بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

شبناز خانم
کورونا کو لےکر پچھلے کئی مہینوں سے چین اور پوری دنیا میں ہاہاکار مچا ہوا ہے، ایران سے لےکر اٹلی تک اور امریکہ سے لےکر انگلینڈ تک ، اب ہندوستان میں بھی کورونا نے زندگی میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کورونا چین سے پھیلا مگر یہ کیسے پھیلا ، اس کا ابھی تک کوئی بھی پتا نہیں لگا پایا ہے اور نہ ہی اس کا علاج کوئی تلاش کر پایا ہے ۔ صرف سوشل دوری بناکر، بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پہ نہ جانے اور محتاط برتنے سے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے ۔
جہاں پوری دنیا اس وبا سے پریشان ہے، وہیں ہندوستان میں اس کو الگ ہی نظر سے دےکھا جا رہا ہے ۔ ہندوستان میں ہر اےک چیز کو مذہب سے جوڑکر دےکھتے ہیں ، وہیں انھوں نے اس بیماری کو بھی مذہب سے جوڑ لیا ہے ۔ ایک طرف ہماری حکومت اس بیماری پر قابو پانے کے لےے الگ الگ قدم اٹھا رہی ہے ، تو کچھ لوگو ں کو الجھن پیدا ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بیماری نہیں ہو سکتی ہے ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ جو نماز پڑھتا ہے قرآن پڑھتا ہے اس کو کورونا نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہندوستان میں بڑی تعداد میں لوگ اس خام و خیال میں جی رہے ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ ہے سوشل میڈیا ، ٹک ٹوک، یوٹیوب ، فیس بک جن کے ذریعے غلط چیزیں عوام تک پہنچتی ہیں ۔ ٹک ٹاک کو گاؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل ٹک ٹاک پر بہت ساری ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں ، جن میں ایک بڑی تعداد مسلم نوجوانوں کی جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کورونا نہیں ہو سکتا ہے۔ جس سے لوگوں تک بہت غلط پیغام پہنچ رہا ہے ، جس سے مسلمان لوگ کررونا کو لے کر آگاہ نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ میں نے خود لوگوں کو بولتے ہو ئے سنا ہے کہ ہم کو کررونا نہیں ہو سکتا ۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ کورونا پہلے مذہب دیکھتا ہے اس کے بعد کسی کو ہوتا ہے ۔ عجیب قسم کی جاہلیت بھری ہوئی ہے لوگوں میں ، سمجھ نہیں آتا کی یہ سوشل میڈیا کا اثر ہے کہ لوگ سچ میں ہی اتنے جاہل ہیں ۔
ہندوستان میں دن بہ دن کورونا کا کیس بڑھتا جا رہا ہے ، پوری دنیا میں کتنے ہی مسلمانوں کو کورونا ہوا ہے ، دنیا کو چھوڑئے ہندوستان میں ہی ابھی تبلیغی جماعت اتنا بڑا معاملہ سامنے آیا ہے ، جس میں شامل لوگوں میں کورونا وائرس پایا گیا ہے ، تبلیغی جماعت بھی بہت بڑی غلطی تھی ، جب دیش میں کورونا کو لےکر الرٹ کر دیا گیا تھا ، تو ضرورت تھی کہ احتیاط برتیں۔اس میں شامل ہوئے لوگ پورے دیش سے آئے ہوئے تھے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔ ہر جگہ وہ گھومتے رہے ، کتنے لوگوں کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔ دیش میں جو بھی کورونا کے معاملے تھے ان میں ایک دم سے اضافہ ہو گیا ، یہ بہت بڑی لاپرواہی ہوئی ہے اس سے پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
400 پازیٹو کیس مسلمانوں کے ہی ہیں ، یہ وہ جماعتی ہیں جو پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں پھر ان کو کیوں کورونا وائرس ہوا ؟ اگر کہیں وبا جیسے حالات ہو جائے تو اس جگہ پر نہیں جانا چاہیے ، اگر تم کو وہ بیماری ہوئی ہو تو اپنے گھر سے ہی باہر مت نکلو۔پھر کیوں اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں لوگ؟ یہ کتنا سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اسلام کی پانچ بنیادی چیزوں میں شامل استطاعت حج کرنے پرسعودی عرب کے باہری مسلمانوں پرخطرہ منڈلا رہا ہے ۔ 1918 میں فلیو جیسی وبا کے دوران بھی حج کو نہیں روکا گیا تھا جب کہ اس وقت اس بیماری سے تقریباً ۱۰ لاکھ لوگ مرے تھے ۔ مسجدوں میں زیادہ کی تعداد میں بھارت میں ہی نہیں بلکہ ایران، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، لبنان، عراق، جاڈرن میں بھی لگا دی ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات کا علم رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی پابندیاں ان کی ہی جان کی حفاظت کے لیے لگائی گئی ہیں ۔ اسلامک ملک پاکستان میں کورونا نے اٹلی سے بھی زیادہ حالات خراب کی ہے اس کے باوجود اس نے حال ہی میں اسلامی ملکوں سے آئے ہوئے لاکھو مسلموں کو ۱۰ سے ۱۵ مارچ تک لاہور میں تبلیغی جماعت کو پروگرام کرنے کی اجازت دے دی ۔ اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑگئی ہیں ۔ کئی اسلامی ملکوں میں کورونا کے معاملے سامنے آئیں ہیں ۔ پاکستان کی مالی حالت اس طرح بھی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کی طرح لا ک ڈاؤن کر سکے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہروں کو بند کرکے کورونا سے بچا جا سکتا ہے تو دوسری طرف لوگ بھوک سے مر جائیں گے ۔
ان سب سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے دیش میں جو لاک ڈاؤن ہوا ہے وہ کافی صحیح قدم ہو سکتا ہے ، اس لئے سب کو حکومت کے فیصلہ کی قدر کرنی چاہیے، جس سے اپنے ملک کو اس وبا سے بچایا جا سکے ۔ ملک کو صحیح راستہ پر لانے کے لیے ہندو ، مسلم ، سکھ، عیسائی سب کو ایک ساتھ آگے آنا ہوگا ۔ مذہب کی سیاست ہم بعدمیں کرلیں گے، پہلے آئیے بلاتفریق مذہب اس بیماری سے لڑیں اور خود کو دور رکھتے ہوئے اپنے گھروں میں رہیں تاکہ وائرس سے لڑا جاسکے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بیماری، وبا اور وائرس کا کوئی دھرم، ذات اور خصوصی علاقہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے اللہ کے واسطے وائرس سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے ۔
(مضمون نگارانڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکشن ، نئی دہلی کی طالبہ ہے)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں