کرونا : اسباب و تدابیر کے ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری

فیروز احمد 

متحدہ عرب امارات
مصائب و مشکلات مسلمانوں کے لئے ہمیشہ ابتلاء و آزمائش کے لئے آتے ہیں، جس سے ایمان والا اپنے احتسابی فکر میں لگ جاتا ہے اور رجوع الی اللہ ، استغفار کی کثرت، اللہ کو راضی کرنے کی تگ و دو میں منہمک ہوجاتا ہے۔ ایک مومن کو کامل یقین ہوتا ہے کہ کوئی بھی وبا یا بلاء اسی خالق ارض وسماء کی مرضی کے مطابق آتا ہے اور جاتا ہے۔
موجودہ وباء کرونا بھی یقیناً اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر نازل کیا ہے جس کا مقصود بھی ابتلاء و آزمائش ہے ، یہ بتانے کے لئے کہ بندہ چاہے کتنا بھی ترقی کرلے منٹوں اور سکنڈوں میں اپنے ترقی یافتہ ایٹم بم، میزائل، فائٹر طیاروں سے دنیا کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کر لے پھر بھی وہ اللہ کے بھیجے ہوئے معمولی وائرس کے سامنے ہیچ ہے ، بے بس و لاچار ہے ، گرچہ اپنے آپ کو دنیا کا سپر پاور سمجھے ، آج امریکہ کی بے بسی واضح مثال بن کر ہمارے سامنے آرہی ہے ۔
لیکن اس طرح کے حالات میں انسان کو کیا کرنا ہے، اس کے لئے شریعت اسلامیہ نے ہماری رہنمائی کی ہے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا ’ جب کسی جگہ طاعون پھیل جانے کے بارے میں سنو تو تم اس جگہ مت جاو ، اور تم جہاں ہو وہاں طاعون پھیل گیا ہے تو اس جگہ سے ڈر کی وجہ کر مت نکلو ‘۔( بخاری ومسلم) اس سے یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ انسان جہاں بھی وباء پھیل جائے وہاں کا سفر نہ کرے اور اگر وباء کے علاقے میں ہے تو اس جگہ سے نہ نکلے۔ یہی وجہ ہے دنیا کے تمام حکمراں اور عام لوگ اسی بات پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ اس طرح وباء کو کنٹرول کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اب اس صورت حال میں ایک مومن کیا کرے کیا وہ بغیر اسباب و تدابیر اختیار کئے اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ کرکے بیٹھ جائے اور مسلسل نماز ، روزہ ، توبہ استغفار میں مشغول ہوجائے یا صرف علاج و دوا اور اسباب و تدابیر ہی اختیار کرے اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں پر نادم نہ ہو اور مصیبت کو دور کرنے کے لئے اللہ کے سامنے نہ روئے گڑگڑائے ۔
جب ہم قرانی ہدایات پر غور کرتے ہیں تو نماز خوف کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس میں ایک فریق کو نماز میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا ہے اور ایک فریق کو اپنے ہتھیار کے ساتھ دشمن کے ہر چال کو مات دینے کے لئے کہا گیا ہے ۔ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود ہیں تو اللہ تعالی سے صرف ایک دعا کے اشارہ پر سب معاملہ حل ہوجاتا اسباب و وسائل اختیار کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں پڑتی پھر بھی آیت نازل ہوئی کہ ایک فریق نماز پڑھے اور ایک فریق ہتھیار کے ساتھ رہے ، ایک طرف ظاہری اسباب اختیار کیا گیا اور دوسری طرف اللہ سے رجوع کیا گیا ہے۔
اسی طرح مشہور حدیث ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رواےت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ادمی سے کہا  ( اعقلہا ثم توکل ) پہلے اونٹ کو کسی جگہ باندھ دو پھر اللہ پر توکل کرو ۔ جس نے پوچھا تھا کہ اونٹ کو رسی سے باندھ دوں اور اللہ پر توکل کروں یا اونٹ کو بغیر باندھے ہی اللہ پر توکل کروں ، یہاں پر بھی کہا گیا کہ پہلے اسباب اختیار کرو پھر اللہ پر بھروسہ رکھو۔
وہیں دوسری جانب صرف ظاہری اسباب پر توکل بھی نہیں کرنا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مسبب الاسباب اور کن فیکون کے مالک کو بھی منانا ہے اور اس کو راضی بھی کرنا ہے، کیونکہ اسباب میں قوت دینا اسی مالک الملک کا کام ہے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آدمی ہر مصیبت ، ابتلاء آزمائش، ہر طرح کے وباء میں دوا و علاج ، اسباب و تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے اپنے گناہوں پر نادم ہو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کرے اور موجودہ وباء کو دور کرنے کے لئے اللہ کو راضی کرے۔
اللہ تعالی دنیا کے تمام انسانوں کو تمام آفتوں ، مصیبتوں اور خاص کر کرونا بلاء سے محفوظ رکھے ۔آ مین یا رب العالمین ۔۔