میں ہندو نہیں ہوسکتا

محمد طلحہ برنی 

دہلی یونیورسٹی
اگر ہندو کسی مذہب کا نہیں بلکہ تہذیب کا نام ہے تو بھی ایک مسلم ہندو نہیں ہوسکتا کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل اور جداگانہ تہذیب بھی ہے جو کسی بھی مشرکانہ تہذیب کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔
ہندو اگر دوسرے مذاہب کو ماننے کا اور ان پر یقین رکھنے کا دعوی کریں تو وہ کرسکتے ہیں کہ بقول ان کے ہندوازم کسی ایک خاص نظریہ اور مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ تمام متضاد و متناقض عقائد و نظریات کے حامل بھی ہندو ہوسکتے ہیں لیکن ایک مسلمان صرف مسلمان ہی ہوسکتا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب, ثقافتوں اور نظریات سے برأت کے اعلان کے بغیر قبول ہی نہیں ہے. قرآن کریم کی سورہ کافرون کافروں کی بین المذاہب مصالحت اور انضمام کی کوششوں اور پیش کش کو رد کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔
اسلام کے اسی تصلب کو دیگر اقوام برداشت نہیں کرپاتیں ان کو اسی بات نے ماہی بے آب کی طرح تڑپا رکھا کہ مسلمان ان میں ضم اور ان کا حصہ بننے پر راضی نہیں ہیں اپنی شناخت اپنے نام اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔ سارے اختلافات و تنازعات ساری کشمکش ساری سازشیں سب کا اصل محرک اور باعث یہی ہے۔ گجرات فسادات کے موقعہ پر علماء کے ایک وفد نے آر ایس ایس لیڈران سے ملاقات کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر مسلمانوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ کس لئے مسلمانوں کے تئیں اتنا حقد اور نفرت ہے؟ ان لیڈرز میں سے ایک نے کہا مسلمان بس یہ کہنا چھوڑ دیں کہ وہی حق پر ہیں. یہی ہے دونوں اقوام میں منبع اختلاف اور یہی ہے مسلمانوں کا تشخصی وجود۔
غالبا بیرونی نے ہندوستان کو اکالة الاقوام کہا ہے. یہ یہاں پیدا ہونے والے تمام مذاہب و اقوام کو اپنے اندر ضم و تحلیل کرچکا ہے. جین مت، بدھ ازم، سکھ ازم وغیرہ مذاہب کو نگل کر ان کی تہذیب و ثقافت،ان کے امتیاز و شناخت اور ان کے مذاہب و ٹریڈیشن کو ملیامیٹ کرچکا ہے۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اس اژدھے کا تر نوالہ نہیں بن سکا بلکہ روز اول سے اپنے اصول و بنیادوں پر مضبوطی سے قائم و ثابت ہے کہ یہ مذاہب خور ہندوازم اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا. اسی احساس شکست کی وجہ سے یہ اژدھا نفرت و تعصب کی پھنکاریں مار رہا ہے اور اسلام کو ڈسنے کے لئے ہر ممکن تدابیر اور سازشیں بن رہا ہے۔
بھاگوت کی جانب سے کی گئی ہندو کی تشریح کوئ نئ نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کا یہی نظریہ رہا ہے. آر ایس ایس ہر ہندوستانی کو ہندو سمجھتی ہے لیکن ان کے ہندوستان کا باشندہ وہی ہوگا جو ہندوکش کی پہاڑیوں سے ادھر پیدا ہوئے کسی مذہب کا ماننے والا ہو چوں کہ اسلام اور عیسائیت کا اس علاقے میں وجود نہیں ہوا اس لئے وہ ہندوستانی نہیں ہیں اور جب ہندوستانی نہیں ہیں تو ہندو بھی نہیں ہیں. اسی لئے ان کو ہندو بنانے کے لیے شدھی کرن اور گھر واپسی جیسی تحریکیں اور سی اے اے جیسے قانون لاۓ جارہے ہیں۔
ہندی اور ہندو الفاظ میں اگر آر ایس ایس فرق نہیں سمجھتی تو آخر لفظ ہندو ہی پر زور دینے کی کیا منشا ہے ؟ اگر ہندوستان زندہ باد اور بھارت ماتا کی جے میں کوئ فرق نہیں ہے تو بھارت ماتا کہلوانے ہی پر اصرار کس لئے ؟ یہ کوئ ایسی چیز نہیں ہے جس کو سمجھنے کے لیے بہت ذہانت درکار ہو۔
بھاگوت کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ وہ کسی نظریہ کے پابند نہیں ہیں.ایسا کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس بہت کنفیوزڈ تنظیم ہے وہ اب تک کسی ایک متفق علیہ دستور اور نظریہ تک نہیں پہنچ پائے ہیں کہ جو ہندوستان میں رہنے والی تمام ہندو اقوام کو قبول اور مسلم ہو. اس لئے آر ایس ایس ہندو راشٹر کی تو بات کرتی ہے پر اس کا بلو پرنٹ دکھانے کی ہمت نہیں کرتی۔
حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے پاس ہندوستان کا متفق علیہ تصور ہے ہی نہیں اسی لئے وہ ایسی مغالطہ آمیز اور مبہم بات کرتی ہے. ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ ہندوستان سے باہر وجود میں آئے مذاہب سے نفرت کرنے میں اور ان کو ہندوستان سے اکھیڑ پھینکنے میں بہت واضح نظریہ رکھتی ہے جس سے ایک انچ بھی دست برداری اس کے مقصد وجود کو ہی ختم کردے گی.تو یہ سوچنا کہ آر ایس ایس اپنے نظریات میں تبدیلی لارہی ہے خام خیالی اور احمقانہ خوش فہمی ہے.
بقول بھاگوت مسلمان مسلمان رہتے ہوۓ بھی ہندو ہوسکتا ہے، تو پھر آخر کس وجہ سے مسلمانوں کی گھر واپسی کرا رہے ہو اور کس لئے مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنا چاہتے ہو ؟ کس لئے مسلمانوں کی خون کے پیاسے رہتے ہو ؟ کس لئے ان کی عزت و آبرو لوٹنے اور ان کو ذلیل کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ؟
یہ مغالطہ اور سفسطہ ہے، ہر ایک کو اس کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنی منفرد شناخت کے ساتھ اسی ملک میں جئیں گے ان شاء الله اپنی تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کے لئے قربانیاں دینے سے نہیں ہچکچائیں گے ، جھکیں گے نہیں ان شاء اللہ ۔۔۔ اپنے ایمان و دیں کی بقا کے کی خاطر اپنی جانیں خوشی خوشی پیش کریں گے۔۔ ؂

مرنا ہی مقدر ہے تو پھر لڑ کر مریں گے
خاموشی سے مرجانا مناسب نہیں ہوگا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں