کورونا سے جنگ : حکومتِ ہند، قومی میڈیا اور تبلیغی جماعت

عزیز برنی

اس وقت کورونا سے جنگ عالمی جنگ ہے جو پوری دنیا میں لڑی جا رہی ہے، تمام ممالک کی ایک دوسرے پر نظر ہے، ہماری دیگر ممالک پر اور دیگر ممالک کی ہندوستان پر ۔ کورونا کا قہر چین کے ’ وُوہان ‘ شہر سے شروع ہوا اور پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ آج چین اس مہا ماری سے تقریباً نجات پا چکا ہے، لیکن اٹلی، امریکہ اور اسپین میں حالات تباہ کن ہیں۔ ایران انگلینڈ سمیت متعدد یوروپین ممالک گرفت میں ہیں، ہندوستان بھی اب تیزی سے اُس کی گرفت میں آ رہا ہے ، کئی معاملات میں ہم سے چوک ہوئی اور وقت رہتے حکومت اور ہندوستانی اقدام نے اس مہلک بیماری سے نجات پانے کے اقدام بھی کئے جس کے نتیجے میں ہم قدرے محفوظ ہیں۔ دیکھنا ہے کب تک اور کس حد تک ۔۔۔

 لیکن ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ تبلیغی جماعت کے ایک واقعے نے حکومتِ ہند قومی میڈیا اور عوام کی غیر سنجیدگی سبھی کو بے نقاب کر دیا۔

عوام کی غیر سنجیدگی، تبلیغی جماعت کے مرکزی دفتر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ۔۔۔ اور ۔۔۔ 25 مارچ کو ملک بھر میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا سڑکوں پر اُتر آنا۔ متعدد مندروں میں عقیدت مندوں کی بڑی تعداد میں شرکت، یہاں تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ وزیرِ اعلیٰ اُتر پردیش کا رام للا کی پوجا میں شمولیت جیسے متعدد واقعات ہیں ، یہ سب غیر دانستہ عمل، انسانی بھول، لا علمی یا کورونا کی جنگ کو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے ہوا۔ ان سب كو الگ الگ زُمرے میں رکھنا غلط۔

لیکن تبلیغی جماعت کے معاملے کو دانستہ عمل، ملک کے خلاف سازش۔ خودکش دستوں کی شکل میں ہلاکت کی ارادتاً کوشش۔ تبلیغی جماعت کا مرکزی دفتر دہشت گردوں کا مرکز القاعدہ سے تعلق طالبان اور جو قومی میڈیا کے دل میں آیا وہ سب ۔۔۔  

ساری دنیا دیکھ رہی ہے ، کوئی ملک ایسا نہیں جو الزام تراشی میں لگا ہو، سبھی بچاؤ کی کوششوں میں لگے ہیں، کہیں بھی کورونا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، کسی بھی مذہب کا ماننے والا کسی بھی ملک میں کورونا کے لئے ذمہ دار نہیں سوائے ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے، یہ ہمارے قومی میڈیا کا کمال ہے۔

تقریباً 40 برس تک میڈیا سے وابستہ ہوں 25 برس ملک کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس میں گروپ ایڈیٹر جیسی بڑی پوسٹ پر رہا اردو ہندی انگریزی پرنٹ ٹیلیویژن میں سربراہ کی ذمہ داری نبھائی پر یہ تماشا کبھی نہیں دیکھا جو آج دیکھ رہا ہوں۔

آواز نیچے – آواز نیچے – آواز نیچے، چینخ چینخ کر پینل گیسٹ کو دھمکانا، برداشت نہیں کیا جائے گا۔

کون ہو تم، کس سے بات کر رہے ہو، کیا یہ پولیس اسٹیشن ہے اور تم کسی مجرم سے تھانیدار کی حیثیت میں بات کر رہے ہو، جج ہو تم، کسی عدالت میں مجرم کو سزا سنا رہے ہو تم ؟ ۔

صحافی کہلانے کے اہل تو تم قطعاً ہو ہی نہیں، تمہاری ذمہ داری فیصلہ سنانا نہیں؛ حقائق کو پیش کرنا ہے، جو تم نے کیا نہیں، نہ تبلیغی جماعت کے معاملے میں نہ مزدوروں کی خانہ بدوشی کے معاملے میں، نہ مندروں میں لوگوں کے پھنسے ہوئے کے معاملے میں نہ مسجدوں میں لوگوں کے چھپے ہوئے کے معاملے میں۔

تم نے تبلیغی جماعت کے مرکزی دفتر سے صرف 150 قدم کے فاصلے پر واقع پولیس اسٹیشن سے جانا کہ اجتماع اُن کی جانکاری میں تھا، اتنی بڑی تعداد میں ملکی غیر ملکی لوگوں کا جمع ہونا اور 24 مارچ کے بعد بھی وہاں ہونا، اُن کی جانکاری میں ہے کہ نہیں؟ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوبھال کے دورے کے وقت وہ وہاں موجود تھے کہ نہیں؟ کیا انھوں نے کچھ احکامات جاری کیے تھے، کیا مولانا سعد اور تبلیغی جماعت کے کارکنان کو مجرم اور دہشتگرد گردانا تھا، اُن کی گرفتاری کا حکم دیا تھا؟ اگر نہیں تو میڈیا کو یہ اختیارات کس نے دیئے؟ پولس انتظامیہ، عدالت، حکومت، سب تم ۔۔۔ 

کیا مذاق یہ 24 مارچ کو رات 9 بجے ملک کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے قومی میڈیا کے ذریعے یہ اعلان کیا، اسی دن رات 12 بجے کے بعد سے 21 دن کا کرفیو نافذ کیا جاتا ہے، اور اس درمیان ’ جو جہاں ہے وہیں رہےگا ‘ ، اس کے 2 دن پہلے 22 مارچ کو ایک دن کا علامتی کرفیو تھا، جس میں شام 5 بجے ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آکر تھالی پیٹی، کرفیو توڑا ، کیا یہ ملک کے غدّار تھے ؟ کیا یہ کورونا پھیلانے کے ارادے سے کورونا بم بنکر آئے تھے ؟ کیا اُن کی اس حرکت کو کسی دھرم سے جوڑا گیا ؟ ۔

میں پھر آتا ہوں تبلیغی جماعت پر ، 22 مارچ سے پہلے کس کو علم تھا کہ صرف 23 مارچ کو چھوڑ کر جس دن شیو راج سنگھ کو مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینا تھا ، ملک کو کرفیو کے حالات سے گزرنا ہوگا اور جو جہاں ہے اُس کو وہیں رہنا ہوگا۔ باوجود اس کے تبلیغی جماعت کے منتظمین نے تحریری طور پر انتظامیہ کو جانکاری دی تھی اور مرکز میں کرفیو کی وجہ سے پھنس جانے والے لوگوں کو اُن کی منزل تک پہنچانے کی درخواست کی تھی، جو بعد میں کیا بھی گیا ۔ یہ تحریر ملنے کے بعد اور ہنگامے سے پہلے کیوں نہیں کیا گیا ۔۔۔ کیا یہ تبلیغی جماعت ۔۔۔ کے خلاف بہ الفاظ دیگر مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ۔۔۔ ہے۔ کل یہ سوال بھی اُٹھے گا اور عدالت تک جائے گا۔ مولانا سعد کی تقریر جو میڈیا کے ذریعے سنائی گئی اور اس پر میڈیا نے اپنا فیصلہ بھی سنایا ، عدالت کے سامنے لایا جائے والا معاملہ ہے اور لایا ہی جائے گا، تمام فیصلے ٹیلیویژن، اسٹوڈیو میں نہیں سنائے جا سکتے۔

مجھے پھر لوٹنا ہوگا کورونا کا قہر نازل ہونے اور اُس کے بعد ہندوستان کے حالات پر کووڈ – 19 یعنی کورونا کو دیا گیا نام جس میں شامل ہے 19، جو سال 2019 میں دریافت اس مہلک بیماری کی مناسبت سے ہے۔ جی ہاں ! نومبر 2019 میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا، دسمبر 2019 میں چین اُس کی گرفت میں آ چکا تھا۔ جنوری 2020 میں یوم جمہوریہ کی تقریب تھی جو روایتی شان و شوکت کے ساتھ منائی گئی، فروری کا مہینہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کا مہینہ تھا، دیوار کی تعمیر، روڈ شو، گجرات کے اسٹیڈیم میں تاریخی استقبال، ہزاروں افراد کی شرکت، تاج محل کی سیر، مطلب فروری نظر ہوا ٹرمپ کی مہمان نوازی کے جب اس وقت تک درجنوں ممالک کورونا کی گرفت میں چکے تھے۔

میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں تاریخ وار ملک کے تمام واقعات اور دنیا بھر میں کورونا کے شکار افراد کے اعداد و شمار کے ساتھ کورونا کے قہر کی تفصیل پیش کی ہے ، لہٰذا اس وقت صرف یاد دہانی۔

مارچ 2020 کے پہلے دو ہفتے ہندوستانی سیاست کیلئے زیادہ اہم تھے، کورونا سے بچنے کے اقدام کیلئے نہیں، مہاراجہ گوالیر سمیت 22 کانگریس MLA کو بسوں میں پرائیویٹ پلین میں بھر کر کورونا سے بچانے کے لیے نہیں، کانگریس سے بچانے کے لیے لیکر گھومنا، اور 23 مارچ شیو راج سنگھ کی حلف برداری تک اس میں لگے رہنا اور ہمارا قومی میڈیا کورونا جیسی مہا ماری اور ہلاکتوں سے بے خبر ہندوستان کو لاحق خطرے سے بے خبر سرکاری جشن میں شامل، پھر اچانک وہ 24 مارچ کو سرکار بھکتی سے دیش بھکتی کی طرف آ گیا۔

اب آخری سوال اس میڈیا سے فروری 2020 سے 23 مارچ 2020 تک سرکار خود لوگوں کے بڑے بڑے اجتماع میں مصروف تھی سڑکوں پر بھی اور بند کمروں میں بھی ، اگر اُنہیں دنوں میں اس سے بہت چھوٹے پیمانے پر یہی غلطی تبلیغی جماعت سے بھی جانے انجانے سرزد ہوئی تو زیادہ خطا وار کون ۔۔۔؟