تعصب کی زہر آلود فصل پر دنیا کی نظر

سید منصورآغا، نئی دہلی
57 ممالک پر مشتمل ’تنظیم تعاون اسلامی‘ (پرانا نام ’رابطہ عالم اسلامی‘) کے ’آزاد، مستقل حقوق انسانی کمیشن (OIC IPHRS) نے ہندستان میں مسلم مخالف تعصبی ماحول سازی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے، حکومت ہند کو متوجہ کیا ہے کہ اس پر قابو پایا جائے۔ کمیشن نے 19اپریل کو ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے، ’ ہم حکومت ہند سے پرزورگزارش کرتے ہیں کہ ہند میں اسلام اور مسلموں کے خلاف تعصب سازی (اسلاموفوبیا) کی روز بروز بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے اقدامات کرے اور بین اقوامی حقوق انسانی قوانین کے مطابق ظلم کی شکار اپنی مسلم اقلیت کے تحفظ کے فوری اقدامات کرے۔‘
ٹوئیٹر کے ساتھ ہی رابطہ کے سیکریٹرئیٹ کی ایک پریس رلیز میں زیادہ صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ ’رابطہ عالم اسلامی کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر ہند میں مسلم مخالف تعصب کو مسترد کرتا ہے ‘ عنوان سے بیان میں کہا گیا ہے، ’او آئی سی کا جنرل سیکریٹریٹ حالیہ رپورٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے جن سے ظاہرہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کیلئے سیاسی حلقے، زرائع ابلاغ، مین اسٹریم میڈیا (اخبار ات، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ) اور سوشل میڈیا مسلم اقلیت کے خلاف الزامات پھیلا رہے ہیں۔‘ ’کرونا وائرس کی عالمی صورتحال ایسی ہے کہ اس پر قابو پانے کیلئے کوششیں بڑھائی جائیں۔ عالمی سطح پر زیادہ سرگرم تعاون، طریقہ کار میں یکجہتی اورتمام شہریوں کے درمیان مضبوط آپسی تعاون کی ضرورت ہے۔ چنانچہ او آئی سی جنرل سکریٹریٹ اس کے پھیلاؤ کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کو مسترد کرتا ہے۔‘
رابطہ کا صدر دفتر ریاض (سعودی عرب) میں ہے اور تیل پیدا کرنے والے تقریباً سبھی مسلم ممالک اس کے رکن ہیں۔ مودی جی کی سربراہی میں اگرچہ این ڈی اے کے دور میں مسلم اذیت رسانی کی وارداتوں اور پارٹی کے لیڈروں کے نہایت گھٹیا بیانات کا سیلاب سا آگیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس تنظیم کے اہم ممالک سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے وزیر اعظم مودی کو اپنے سب سے اہم قومی ایوارڈس سے نوازا، مالی تعاون کا ہاتھ بڑھایا، اور اس کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کا بھروسہ دلایا۔ مگر سرکار کی سرپرستی میں مسلم دشمنی کو ابھارنے کی مہم میں کمی نہیں آئی، حالانکہ ان 57 ممالک میں لاکھوں ہندستانی، جن میں بڑی اکثریت غیرمسلموں کی ہے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ ان کا بھی سوچنا چاہئے۔ جو یہاں ہورہا ہے اس کی خبروں سے ان کیلئے وہاں دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
رابطہ کا یہ بیان سفارتی اعتبارسے اہم ہے۔ اس کو ان ممالک کی طرف سے انتباہ سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکا کے دباؤ میں آکر ایران سے تیل کی خرید پہلے ہی بندکردی گئی ہے۔ اب اگر ان تعصبی پالیسیوں کے بدولت ان ممالک سے تیل کی فراہمی میں رکاوٹ پڑی تو معیشت پر سخت تباہ کن اثر ہوگا۔ ترکی اور ملائیشیا پہلے ہی ان حرکتوں پر ناپسندیدگی ظاہرکرچکے ہیں۔ امریکا کی دوستی پر بھروسہ کرنا سخت نادانی ہوگئی۔ وہ مدد کرنا نہیں، خون پینا پسندکرتا ہے۔ ادھر بشمول چین پڑوسی ممالک کو پہلے ہی بدظن کیا جاچکا ہے۔ آدھی دنیا میں بددلی پھیلا کر آپ کی یہ پالیسی ملک کو کہاں لیجائے گی، کچھ سوچا ہے؟
