سیاست کو دخل ہے. دبئی کے مظاہرے کے ساتھ ایک خبر جدّہ سے بھی آئی، وہاں او آئی سی یعنی آرگنائزیشن اوف اسلامک کوآپریشن نے ایک بیان جاری کر ہندوستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا. بیان میں کہا گیا کہ او آئی سی ہندوستان کی مسلم اقلیت کے لئے فکرمند ہے اور انہیں متاثر کرنے والی خبروں جیسے شہریت کے حق اور بابری مسجد پر آئے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ او آئی سی کی پچاس سالہ تاریخ اور اس کی عام روش کو دیکھیں تو یہ بیان بھی ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، مسلم ممالک کا یہ عالمی ادارہ ہندوستان میں رونما ہونے والے بڑے سے بڑے واقعے پرعموماً خاموش رہتا ہے، عالمی برادری کی نظر میں اس بے اثرادارے کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے تحت چلتا ہے.

غور کیجئے تو او آئی سی کے بیان اور دبئی میں ہوۓ احتجاج کا ایک خاص پس منظر ہے. جس ہفتے یہ دونوں خبریں آئیں اُسی ہفتے ملیشیا کی راجدھانی کوالا لمپور میں اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایران، تُرکی اور قطر سمیت بیس ملکوں نے شرکت کی. پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی اس اجلاس میں شریک ہونے والے تھے مگر عین وقت پر انہوں نے معذرت کر لی جس کی وجہ سعودی عرب کا دباؤ بتایا جا رہا ہے. انیس سے اکیس دسمبر کے بیچ ہوئی اس سمٹ سے صرف دو دن قبل عمران خان سعودی ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان کی دعوت پر ریاض تشریف لے گئے اور واپسی پر کوالا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، یہی نہیں انہوں نے پاکستانی وفد کو بھیجنے سے بھی انکار کر دیا۔

دراصل اس سمٹ کے بارے میں، جو کہ دو ہزار چودہ سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے، سعودی عرب کا خیال ہے کہ یہ او آئی سی کے متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے جس سے اسلامی ممالک میں اس کا اثر و رسوخ متاثر ہو سکتا ہے. سعودی عرب کو یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے سیاسی مخالف ایران، قطر اور ترکی اسے اسلامی قیادت سے محروم کرنے کی سازش رچ رہے ہیں. سعودی عرب کا شک بے بنیاد نہیں، کوالا لمپور سے جس طرح کے بیانات سامنے آئے اس سے اس کا اشارہ ملتا ہے. او آئی سی کے تمام ہی ممبران جن کی تعداد سنتاون ہے اقوام متحدہ کے بھی رکن ہیں. اس لحاظ سے او آئی سی ایک سو ترانوے رکنی اقوام متحدہ کے تیس فی صد ارکان کا ایک بلاک ہے جسے بے حد با اثر ہونا چاہئے تھا، مگر سیاسی طور پر یہ کسی بھی معاملے میں اعشاریہ تین فی صد اثر بھی نہیں رکھتا. اگر اثر رکھتا ہوتا تو ستّر سالوں سے فلسطین اور کشمیر کا معامله التواء میں نہ پڑا ہوتا، اور نہ ہی بوسنیا، چیچنیا اور چین کے ایغور مسلمان ظلم اور زیادتی کا شکار ہوئے ہوتے۔

ادھر چند برسوں سے مسلمانوں کے بیچ اپنی بے وقعتی کا احساس شدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان جو کہ روایتی طور پر سعودی کیمپ کا حصّہ ہے اور معاشی طور پر اس کی عنایتوں کا محتاج وہاں کی عوام بھی اس احساس میں شامل ہے۔ عمران خان کو اپنی قوم کے اس درد کا اندازہ بخوبی ہوگا. مگر ان کی مشکل یہ ہے کہ گزشتہ مہینوں میں انھیں کشمیر معاملے پر سعودی عرب یا او آئی سی سے زیادہ ترکی اور ملیشیا سے حمایت ملی، بلکہ اس وجہ سے ہندوستان کے ساتھ ان دونوں ملکوں کے رشتے میں کڑواہٹ بھی آئی۔ ایران نے بھی ایسا موقف اپنایا جو عالمی سطح پر ہندوستان کے حق میں نہیں گیا. ٹھیک اُسی وقت متحدہ عرب امارات نے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازہ اور سعودی عرب نے ان کی زبردست میزبانی کی. شاید یہ عمران خان کی اسی مایوسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ترکی اور ملیشیا سے قریب ہوتے گئے اور ستمبر میں جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے نیو یارک گئے تو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمّد کے ساتھ مل کر کوالا لمپور اجلاس کی تیاری میں جٹ گئے، مگر ٹھیک وقت پر ریاض میں ان کی طلبی نے انھیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔

دبئی میں ہوۓ احتجاجی جلوس اور او آئی سی کے ذریعہ جاری بیان کو اس پس منظر میں دیکھا جاۓ تو بات سمجھ میں آتی ہے. ذرا دیر سے سہی باسی کڑہی میں اُبال آیا ہے. اس ہفتے او آئی سی کی طرف سے کیا گیا اعلان بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے. خبر آرہی ہے کہ او آئی سی جلد ہی کشمیر معاملے پر ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرنے جارہا ہے. اس خبر کے مطابق سعودی عرب نے یقین دلایا ہے کہ ترکی، بحرین، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا سمیت اہم اسلامی ممالک اس اجلاس میں شرکت کریں گے جو کہ وزرائے خارجہ کی سطح کا ہوگا. اجلاس میں مسلمانوں کے تحفظ کی بات کی جائے گی اور کشمیر میں میں لگے کرفیو جو کہ اگست کے مہینے سے مسلسل جاری ہے اور شہریت ترمیمی قانون کو زیرِ بحث لایا جائے گا، اس خبر کا پس منظر یہ ہے کہ عمران خان کے ذریعہ کوالا لمپور سمٹ کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان میں سعودی عرب کے خلاف زبردست جذبات پاۓ جارہے ہیں۔ حالات مزید بے قابو نہ ہو جائیں اس لئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اچانک پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ریاض کا جس کے بعد غالباً پاکستانیوں کو مطمئن کرنے کی نیت سے اس نئے اجلاس کا اعلان سامنے آیا ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی اور کیا کیا کرتا ہے پاکستانیوں کا اور عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے.

(مصنف انڈیا ٹو ڈے میڈیا انسٹیٹیوٹ سے بحیثیت استاد وابستہ ہیں، ماضی میں ٹائمز آف انڈیا اور دبئی اور جدہ کے انگریزی اخبارات میں کام کرتے رہے ہیں)