م – افضل
کورونا کو مسلمان کرنا ضروری کیوں تھا؟ اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کئی سوال کھڑے کرتا ہے پہلا تو یہ کہ اگر ایم پی میں سرکار بنانے کے کھیل تک کوئی خطرے والی بات نہیں تھی تو پھر اچانک یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے گزشتہ 12 فروری کو کورونا وائرس کے سنگین خطرہ سے مودی سرکار کو آگاہ کرتے ہوئے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ وہ اندیشہ درست ثابت ہورہا ہے، مکمل لاک ڈاؤن کے بعد بھی صورت حال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے اور متاثرین کی تعدادمیں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 12 فروری کے بعد 17 مارچ کو بھی راہل گاندھی نے مودی سرکارکو یہ کہہ کر خواب سے بیدار کرنے کی کوشش کی تھی کہ سرکار کورونا وائرس کہ خطرہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے جبکہ اس مہلک وباسے ملک میں بڑی جانی و مالی تباہی آسکتی ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تب ہمارے وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کے کسی ممبر کا اس کو لیکر کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا جبکہ اس وقت تک یہ خطرہ کئی ریاستوں میں دستک دے چکا تھا، اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے بعض حقائق کا بھی ذکر ہوجائے تاکہ سرکارکے تعلق سے اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی تصدیق ہوجائے، ملک میں اس وائرس کا پہلا مریض 30 جنوری کو کیرالا میں ملا یہ نوجوان چین کے وُہان شہر سے واپس لوٹا تھا جہاں وہ میڈیکل کی تعلیم حاسل کررہا تھا بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 23 جنوری تک چین کے وُہان شہر سے 60 طلباء کسی جانچ کے بغیر ہندوستان واپس آ چکے تھے قابل ذکر ہے کہ ووہان میں تقریباً 7 سو ہندوستانی نوجوان میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے تھے، وہاں جب یہ وبا پھوٹ پڑی تو ان طلباء کو واپس لانے کیلئے مودی سرکارنے غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ ان کے لئے تین عدد ہاٹ لائن بھی جاری کی گئی شاید اس لئے کہ یہ کسی کسان یا مزدور کے نہیں امیر اور کاروباری لوگوں کے بچے تھے چنانچہ ان کو وطن واپس لانے کیلئے خصوصی طیارے بھیجے گئے اور پانچ ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم بھی طبی چانچ کے لئے روانہ کی گئی، ان ڈاکٹروں کے پاس کیا کورونا وائرس کی جانچ کرنے والی کٹ تھی ؟ اس سوال کا جواب مفقود ہے ، 30 جنوری کے بعد جو دوسرا نوجوان اس وائرس کا شکار ہوا وہ بھی چین سے واپس لوٹا تھا ان طلباء کو واپس لانے کا جب عمل جاری تھا تو اسی دوران چین میں ہندوستان کے سفیر کا یہ بیان آیا تھا کہ ہندوستانی طلباء میں کوئی بھی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے مارچ کے دوران غیر ممالک سے تقریباً 336 فلائٹس ہندوستان آئیں جن میں چین ، ایران اور اٹلی سے اپنے شہریوں کو لانے کے لئے بھیجے گئے خصوصی طیارے بھی شامل ہیں ، ایک اندازے کے مطابق غیر ممالک سے تقریبا 64ہزار لوگ ہندوستان آئے ان میں سے محض 8 ہزار لوگوں کو ہی الگ تھلگ رکھا گیا باقی لوگ سماجی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے بلکہ زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ چین ایران اور اٹلی جیسے متاثرہ ملکوں سے جن لوگوں کو لایا گیا انہیں بھی کورین ٹائین نہیں کیا گیا گھروں کو جانے دیا گیا ، پھر 24 فروری کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان آئے، جن کیلئے احمد آبادمیں ایک عوامی اجتماع رکھا گیا جس میں خبروں کے مطابق لاکھوں لوگ شامل ہوئے ، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس تقریب میں شمولیت کے لئے بڑی تعدادمیں غیر مقیم ہندوستانیوں کو امریکہ سے لایا گیا تھا ، ہزاروں کی تعداد میں ٹرمپ کے حفاظتی گارڈ بھی تھے سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کی طبی جانچ کی گئی تھی ؟ دوسرا بڑا سوال جو ہر انصاف پسند شہری کے ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ جنوری کے بعد سے سرکار مارچ کے آخر تک آخر کیوں سوتی رہی، اس نے کوئی احتیاطی قدم کیوں نہیں اٹھایا ؟ سیا سی ابن الوقتی اور بے غیرتی کی اس سے بدترین مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ لاک ڈاؤن سے ایک روز پہلے تک اس کے لوگ کمل ناتھ سرکار کو گرانے کی افسوسناک کوشش کرتے رہے ، یہاں تک کہ لاک ڈاؤن کے بعد شیوراج سنگھ نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف بھی لے لیا ۔
اس طرح اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا وہ کئی سوال کھڑے کرتا ہے پہلا تو یہ کہ اگر مدھیہ پردیش میں سرکار بنانے کے کھیل تک کوئی خطرے والی بات نہیں تھی تو پھر اچانک لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیوں لیا گیا ؟ دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ اگر سرکار کو اس خطرے کا احساس تھا تو اس نے یہ فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں کیا ؟ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عام لوگوں کو جس طرح کی پریشانی کا سامنا ہے اس کا ذکر لفظوںمیں ممکن نہیں پورا ملک تھم چکا ہے اور عام لوگوں کے سامنے روزی روٹی تو چھوڑیئے زندہ رہنے کا سوال آن کھڑا ہوا ہے ۔ مزدورپیشہ لوگوں کی بے بسی کا نظارہ ہم دہلی اور ملک کے دوسرے شہروں کی سڑکوں پر دیکھ چکے ہیں ، ملک کا میڈیا تو ہندو مسلم کو لڑانے میں مصروف ہے، لیکن سوشل میڈیا پر جو کچھ آرہا ہے وہ بہت بھیانک ہے اور اگر لاک ڈاؤن بدستورجاری رہا تو لوگ کورونا وائرس سے نہیں بھوک سے ضرور مرنے لگیں گے ؛ اس کو لیکر سرکار پر سوال اٹھنے لگے تھے ، اس کی ناکامی بھانڈا پھوٹ چکا تھا اور عام لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ حالات سرکارکے قابو سے باہر ہوچکے ہیں ایسے میں ضروری تھا کہ سب کی توجہ کسی دوسری طرف مبذول کرادی جائے ، چنانچہ تالی اور تھالی بجوائی گئی اس سے بھی کام نہیں چلا تو وقت سے پہلے دیوالی بھی منوادی گئی ، مگر بات تب بھی نہیں بن رہی تھی شاید اسی لئے کورونا وائرس کو مسلمان کرنے کی سازش تیار ہوئی ، تبلیغی جماعت کے سربراہ سے ہوئی ایک غلطی نے سرکار اور میڈیا دونوں کو اس کا نادرموقع بھی فراہم کردیا حالانکہ تبلیغی جماعت کے سربراہ سے جو غلطی ہوئی اس میں دہلی انتظامیہ اور سرکار لوگ برابر کے شریک ہیں یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ جب لاک ڈاؤن کے بعد مرکز کے ذمہ داران نے پولس کو اپنے یہاں پھنسے ہوئے لوگوں کی اطلاع دیدی تھی تو ان کیلئے کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا گیا ، مگر یہ سوال پس منظرمیں چلا گیا ، میڈیا اور خاص طور پر الکٹرانک میڈیا نے اس کو بنیاد بناکر لوگوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف جو زہر بھر دیا ہے وہ بہت خطرناک ہے اور اس کے اثرات بھی جگہ جگہ دکھائی دینے لگے ہیں ، دوسروں کو تو چھوڑیئے، اکثریت کے عام لوگ بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ وبا مسلمانوں نے پھیلائی ہے جبکہ اس میں رتی بھر بھی سچائی نہیں ہے ، سچائی وہی ہے جو اوپر آچکی ہے ، تبلیغی جماعت دنیا کے تقریباً 155ممالک میں سرگرم ہے اور اب تک کہیں سے بھی اس کے خلاف کوئی منفی رپورٹ نہیں ہے ، آپ ان کے نظریہ سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن اس بات کی تائید کرنی پڑے گی کہ یہ لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے مگر یہ پہلی بار ہے کہ جب جماعت کو متنازعہ بنانے کی سازش ہوئی ہے ۔
اس سازش کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ٹی وی چینلوں نے اشتعال انگیز اور جھوٹی خبریں ہی نہیں نشر کیں بلکہ فیک ویڈیوز بھی اسکرین پر دکھائے گئے ، بہت سے ویڈیوز کی اصلیت سامنے آچکی ہے ، بعض چینلوں نے جھوٹی خبر دیکھا نے پر معافی بھی مانگی ہے ، اس سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہوئی ہے کہ اب ان چینلوں کے ذریعہ دکھائی گئی جھوٹی خبروں کی تردید پولس بھی کرنے لگی ہے ، سوشل میڈیا پر بھی پولس سخت نگاہ رکھ رہی ہے ، مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے پر کچھ لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی ہے مگر اس سے پہلے جو زہر لوگوں کے ذہنوں میں بھرا جاچکا ہے شاید اس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا، تبلیغی جماعت کو لیکر جھوٹ کاکاروبارجب عروج پر تھا تومیں نے ایک بڑے ٹی وی چینل کے ایک ذمہ دارشخص سے بات کی اوراس سے پوچھاکہ آپ لوگ جو کچھ کررہے ہیں کیا تب بند کریں گے جب لوگ سڑکوں پر آکر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں گے ؟ آخریہ خطرناک کھیل آپ لوگ کب تک جاری رکھیں گے ؟اس پر اس شخص نے جو جواب دیا اس کو نہ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے اس پورے کھیل کا پردہ فاش ہوجاتا ہے جو اس ملک میں پچھلے 6 سال سے کھیلا جارہا ہے اس نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا ’’ افضل صاحب ہم مجبور ہیں ہم خود یہ سب کرنا نہیں چاہتے مگر ایساکرنے کے لئے مجبور ہیں اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ملک کا میڈیا مسلمانوں کے تعلق سے جو کچھ کررہا ہے وہ کیوں اور کس کے اشارہ پر کررہا ہے ، بہرحال کورونا کو مسلمان بنانے کی سازش کو امریکہ نے پسند نہیں کیا اور عالمی تنظیم برائے صحت نے بھی اس کی مذمت کی ہے ، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کو تو مجبور ہوکر اس کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کرنا پڑا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے چند دنوں سے جس طرح میڈیا کا رویہ قدرے نرم ہوا ہے اور اب پولس اورسرکاریں افواہوں کی تردید کررہی ہیں ، ہوسکتا ہے کہ سرکار کو کسی نے یہ نیک مشورہ دیا ہوکہ جماعت کو نشانہ بنانے سے عالمی سطح پر ہمارے سفارتی تعلقات پر منفی اثرات پرسکتے ہیں ، سچائی کچھ بھی ہو سرکار تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی ہے ، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کی لکیر لمبی ہوچکی ہے ایسے میں مسلمانوں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ، انہیں چاہئیے کہ وہ مرکز ،وزارت صحت اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے جاری ہدایات پر سختی سے عمل کریں ، ڈاکٹروں اورپولس کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں، یہ لوگ ہمارے دشمن نہیں ہے، ہماری سلامتی اور تحفظ کیلئے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے کردار و عمل سے ایک بارپھر یہ ثابت کرنا ہے کہ ان خلاف جو کچھ دکھایا بتایا جاتا ہے وہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہوتا ہے ۔






