مہلک اور جان لیوا وائرس کی بارآوری کی حقیقت
خوف اور اندیشوں کی چکی میں پستا ہوا انسان۔آنکھیں کھولئے،حقائق اور خطرات سے دنیا کو آگاہ کیجئے! (قسط اول)
مفتی احمد نادر القاسمی
قرآنی سائنس اور اسلام کا یہ واضح پیغام ہے کہ خالق کائنات نے اس جہاں فانی اور اس میں آباد ہونے والے ہرجاندار کو ایک وقت مقرر تک کے لئے ہی بسایا ہے۔ اورایک دن کائنات کی ہرشئ کو فنا ہوجانا اور انسان سمیت ہرجاندار کو اپنے رب کے پاس لوٹ جاناہے۔اوروقت فنا آنے سے پہلے یہ آنے اورجانے کا سلسلہ یوں چلتا رہے گا ۔ ” کل من علیھا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والإکرام “۔۔ کائنات کے اس نظام کا خالق بھی وہی رب کریم وحدہ لاشریک ہے اور اس کی ہر شئ اسی کے حکم اور اشارے پر اپنے اپنے دائرے اور مدار میں گردش کر رہی اور اپنا وظیفہ تخلیق پورا کررہی ہے ۔ جسے دنیا کائنات کے فطری نظام کا نام دیتی ہے۔اس کائنات میں موجود ہر شئ نباتات جمادات موذی اور غیرموذی حیوانات ،کیڑے مکوڑے، اور حشرات الارض سب کسی نہ کسی مفید پہلو سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو لوگ نظام کائنات کی حقیقت کا ادراک اور رب کی معرفت رکھتے اوراس کی قدرت پرجن کا ایمان ہے وہ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں ” ربنا ماخلقت ھذا باطلاً “
کرہ ارض پر موجود یوں تو ہرمخلوق رب کو پیاری ہے مگران میں سب سے بلند و بالا مقام اللہ نے حضرت انسان کو عطا کیا ہے ۔ کائنات کی ہروہ چیز جو اس کےلئے مفید اور نفع بخش ہو اسے مسخر اور تابع بھی کردیا ہے ، اور اس کی دسترس میں بھی دے دیا ہے ، اور جو چیز ضرررساں ہے اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی کردی ہے۔اس طرح اسکے مقام کو مکرم و محترم بنایا ہے ۔ ” ولقدکرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر و البحر ورزقناھم من الطیبات و فضلناھم علی کثیرممن خلقناتفضیلاً “ (سورہ بنی اسرائیل۔70)
انسان کو جو چیز دنیا کی ہر شئ سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے عقل وادراک کا ملکہ اور جو چیز اس کے لئے باعث فضیلت ہے وہ ہے علم کی روشنی۔ اگر انسان کی عقل وداناٸی دین واخلاق کا ساتھ چھوڑ دے تو انسان شتر بےمہار ہوجاتا ہے اور اگر علم نافعیت کی صفت سے آزاد ہوجائے تو وہ علم بےنور اوربے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے ۔ خواہ وہ علم انسانی زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو ۔
میں یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ۔اسلام نہ تو کسی ساٸنسی تحقیق اور ریسرچ کا مخالف ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ شکنی کرتاہے ۔ بلکہ قران نے جس طرح کائنات میں غور و تدبر کی دعوت دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس کا سب سے بڑا داعی ہے اور دنیا کی کسی بھی مذہبی کتاب میں اتنے واضح انداز میں اس پر لوگوں کو نہیں ابھارا گیا ہے جتنا قرآن نے اس پہلو پر زور دیا اور انسانوں کو جگایا ہے ۔ اگرچہ یہ بات الگ اور قابل افسوس ہے کہ اس کے باوجود مسلمان خود اس میدان میں پیچھے بلکہ اس وقت کی دنیا میں سائنسی تحقیقات اور نفع بخش ایجادات کے میدان میں کسی اعداد وشمار ہی میں نہیں ہے ۔ جب وسائل سے مالا مال مسلم ملکوں کی اس میدان میں بے چارگی اور کم مائے گی کو دیکھتا ہوں دل کُرہتا ہے کہ آخر کس دن کے لئے اور کس کام کے لئے اتنے وسیع پیمانے پر وسائل سے نوازا اور کس کام میں اور کہاں امت یہ سرمایہ خرچ ہوا اور آج تک ہورہا ہے ۔ ہم وہ فارغ البال قوم ہیں جس کے پاس کوئی بین الاقوامی معیار کا سائنسی اور طبی انسٹی ٹیوٹ تک موجود نہیں ۔ خیر یہ علاحدہ موضوع ہے اس پر مستقل گفت وشنید کی ضرورت ہے ۔ اگر دنیا کوئی مثبت طبی یا سائنسی تحقیق اور ریسرچ کرتی ہے تو یقیناً لائق تحسین ہے ۔ مگر ایسی تحقیقات پر سرمایہ اور دماغی و علمی انرجی صرف کرتے ہیں، جن سے انسان تو انسان روئے زمین کو ہی خطرات لا حق ہوجائیں اس کی اجازت اسلام ہی نہیں دنیا کا کوئی عقل مند انسان نہیں دے سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی بار ڈول نامی میڈھا استنساخی عمل کے ذریعہ سامنے تو ایسی کسی بھی کلوننگ کو نہ صرف عالم اسلام نے مسترد کیا بلکہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور دنیا دیگر کرسچن ممالک نے اس پر پابندی کی کہ ہم ایسی کسی تحقیق کی تجرب گاہ اپنے ممالک کو نہیں بننے دیں گے، جس کے منفی اثرات انسان اور دیگر جاندار کے فطری نظام پر پڑے ۔ اس کے باوجود برطانیہ ،چائنا ، جاپان ، تھائی لینڈ وغیرہ اس کا سلسلہ جاری رھا اور نتیجہ یہ ہوا سائنس داں کلوننگ کے عمل میں اتنی دور تک رسا ئی حاصل کرلی کہ جان لیوا وائرس تک کریٹ کرلئے اور دنیا حیاتیاتی جنگ اور دہشت گردی تک پہونچ گئی ۔ ظاہر ہے تحقیق کے اس سمت کو صحیح سمت نہیں کہا جاسکتا ۔ خواہ سائنس اس کو کتنا ہی علم و سائنس کی ترقی کا نام کیوں نہ دے ۔
اس وقت ہم بات کررہے ہیں عالمی پیمانے پر covid19 سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال پر کہ اس بات پر غور کیا جانا چاہئیے کہ آخر یہ صور ت حال دنیا میں کیوں پیدا ہوئی اس کے اسباب کیا ہیں ۔۔ یہ وائرس اور وبا قدرتی ہے یا مصنوعی اور کس لیبارٹی میں حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر کلوننگ کے ذریعہ اسے بار آور کیا گیا ہے ، اور ماہرین کی چوک اور غلطی کی سزا آدھی دنیا کو اپنی جان کی قیمت کی شکل میں چکانا پڑ رہا ہے یا کم و بیش پانچ ملین افراد کو 2020 میں لیبارٹی میں تیار کردہ مہلک وائرس سے انسانی غلطی کیوجہ سے اس کی زد میں آکر جان گنوانا پڑ سکتا ہے ۔جیسا کہ برطانوی ماہر فلکیات سائنس داں اور کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن ریس (1943)نے اپنی کتاب ”ساعتنا الأخیرة “ میں یہ کہتے ہوئے خدشہ ظاہر کیاتھا یہ سال پچاس لاکھ لوگوں کے لئے مقتل ثابت ہوگا اور یہ حیاتیاتی دہشت گردی کے نتیجہ میں ہوگا ۔ماہر عظیم مسلم ساٸنٹسٹ اور فلسفی ڈاکٹر ہشام طالب اپنی کتاب { ”بناء الکون ومصیر الانسان “ ص 671 طبع بیروت ۔۔ 2005) میں سر ماٹن ریس کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ” یری ریس أن أھم الأخطار التی تھدد البشریة ھی ارھاب نووی وفیروسات ممیتة معدلة وراثیا وانفلات اجھزة من صنع الانسان وھندسة وراثیة تغیر طبیعة البشر ۔ھل ھذا یتم بتدمیر من اشرار أونتیجة خطا بشری غیر ان العام٢٠٢٠ سیکون عام الخطأ البیلوجی الذی یتسبب بمقتل ملیون إنسان “ اور دوسری جگہ اس ملیون کی تشریح دکتور طالب نے پانچ ملین سے کی۔ہے بلکہ یہ بتایا ہے کہ دونوں عالمی عظیم جنگوں میں جتنے افراد جاں بحق ہوۓ تھے اس سے بھی زیادہ کا اندازہ ہے ۔ جب ان حقائق پر غور کیا جاۓ تو اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ موصوف ایک دنیا میں جاری استنساخی اور کلوننگ کے عمل کی تیز رفتاری اور سرمایہ دارانہ اور دنیا سے ڈی پاپولیشن کےرجحانات رکھنے والے ممالک اور افراد کی اس حیاتیاتی ارھاب میں دلچسپی کو دیکھتے ہیں تو موجودہ دنیا کی اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جاری لاک ڈاؤن یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ بہت کچھ پنہاں ہے جس کے عشرے عشیر کابھی لوگوں کوپتہ نہیں ہے ۔ یا پھر حقائق کو جان بوجھ کر دنیا سے چھپایا جارہا ہے ۔ موصوف نے ” سائلنٹ اور خاموش دہشت گردی “کے عنوان سے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ ۲۰ویں صدی کے اختتام پر ایک ایسی حیاتیاتی اور کیمیائی دہشت گردی کا دنیا کو سامنا ہوگا جسے علمی اورسائنسی ترقی کے خوبصورت فریم انجام دیا جاۓ گا ، اور بڑے پیمانے پر ہوگا ، اور اسے وہ ممالک انجام دیں گے جو امن و سلامتی کے مقابلے دہشت گردانہ جنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔اور اس حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار کو دنیا میں یا اپنے مطلوبہ اہداف تک ترقی یافتہ ممالک اپنے جدید ترین اسحہ بردار راکٹوں کے ذریعہ پہونچائیں اور پھیلائیں گے ۔ ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر مارٹن ریس کی طرح میں بھی اس صورت حال سے خوف زدہ ہوں اور اس حیاتیاتی اور کیمیائی انتہا پسندی اور ٹیرورزم کی سنگینی کا احساس دلاتا ہوں کہ اس بائیو لوجیکل ہتھیار کے استعمال کی غلطی کا ظہور ہوگا اور پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لےلےگا ۔ خاص طور سے جب کہ دنیا میں جان لیوا حیاتیاتی وائرس اور مہلک بکٹریاز پیدا کرنے پر ہزاروں ماہرین اور سائنس داں قادر ہوچکے ہیں اور پھر یہی وائرس جان لیوا بیماری کے پیدا اور ظہور کا سبب بھی بن سکتے ہیں
دوسری طرف ” ناسا “ نے یہ خیال ظاہر کیاہے کہ یہ بائیو لوجیکل دہشت گردی ممکن ہے لوگوں کے یومیہ روٹین اور مزاج کو ہی تبدیل کرکے رکھ دے ۔ ڈاکٹر ہشام اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بدشگون سے بھراہوا خیال میرے اندر یوں ہی پیدا نہیں ہوگیا ۔ بلکہ یہ ان معلومات کے نتائج ہیں جو مسلسل سامنے آرہی ہیں اور اس میدان کے لوگ ایسی صورت حال برپا کرنا چاہ رہے ہیں ، یہ ان کی سوچ اور حرکت سے آشکارا ہورہے ہیں ۔ اوریہ بھی بہت اہم ہے کہ وائرس چھوٹے چھوٹے غبار اور ذرات کی شکل میں ہوں جو مختلف رسائل و کتابوں کی مددسے اور پڑیوں کی شکل میں مطلوبہ اہداف تک پہنچائے جائیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ایک انسان کی غلطی سے ہزاروں انسان تک دن بدن رسائی حاصل کرلے ۔ اس لئے سب سے بڑا خطرہ اور ڈر یہ ہے کہ کوئی منحرف الخیال شخص لوگوں کو تباہ کرنے کے لئے اور اس کی زد میں پورا کرۂ ارض آجائے ” ویمکن استخدامہ ونشرہ بسھولة تامة من خلال الرساٸل والکتب او أیة اجھزة متناھیة فی الدقة والصغر لأنہ لایعدو کونہ مجرد ذرات غباریة تحمل فیروسات متنوعة الخطورة والموت ویمکن اذا حدث خطأ بشری أن یقضی آلاف الاشخاص فی غضون ایام لذلک فإن الخوف الاکبر ھو أنیستخدم أحد المنحرفین”المعرفة القاتلة لتدمیر البشر وربما الأرض برمتھا “(بنا ٕ الکون ومصیر الإنسان نقض لنظریة الانفجار الکبیر حقاٸق مذھلة فی العلوم الکونیة والدینیة ص٦٧٦) اب جبکہ کرونا وائرس کا خوف اس قدر دلایا جارہے ،ا ور دنیا ڈر اور خوف کے ماحول میں اپنے گھروں میں سمٹی ہوئی ہے ۔اور لاکھوں انسان کے بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ دنیا Who سے سوال کرنا چاہیے کہ پہلے اس بات کو کلیر کرےکے یہ وائرس قدرتی اور وبائی ہے یا کسی لیبارٹ میں تیار ہوا ہے اور غلطی سے لیک ہوگیا ہے بہر حقائق سامنے آنے چاہیں، نیز عرب و عجم کے علماء کو بھی صرف مدرسہ بند کرو مسجد بند کرو ۔ یہ وبائی اور طاعونی مرض ہے اس طرح کا اعلان بغیر سوچے سمجھے نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی حکومت سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ۔کہاں سے خبر آئی ہے ،کس نے خبر دی ہے ۔ وہ کس ایجنسی کا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ کم از کم علماء تو اس کی جرأت کریں ۔ اس طرح ہلکے انداز میں اسلامی اصولوں سے پیچھے ہٹتے چلاجانا ہماری ذہنی اور فکری رسا ئی پر سوال کھڑا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے ۔امت کو اس کو اور انسانیت کو صحیح فیصلے تک پہنچائے جس میں عالم انسانیت کے لئے خیر کا سامان ہو (جاری)