رابطہ سے قبل اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن اور امریکا کے کمیشن برائے مذہبی آزادی نے بھی ہند میں تعصب کی اس لہر پر گرفت کی ہے۔ مگر ہماری وزارت خارجہ نے ’گمراہ کن رپورٹوں ‘ کو پھیلانے کا الزام لگا کر مسترد کردیا جبکہ اندرون ملک صورتحال بگڑتی رہی۔ لیکن رابطہ کے اس بیان کے بعد اسی دن پی ایم کی طرف سے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے، ”کووڈ19- حملہ کرتے ہوئے نسل خاندان، مذہب، برادری، بولی یا سرحدنہیں دیکھتا۔ اس لئے اس کے مقابلہ میں ہمارے رویہ اورجواب میں اتحاد اور بھائی چارہ کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہئے۔ اس کا مقابلہ کرنے میں ہم سب ساتھ ہیں۔“
بہت خوب۔ ہم ان سنہرے الفاظ کا خیرمقدم کرتے ہیں مگر یہ اندیشہ بجا ہے آپ کی حکومتی پالیسی ان الفاظ کو عمل کا جامہ پہنانے میں مستعدی نہیں دکھا سکے گی۔ اس نئی تعصبی لہرکی جڑمرکزی حکومت کی پالیسیوں میں ہے۔ مثال کے طورپر نفرتی بیان دینے والے پارٹی لیڈروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی، ان کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک کرونا کا تعلق ہے تعصب کی اس نئی فصل کا سلسلہ مرکزی وزارت صحت سے شروع ہوا جو روز کی پریس بریفنگ میں اہتمام کے ساتھ ایک مخصوص جماعت اور اس کی اجتماع کو نشانہ بناتی رہی۔ جس کا زہرمختلف ذریعوں سے ملک بھر میں پھیلتا رہا اور سرکار دیکھتی رہی۔ ہرچند کہ 8 اپریل کو اسی وزارت نے ایک ایڈوائزی (ہدایت) جاری کی تھی، کرونا کے پھیلاؤ کیلئے کسی فرقہ یا علاقہ پرداغ نہ لگایا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی الزام تراشی اور داغداری کی پالیسی کیلئے ہند کو خبردار کیا تھا۔ لیکن 18/اپریل کی پریس بریفنگ میں پھر تبلغی جماعت کو نشانہ بنایا۔ حالانکہ میڈیا میں مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ اندھ بھگتوں نے مسلم سبزی فروشوں تک کو نشانہ بنایا۔ احمدآباد کے ایک اسپتال میں فرقہ کے بنیاد پر کرونا کے الگ الگ وارڈ بنادئے گئے۔ ریڈیو اور گودی میڈیا بڑی مستعدی سے اس زہر کو پھیلا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحت کارکنوں پر شک کیا جانے لگا اور کرونا پر قابو پانے میں رکاوٹیں آنے لگیں۔ اس پس منظر میں ہماری خواہش ہے کہ وزیراعظم کے الفاظ اثر انداز ہوتے دکھائی دیں۔ ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہماری کوتاہیوں پر دوسرے ممالک ٹوکیں اور ہماری ایجنسیاں اور سرکار خوش دلی سے دیکھا کریں۔
البتہ ا س دوران ایک مثبت پہل ہوئی۔ کئی مقامات پر ضلع پولیس افسران نے جماعت اورمسلم فرقہ کے خلاف جھوٹی خبروں کی تردید کا سلسلہ شروع کیا۔ میڈیا کو یہ مشورہ دیا گیا کہ انتظامیہ سے تصدیق کئے بغیر کوئی خبر نشر نہ کی جائے۔ اس کا اثر دکھائی دیا۔ خاص طور سے مہاراشٹرا میں سختی دکھائی گئی اور بہت سے ٹوئیٹ، فیس بک پوسٹ اور ویب سائٹس سے جھوٹی خبریں ہٹ گئیں۔ لیکن زہرسماج میں دور تک پھیل چکا ہے، جس کی کاٹ وہی جانے جس نے یہ بساط پھیلائی ہے۔
مختار عباس بھی بولے
رابطہ کے بیان پر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا بیان کیا ہے، سچائی کے پہاڑ کو جھوٹ کی جھاڑو سے ہٹانے کی کوشش ہے۔ ہماری گزارش ہے سچائی انکار مت کیجئے اور اصلاح کے نقیب بن جائیے۔ یہ زندگی چند روزہ ہے۔ موصوف نے پھر وہی بات کہی ہے جو کئی بار پہلے کہہ چکے ہیں۔ کہا، ’ ہندستان مسلمانوں کیلئے جنت ہے۔ سیکولرزم اور قومی ہم آہنگی ہماری حکومت کیلئے فیشن نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔ یہاں مسلمان خوشحال ہیں۔ خوش ہیں۔ ہند مسلمانوں کیلئے ساری دنیا سے بہتر جگہ ہے۔ وغیرہ‘ کاش نقوی صاحب ایک چکر شمال مشرقی دلی کا لگا آتے تو اندازہ ہوتا جو وہ کہہ رہے اس میں اور حقیقت میں کتنا فاصلہ ہے۔
بیشک۔ ہندستان بہت اچھا ملک ہے۔ علامہ اقبال 1904 میں کہہ گئے تھے، ’ سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا ‘۔ یہ وہ نغمہ ہے جس کی بدولت آپ کی پارٹی کی حکومت میں ایک اسکول پرنسپل کو دیش دروہی کا خطاب دیا گیا۔ نقوی صاحب یہ کون کہتا ہے ہند جنت نظیرنہیں۔ بیشک ہے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اس کو جہنم کی نمونہ بنانے اور خون سے تر کر دینے کا ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ آپ کس سیکولرزم کی بات کرتے ہیں؟ 2019 کے چناؤ کے بعد تو مسٹر مودی نے خود فخرسے کہا تھا، اس الیکشن کوئی سیکولرزم کا نام تک لینے کی ہمت نہیں کرسکا۔‘ رواداری کا عالم یہ ہے جگہ جگہ سماجی بائیکاٹ کی باتیں ہورہی ہیں۔ ووٹ کیلئے لباس اور قبرستان کا حوالہ دیدیا جاتا ہے۔ محترم نقوی صاحب، اللہ بھلا کرے بیشک آپ کا دروازہ بے سہارا ضرورتمندوں کیلئے کھلا رہتا ہے۔ لیکن خدارا بولنے سے پہلے سوچ لیا کیجئے۔ اب دنیا اتنی بے خبر نہیں رہی کہ جو ہورہا اس سے آنکھیں موند لے اورجو آپ کہہ دیں، اس کو سچ مان لے۔ سچائی کو قبول کرنے سے قد بڑھتا ہے۔ اس کو جھٹلانے سے اعتماد ختم ہوتا ہے۔
رمضان کا استقبال
توقع تھی اور دعا بھی رمضان سے پہلے سہولتیں کھل جائیں گی۔ لیکن اس میں بھی کچھ اللہ کی مصلحت ہے۔ ہم اسی میں راضی ہیں۔ کل محترم بدر کاظمی (دیوبند) سے بات ہورہی تھی۔ مسلم مجلس کے روح رواں قمر کاظمی مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ خوب مطالعہ ہے۔ ملت کیلئے فکرمند رہتے ہیں۔ انہوں نے پتے کی بات کہی۔ کہا، ’ رمضان کا چاندنظرآئے تو اعتکاف کی نیت کرلیجئے اور اپنے اوراد میں قران کی ان دعاؤں کو شامل کرلیجئے:
ربنا لا تجعلنا فتنتہ للذین کفرو وعفرلنا ربنا انک انت العزیز الحکیم، سورۃ الممتحنہ آیت 5۔ ’اے ہمارے پروردگار ہمیں تیرا انکار کرنے والوں کا تختۂ مشق نہ بنا اور اے پروردگار ہمارے گناہ معاف کردے بیشک تو زبردست حکمت والا ہے۔
ربنا لا تجعلنا فتنتہ للقوم الظالمین ونجنا برحمتک من القوم الکافرین سورہ یونس، آیت 85،86 ’اے ہمارے رب ہمیں تختۂ مشق نہ بنا ظالموں کا اور اپنی رحمت سے نجات دے تیرا انکار کرنے والوں سے‘
اس رمضان ارادہ کیجئے کہ تلاوت چاہے کم ہو، قرآ ن کا ترجمہ بھی پڑھیں۔ اس آفت سماوی سے پوری دنیا کی نجات کی دعا کریں اور نمازیں و تراویح کیلئے گھرسے باہر نہ نکلیں۔ کرونا کا علاج اپنی حفاظت کے سوا کچھ نہیں۔
8077982485

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں