کلیم الحفیظ
برتری کے حصول کے لےے جد وجہد اور جنگ کی ہمیشہ سے ایک تاریخ رہی ہے۔ جب سے دنیا قائم ہے ایک انسان دوسرے انسانوں پر، ایک قوم دوسری قوموں پر، ایک ملک دوسرے ملکوں پربرتری کے حصول میں کوشاں رہا ہے۔ اس کوشش میں انسانوں اور قوموں نے کسی اخلاقی ضابطہ کی پاسداری کم ہی کی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ بالکل نہیں کی تو مبالغہ نہ ہوگا۔ البتہ اس فہرست سے اللہ کے وہ برگزیدہ بندے مستثنیٰ ہیں جنھیں ہم رسول اور نبی کہتے ہیں کیوں کہ ان کا مشن اپنی برتری نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا تھا۔ ان رسولوں اور پیغمبروں یا ان کے سچے جانشینوں کے علاوہ باقی تمام انسانی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ برتری کی اس جنگ میں کسی اخلاقی ضابطہ اور اصول کی پابندی نہیں کی گئی ہے۔ راجاؤں اور بادشاہوں نے تسخیر ملک کے لیے اپنے ہم مذہبوں تک کو ذبح کرڈلا ہے۔ ہٹلر نے نسلی برتری کے حصول کے لیے کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا تھا، امریکہ بہادر اپنی سرداری قائم کرنے کے لےے کئی ملکوں کو تباہ کرچکا ہے۔ برتری کی یہی جنگ اس وقت ہندوستان میں جاری ہے۔
ہندوستان میں مرکزی اقتدار پر قابض فسطائی ذہنیت اس سلسلے میں بالکل بے نقاب ہوگئی ہے۔ کھلے عام ایسے بیانات دئیے جارہے ہیں جس سے ملک کے ایک خاص طبقہ کو خوف زدہ کیا جاسکے۔ گولیاں مارنے کی دھمکی ہی نہیں گولیاں مار کر فخر جتایا جارہا ہے، ایک بڑے پردیش کے برہمچاری مکھیا برسر اسٹیج کہہ رہے ہیں ”وہ انھیں بریانی کھلارہے ہیں اور ہم کیا کھلارہے ہیں ۔۔گولی “۔ سر بازار نعرے لگائے جارہے ہیں ”دیش کے غداروں کو ۔۔۔ گولی مارو سالوں کو“ اسی فسطائی ذہنیت کا مظاہرہ ایک رام بھکت دن دہاڑے، پولس کے سامنے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرامن احتجاجیوں پر جے شری رام کے نعرے کے ساتھ گولی چلاکر کرتا ہے اور پولس بڑی عزت سے اسے لیجاتی ہے ، کیا پولس کا رویہ اس وقت بھی ایسا ہی ہوتا جب کوئی داڑھی ٹوپی والا نعرۂ تکبیر کے ساتھ گولی چلاتا۔؟ اس رام بھکت کی پارٹی کا خلاصہ نہیں ہوتا ،لیکن پستول لیکر مظاہرین کو دھمکانے والا ” عآپ “ کا ممبر ڈکلیئر کیا جاتا ہے جبکہ وہ خود اس سے انکار کررہا ہے، رام مندر ٹرسٹ کے اعلان کے لیے دہلی انتخاب کا انتظار کیا جاتا ہے اور جب الیکشن بالکل اپنے آخری دور میں داخل ہوتا ہے تو رام مندر ٹرسٹ کا اعلان ہوتا ہے۔
دراصل یہ جملے، یہ بیانات، رام بھکتوں کا یہ رویہ اور یوگی مہاراج کی یہ زبان کوئی اچانک واقع ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ بلکہ سنگھ کی سو سال پر محیط کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ بی جے پی سیاسی پارٹی ضرور ہے مگر عام سیاسی پارٹیوں سے اس لےے مختلف ہے کہ وہ اپنی ایک وچار دھارا رکھتی ہے۔ اس کے پاس منو کا پالیٹکل سسٹم ہے۔ وہ ورن آشرم اور ذات پات پر یقین رکھتی ہے، اس کے نزدیک حکومت اور اقتدار کا حق صرف برہمنوں کو ہے ۔ ( رام مندر ٹرسٹ میں نو میں سے آٹھ برہمنوں کی شمولیت اس کا واضح ثبوت ہے) یہ نظریات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں بلکہ سنگھ کا لٹریچر اس سے بھرا پڑا ہے۔ گوالکر کی کتاب ’ BUNCH OF THE THOUGHTS ‘ جو 1966 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں اقلیتوں کے تعلق سے صاف صاف لکھا ہے۔
” ہندوستان میں آباد تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج اور طور طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ وہ یہاں رہتے ہوئے کھلم کھلا اپنے مذہبی عقائد کی اشاعت نہیں کرسکتے۔ اگر انہوں نے اپنے رنگ ڈھنگ تبدیل نہ کیے تو ہندوستان میں بھی اندلس کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔“
نظریاتی پارٹیاں اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ نظریہ کا مفاد دیکھتی ہیں ۔اپنے نظریہ کی اشاعت، تحفظ اور نفاذ کے لیے وہ سب کچھ قربان کردےتی ہیں ، نظریاتی پارٹی سے وابسطہ افراد شادیاں نہیں کرتے ، کرنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کو اپنے نظریہ کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔نظریاتی پارٹیاں بہت منظم ہوتی ہیں ، سنگھ پریوار دنیا کی سب سے بڑی منظم تنظیم ہے۔ نظریاتی پارٹیوں کا مقابلہ اوراد و وظائف ، چلہ کشی،تعویذ گنڈوں، ٹی وی چینلوں پر چیخنے چلانے سے نہیں کیا جاسکتا، مختلف فرقوں میں تقسیم، نماز کی امامت پر مسجدوں پر جھگڑنے والی، شب برأت کے حلووں اورمحرم کے کھچڑے پر خوش ہونے والی قوم شاہین باغ جیسے مظا ہروں سے نظریہ کو شکست نہیں دے سکتی۔البتہ ان مظاہروں سے وقتی طور پر اس نظریہ کے نفاذ میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ مسلم امت کی سادہ لوحی دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ اتنے سخت حالات میں بھی ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہیں، نہ علماء کی مسلکی بحثیں ختم ہورہی ہیں، نہ دانشوروں کی آراء میں اتحاد ہے، نہ نوجوان اخلاقی پستی چھوڑنے کو تیار ہیں، نہ معاشی منصوبہ بندی ہے ، نہ تعلیمی بیداری ہے ۔ مسلم حکومت کے زوال، خلافت کے خاتمہ کے بعد اور انگریزوں سے جدو جہد آزادی کے نتیجہ میں سیاسی اور مذہبی قیادت کے شعورمیں جو بالیدگی آنی چاہئے تھی آج تک اس کا فقدان ہے۔
اب ہندوستان کو اندلس بننے سے روکنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملت اسلامیہ کلمہ پر متحد ہو، اسلام کی سیدھی سچی تعلیمات کو اپنائے، اللہ کے بندوں سے محبت کرے ، آخر یہی وہ ملک ہے جہاں حضرت معین الدین چشتی ؒ تشریف لائے تو لوگوں کے دلوں پراس طرح چھا گئے آج بھی ایک خلقت ان کے آستانے پر پھول نچھاور کرتی ہے، محمد بن قاسم تو فوج کے ساتھ آئے اس کے باوجود غیرمسلموں نے ان کو اپنالیا۔ حضرت صابر کلیریؒ، بابا فریدالدین گنج شکرؒ وہ ہستیاں ہیں جو سب کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔ ان تمام بزرگوں نے انسانوں سے بے لوث محبت کی، ان کی خدمت کی، ان کو اپنے برابر سمجھا، عدل اور مساوات کا رویہ اختیار کیا، یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو آج بھی مفید اور کارگر ہوسکتا ہے۔ سنگھ کے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ مگر ہم نے اپنے ہم وطنوں کے ذہنوں کو صاف کرنے، ان کی خدمت کرنے اور ان کو اللہ کے دین سے واقف کرانے کا کوئی پروگرام نہیں بنایا، بلکہ اسلام کے نام وہ واہیات رسمیں انجام دیں جن کو دیکھ کر خود مسلمان بھی اسلام سے دور ہوگئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سادگی اور سادہ لوحی کے نام پر بے وقوفی اور حماقت کو ترک کریں، انسانوں کو نقصان پہنچانے کی بات تو سوچی ہی نہیں جاسکتی مگر اپنے نقصان سے بچنے کی ہی منصوبہ بندی کرنے میں کیا برائی ہے۔سچادین اورسچا رسول رکھنے والی قوم جھوٹے خداؤں کی طاقت زیر نہیں کرسکتی ، لیکن سچے خدا کے پرستار واقعی پرستار تو ہوں۔
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظّارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ






